کالمز

خوراک یا پھر زہر؟

تحریر:  عارف نواز بلتستانی

زراعت (Agriculture) جس کامعیشت میں بہت بڑا کردار ہے. وہ شعبہ ہے جس کا تعلق زمین سے پیداوار حاصل کرنے سے ہے مثلاً کپاس اور گندم کی پیداوار۔زراعت  کا شعبہ خاص کر ترقی پذیر ممالک میں بہت اہمیت رکھتی ہیں کیوں کہ ان ملکوں کی آمدنی کا  درومدار اسی شعبے سے ہے، اور یہی ممالک دنیا بھر کے خوراک کی ضروریات کو پوری  کر رہی ہے۔ایک سروے کے مطابق دنیا کی  موجودہ آبادی 7.6 بلین ہے اور  2025 تک 8 بلین اور 2050 تک 9 بلین ہو جائے گی اور ان خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا بہت ضروری ہے ، لہذا  زراعت کی پیداوار میں اضافہ کرنا  آج اور کل کے لئے بےحد ضروری ہے ۔ اس بات کی پیش نظر اب دنیا  ماضی کی نسبت زراعت کے شعبے میں  نت نئے  سائنسی اور تکنیکی  طریقے استعمال کر رہے ہیں اور ان ترقیوں کی وجہ سےفصلوں اور سبزیوں کی پیداوار بھی خاصی بڑھ گئی ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک تنظیم ‘  ‘The food and Agriculture Organizationکی ایک رپورٹ کے مطابق 2050 تک  سالانہ 200 ملین ٹن گوشت کی ضرورت ہو سکتی ہے اس لئے بھی زراعت کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا تاکہ مویشیوں کے لئے چارہ تیار کر سکیں۔اس وقت پاکستان میں تقریباً پانچ سو سے زائد ایگری کلچرل کمپنیاں موجود ہیں جو اپنے جدید وسائل استعمال کرکے ملک میں زراعت کو وسعت دے رہی ہیں اور اس میں کھلی مسابقت موجود ہے۔ان کمپنیوں کی بدولت ہی پاکستان دنیا بھر میں اجناس پیدا کرنے والا ایکسپورٹر ملک کہلاتا ہے ۔اسکا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا کہ دنیا میں گندم کی پیداوار کے حوالے پاکستان کا شمار 8 ویں،خوبانی میں3،بھینس کے دودھ میں2،کاٹن میں4کاٹن سیڈ میں 3،کھجور میں 5، آم میں6،پیاز میں2،مالٹے اور چاول میں11 اور چینی میں 5 ویں پوزیشن کا حامل ہے۔

زمین کو قابل کاشت بنانے اورفصلوں کو بیماریوں سے بچانے کے لئے پیسٹی سائیڈز کے شعبے نے بھی بے پناہ ترقی حاصل کی ہے تاہم نچلے درجہ کی بہت سی کمپنیوں نے جعل سازی سے کاشت کاروں کو کنگلا بھی کردیا ہے اور مارکیٹ میں خرابی پیدا کی ہے جس کی وجہ سے مارکیٹ میں زہریلے کیمیکل سے آلودہ سبزیاں اور پھل سپلائی ہورہے ہیں اور یوں یہ زہریلی اجناس جب انسانی معدے میں جاتی ہیں تو بیماریوں کا موجب بن جاتی ہیں۔اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ملک میں بیماریاں پھیلانے میں زہریلی سبزیوں اور پھلوں کا اہم کردار ہے اور اس پر گہری تشویش پائی جاتی ہے

زراعت میں استعمال کیے جانے والےغیر معیاری  ایگری کیمیکلز  ،اور اینٹی بائیوٹیکٹس کا استعمال اور ان کے طے شدہ مقدار سے زیادہ  کا استعمال انسانی صحت کے لئے بے حد  نقصان دہ ثابت ہو تے ہیں ۔اس لئے ان کے استعمال  پر کنٹرول  کرنا بہت ضروری ہے۔اور اس کے علاوہ اجناس میں  قدرتی طور پر پائے جانے والے زہریلے مادے بھی  کھانے کا  جصہ بن کر خوراک میں شامل ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے بھی بہت سارے بیماریوں کا باعث بن رہے ہوتے ہیں ۔

کھانا کھانے کا تو ہر کوئی شوقین ہوتے ہیں ۔  اگر دیکھا جائے تو زیادہ تر گھروں میں گھر کی عورتیں ہی سارے گھر والوں کے لئے کھانا بنا رہی ہوتی  ہیں اور گھر والوں کے صحت کو لے کے بہت حساس ہوتے ہیں  اور ان کی خوراک کا بھی بہت خاص خیال رکھتے ہیں۔

شہروں میں اکثر عورتیں خود بازار سے سودا سلف لے آتی ہیں  اور اس کی  وجہ  جب ان عورتوں سے پوچتے  ہیں تو کہتی ہیں ” تاکہ ہم کولٹی چیک کر سکیں اور وہ فریش ہے یا نہیں  یہ بھی پتا کرنا  ہوتا ہے   خاص کر سبزیوں کے خریداری کے موقعے پر  ” اور جب آپ ان سے پوچھیں کہ فریش ہونا اتنی اہم کیوں ہے؟ جواب یہ ہوگا مثلا اس سے سعی نیوٹریشنز ملتی ہیں  جو کہ صحت کے لیے بے حد ضروری  ہوتی ہے۔اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ کھانے میں سب سے زیادہ فائدہ مند چیز کیا ہو سکتی ہے؟ عورتوں میں سے اکثر کا جواب یہی ہوگا کہ سبزیاں صحت کے لئے بہت ضروری ہوتی ہے اس لئے ہم اپنے گھر والوں  کو ہمیشہ سبزیاں ہی کھلاتی ہیں۔

جب بچہ پیدا ہوتا ہے اور ماں کا  دودھ سے ہی بچہ کی خوراک  کا شروعات  یعنی ابتدا  ہو جاتی ہے۔اور دنیا بھر میں یہ بات مانا جاتا ہے کہ ماں کا دودھ  ہی بچے کے لئے سب سے محفوظ اور اچھی خوراک ہوتی ہے۔ لیکن اس بات کو لے کر ایک بار کچھ ڈاکٹروں کی ایک ٹیم نے ماں کی دودھ کے اوپر ایک بہت ہی اہم ریسرچ کی ، لیکن اس ریسرچ کی رپورٹ پڑھ کر سارے ڈاکٹرز حیران ہوگئیں  اور آپ اور ہم بھی حیران ہو جائیں گے۔وہ  کچھ یوں تھی۔

اس ریسرچ کے لئے ڈاکٹروں کی ٹیم نے کچھ ماؤں کوٹیسٹ کے لئے  راضی کیے   اور ان کے سیمپلز لیے اور ان کی ٹیسٹنگ کیا  لیکن رپورٹ ڈاکٹروں کی سوچ سے بلکل برعکس تھی ۔ ایک”  اینڈو سلفین” (Andosulfan)  یہ ایک ایگریکلچر  کیمیکل ہے اور 2011 میں  اسٹاک ہولم کنونشن نے انسانی زندگی اور ماحولیاتی نقصانات کی وجہ سے اس کی تیاری اور فروخت  اور استعمال پر  عالمی پابندی عائد کی گئی ہے۔ ابھی حال ہی میں  50  سے زائد ممالک نے بھی  اس کے استعمال پر پابندی عائد کر دی  ہے۔   اور کولوری فورس  اور اس سے ملتی جلتی اور بھی بہت سارے کیمیکلز  جو کہ اصل میں پیسٹی سائیڈز ہیں  یہ ماں کی دودھ میں سے ملے ، اور حیران کر دینے والی بات یہ ہے کہ ماں کی دودھ میں طے کردہ مقدار کی نسبت  اینڈو سلفین کی مقدار 80 فیصد اور کولوری فورس 40 فیصد  زیادہ پایا گیا ۔

اور یہ سب ماں کی دودھ کے ذریعے بچے کو مل رہے تھے ۔ اگر  دیکھا جائے تو ماں کا دودھ بچے کے لئے بنیادی خوراک ہوتی   ہے اور اس کے پیدا ہوتے ہی اس کو دودھ کی شکل میں زہر مل رہے ہوں تو بچے کی صحت کا کیا ہوگا؟

اینڈو سلفین کی وجہ سے بہت سارے بیماریاں جنم لیتی ہیں جن میں سر درد، الٹی،  دماغی الجھن ،لرزش، سر کا چکرانا اور اعضلاتی حرکت میں بے ربطی وغیرا قابل ذکر ہیں ۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ماں کی ٍدودھ میں یہ سب کہاں سے آئے؟

جواب بہت ہی آسان اور واضح ہے یہ سب ماں جو سبزیاں کھا رہی ہوتی ہیں  ان میں یہ پیسٹی سائیڈز موجود ہوتی  ہیں اوریہ  سب  خوراک کے ذریعے دودھ میں شامل ہوکر بچے تک پہنچ  رہے ہوتے ہیں۔اگر دیکھا جائے تو  بہت ہی تعجب کی بات  یہ ہے کہ ماں کی دودھ میں بھی پیسٹی سائیڈز یعنی زہر موجود  ہیں ۔پیسٹی سائیڈز  ایک انگیریزی لفظ ہے جس  کا مطلب ”کیٹرے مارنے کی دوا ” ہے

۔ویسے تو ہم اس کو دوا کہتے ہیں پر حقیقت میں یہ ایک زہر ہے  جو کیٹروں کو مارتا ہے۔اس لئے ہمیں یہاں یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ یہ دوا نہیں بلکہ یہ  ایک زہر ہے جس کا کام صرف مارنا ہے نا کہ بچانا۔آپ ہی  سوچھئے   یہ سب ہماری غفلت کی وجہ سے ہی  ہو رہے  ہیں  اگر ہم ان سبزیوں کے کاشت کے وقت ان پیسٹی سائیڈز کا استعمال کم کر دیں تو ہم ان تمام بیماریوں سے بچ سکتے ہیں اور آنے والی نسل کو بھی بچا سکتے ہیں۔

اور اگر ہم ان ادویات کو استعمال کیے بغیر کاشتکاری کریں پھر بھی ہم اچھی اور خاصی مقدار میں اپنی فصلوں اور سبزیوں کی پیداوار کو بڑھا سکتے ہیں ،اس سے مطالق آپ کو کئی روشن مثالیں مل جائیں گے۔رہی بات  ایگری کیمیکلز کے کاشتکاری  میں استعمال سے مطالق دو طرح کے رائے ہیں ایک گروہ کا کہنا ہے کہ ان پیسٹی سائیڈز کے بغیر کاشتکاری ممکن نہیں اگر ہم ان کیمیکلز کا استعمال نہیں کریں گے تو ہماری تمام فصلیں ضیاح ہو جائیں گے،  اور دوسرے گروہ کا کہنا ہے کہ ان پیسٹی سائیڈز کے بغیر بھی فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کر سکتے ہیں ۔

انہی کیمیکلز کی وجہ سے ہی کسان اور ساتھ ہی ساتھ دوسرے لوگ جو ان اشیاء کا استعمال کرتے ہیں ان کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔میرا خیال ہے کہ اگر ہم بغیر کیمیکلز کے کشتکاری کر سکتے ہیں تو اس سے بہتر کوئی چیز نہیں  اور ہمیں اس کی طرف ہی بڑھنا چاہئے۔لیکن یہ سب ایک دن میں یا پھر ایک دم سے ممکن نہیں ہے ، ہماری پوری قوم  کو اس مسلے کو سنجیدگی سے  لینا ہوگا تاکہ اس کا بروقت تدارک ہو سکیں۔

اس کا تدارک محکمہ زراعت بھی کرسکتا ہے۔قومی سطح پر آگاہی مہم چلائی جائے جس میں کسانوں کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان کا ایک غلط فعل کسی کی جان بھی لے سکتا ہے اور حکومت کو اس ضمن میں ایک کمیٹی تشکیل دینی چاہئے جس کے ذمے منڈیوں میں آنے والی سبزیات کی کوالٹی کو جانچنا ہو ۔ گورنمنٹ ایک بوری پر 12 فیصد ٹیکس لیتی ہے۔ گورنمنٹ کو چاہیئے کہ اس ٹیکس میں سے کچھ حصہ لیبارٹریز پر صرف کیا جائے تا کہ سبزیات کی کوالٹی کو بہتر بنایا جا سکے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button