کالمز

سیٹھ ،ساہوکار اور پی آئی اے

ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی ؔ

ایک بار پھر خبر آئی ہے کہ حکومت نے پی آئی اے کا خسارہ پورا کرنے لئے 13 ارب روپے کا ’’بیل آوٹ پیکچ‘‘تیا رکیا ہے۔ انگریزی زبان میں ’’خیرات ‘‘کو بیل آوٹ پیکچ کہتے ہیں۔ پی آئی اے کی مثال ایک دکان ،ہوٹل اور ریستوران کی ہے جس میں کاروبار کرکے منافع کمانا چاہیے اور سال بعد حکومت کو 100ارب روپے یا 200ارب روپے کا منافع دینا چاہیے۔ پی آئی اے ہر چھ ماہ بعد خسارے میں جاتی ہے حکومت سے خسارہ پورا کرنے کیلئے خیرات مانگتی ہے۔ حکومت سال بھر میں 40ارب یا 60 ارب روپے کی خیرات دیکر پی آئی اے کو خسارے سے نکالتی ہے، کبھی پائیلٹ کسی جرم میں یورپ یا امریکہ کے کسی ائیر پورٹ پر پکڑا جاتا ہے تو پاکستان کی بد نامی ہوتی ہے کبھی اس کی ائیر ہوسٹس ہیرو ئن سمگل کرتی ہوئی پکڑی جاتی ہے تو پیا را ملک پاکستان بد نام ہوتا ہے کیونکہ پی آئی اے کے نام کا پہلا لفظ پاکستان ہے۔

گذشتہ 20 سالوں میں 4 بار پی آئی اے کی نجکاری کا منصوبہ آیا مگر اپوزیشن اور عدالت نے منصوبے کو ناکام کیا چنانچہ حکومت اس بوجھ کو کندھے پر جنازے کی طرح اُٹھائے پھرتی ہے اگر پی آئی اے کی نجکاری ہوگئی سیٹھ ساہوکار نے اس کو خرید لیا تو پہلے چھ مہینوں میں سیٹھ کو 20 ارب روپے کا منافع ملے گا ہر 6 ماہ بعد منافع کی شرح بڑھتی رہے گی دنیا بھر کی فضائی کمپنیاں اس طرح کاروبار کرتی ہیں کوئی فضائی کمپنی حکومت یا کسی سیٹھ سے خیرات مانگ کر نہیں چلتی پرائیویٹائزیشن یا نجکاری اس طرح کی ناکامیوں اور نامرادیوں کا واحد حل ہے مگر کیسے ؟یہ بات قابل غور بھی ہے باعث عبرت تھی حبیب بینک سرکاری تحویل میں تھا تو خسارہ دکھاتا تھا ٹیلیفون کا محکمہ سرکاری تحویل میں تھا تو خسارہ دکھاتا تھا گورنمنٹ ٹرانسپورٹ سروس یعنی جی ٹی ایس کے نام سے سرکاری ٹرانسپورٹ کمپنی ہر سال خسارہ دکھاتی تھی۔

آفتاب احمد خان شیر پاؤ کی حکومت تھی خالد عزیز ایڈ یشنل چیف سکرٹری تھے ترقی اور مالیات کے محکمے اُس کے ماتحت تھے جی ٹی ایس کے خسارے پر میٹنگ بلائی گئی خالد عزیر نے شستہ انگریزی میں جی ٹی ایس کے ایم ڈی سے دو سوالات پوچھے پہلا سوال یہ تھا کہ جمرود ،شاہ کس اور لنڈی کوتل کا ان پڑھ یا نیم خواندہ حاجی ٹرانسپورٹ کے کاروبار میں خسارہ نہیں کرتا حکومت کے پڑھے لکھے،تربیت یافتہ افیسر ہر سال خسارہ کیوں دکھاتے ہیں ؟دوسرا سوال یہ تھا کہ نوشہرہ اور مردان میں یہ بات کیوں مشہور ہے کہ جی ٹی ایس کی بس کا ایک ٹائر ڈرائیور کیلئے ،دوسرا ایم ڈی کیلئے ،تیسرا ورکشاپ منیجر کیلئے چوتھا کلینر کیلئے چلتا ہے حکومت اور مسافروں کیلئے کوئی ٹائر نہیں ہے ایم ڈی لاجواب ہو ا تو خالد عزیز نے پوچھا اگر ہم جی ٹی ایس کی پرائیوئزیشن کرینگے تو تمہار ا کیا رد عمل ہوگا؟ ایم ڈی نے کہا ملازمین ہڑتا ل کرینگے خالد عزیز نے کہا ہم ایسا ہونے نہیں دینگے ایم ڈی بولا ملازمین عدالت سے حکم امتناعی حاصل کرینگے اور اپنا مقدمہ لڑینگے خالد عزیز نے کہا اس کا حل میر پاس ہے جی ٹی ایس کی سروس بند کر دی گئی ،بسوں کو نیلا م کر دیا گیا ،املاک کو فروخت کر دیا گیا ہر چھ ماہ بعد خسارے والی بات ختم ہوگئی سیٹھ کو نوکری میں ملازم پراگرس دکھائے گا تو نوکری کے گا پراگرس نہیں دکھائے گا تو گھر چلا جائے گا۔

پی آئی اے کا یہی حل ے دوسرا کوئی حل نہیں اور اس معاملے میں پی آئی اے جیسے ادارے اور بھی ہیں مثلاً واپڈا ہے ،سٹیل ملز ہے 23 سرکاری کمپنیاں اور بھی ہیں جو ہر سال خسارہ دکھاتی ہیں ملکی معیشت پر بوجھ کی حیثیت رکھتی ہیں جب بھی اس طرح کی ناکام کمپنیوں سے جان چھڑانے کی تجویز آتی ہے مفاد پرست لوگ سامنے آجاتے ہیں عدالتوں سے حکم امتناعی حاصل کر کے رکاوٹ پیدا کر لیتے ہیں اور خسارے کا سارا کاروبار پھر سے چل پڑتا ہے۔

پاکستان کی معیشت پر خسارہ دکھانے والی کاروبای کمپنیوں کو بوجھ بنا کر لا دا گیا ہے اگر 2018 ء میں الیکشن کے ذریعے یا کسی اور طریقے سے آنے والی حکومت نے ان کمپنیوں کو سیٹھ ،ساہوکار کے ہاتھ فروخت کر دیا تو حکومت سالانہ 10 ارب روپے کے نقصانات سے بچ جائیگی اور محاصل کی مد میں حکومت کو سالانہ 400 ارب روپے کی اضافی آمدنی ہاتھ آئیگی کسی کاروباری کمپنی کو ہر سال خیرات دے کر چلانا ملکی مفاد میں نہیں ہے قومی مفاد کا تقاضایہ ہے کہ ایسی کمپنی سے پہلی فرصت میں جان چھڑائی جائے ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button