عورت اور گناہ۔۔
شیر جہان ساحلؔ
مشرقی مسلم معاشرے ہمیشہ عورت پر پابندی کے حق میں رہتے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ عورت کی آزادی ایک قسم کی بے پردگی ، بے حیائی اور گناہ ہے یہ گناہ انسان کو جنت سے محروم کردے گی۔ ان معاشروں میں عورت پر پابندی اور مظالم کو مذہبی حمایت حاصل رہتی ہے۔ تاریخ پر اگر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاشرے اسلام سے پہلے بھی عورت پر پابندی کے حق میں تھے۔ ظہور اسلام سے پہلے عرب میں بیٹیوں کو زندہ دفنانا عورت سے نفرت کی ایک زندہ مثال ہے۔ برصغیر کے راجپوت اور پٹھان عورت کو پردے میں رکھنے اور عورت پر ظلم کرنے کو مردانگی کی علامت تصور کرتے تھے۔ اُن معاشروں میں عورت ایک ناپاک مخلوق تصور کی جاتی تھی جو کسی حد تک آج بھی برقرار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بہت سے راجپوت جو مذہب کے لحاظ سے مسلم نہیں ہونگے مگر عورت کی آزادی پر سختی سے عمل کرتے ہونگے۔ تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی یہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت پر پابندی مذہب اسلام سے پہلے کی دور یعنی دور جہالت کا دیا ہوا تحفہ ہے اسلام سے اسکا کوئی تعلق نہیں۔ آج پاکستان کا ہر مرد عورت پر پابندی اور عورت کو پردے میں رکھنے ، نیز یہ کہ عورت پر ظلم کرنے کو ہی مردانگی کی علامت تصور کرتا ہے۔
اس کے بعد انسانی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر اور ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عورت شروع کے معاشرے میں کس درجے پر فائز تھی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ انسان جب خانہ بدوشی کی زندگی ترک کرکے باقائدہ طور پر معاشرہ آباد کیا تو اس وقت معاشرے میں عورت کی حکمرانی تھی کیونکہ خانہ بدوشی کے خاتمے اور معاشرے کے قیام میں عورت کا بڑا ہاتھ تھا ۔ رشتے ماں کے نام سے جانے جاتے تھے۔ تمام معاشرے میں مدرسری خاندان آباد تھے۔ شخصی املاک کا کوئی تصور نہیں تھا اسی لئِے معاشرے میں جرائم نام کی کوئی چیز نہیں تھے۔(اسکا ذکر اپنے پچھلے مضمون "چور چوکیدار ” میں کرچکاہوں) اس کے بعد جب عورت سے حکمرانی چھین لی گئی اور مرد کے ہاتھ آئی تو عورت کو غلام بنا کر رکھ دیا گیا۔ یہ انسانی فظرت ہے کہ جب کسی سے اقتدار چھینی جاتی ہے تو اسی کو ہی اپنے لئے سب سے زیادہ خطرہ تصور کی جاتی ہے ، اس وقت بھی ایسا ہی ہوا، کیونکہ مرد نے عورت سے معاشرتی اقتدار چھین لیا تھا اور یہ لازم تھا کہ وہ اپنے لئے عورت ہی کو خطرہ تصور کرتا تھا۔ اسکے بعد مرد اپنے ہر پلاننگ میں عورت کو نظر انداز کرتے گیا، عورت کو غلام بنا کر ایک دوسرے کے ہاتھ خرید و فروخت کا سلسلہ شروع کیا گیا اور یہ ہوتے ہوتے جہالت اس درجے پر پہنچا کہ عورت کو مکمل طور پر مکرہ تصور کیا جانے لگا اور معاشرے میں بیٹیوں کو زندہ دفنانے کا رواج شروع ہوا۔ انسانی تاریخ کے اس مشکل ترین دور میں پیغمبر اسلام اس دنیا میں تشریف لائے اور بارگاہ الہی سے محمدؐ کو اس مقام پر بھیجا گیا جہان یہ انسانیت سوز حرکت ہورہے تھے۔ پیغمبراسلام نے عربوں کو اس مذموم حرکت روکا اور بیٹیوں کو اللہ تعالی کی رحمت قرار دیا ۔ جسے کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا۔ مگر افسوس اس بات کی ہوتی ہے کہ پاکستان میں عورت پر آئے روز پابندی عائد کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور عورت پر مظالم کو جائز قرار دینے کے لئے مذہب کو بطور ہتھیار استعمالکیا جاتا ہے جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ہم عورت پر پابندی عائد کرنے والے ان غلام ذہنیت کے لوگوں کو ، جو مذہب کو اولیت قراردیتے ہیں ، عورت پر ظلم کرنے کو مذہبی فرض سمجھتے ہیں،عورت کی آزادی کو بے حیائی اور گناہ سمجھتے ہیں۔اور انکا دعوی ہے کہ یہ گناہ مسلمان کو جنت سے محروم کردےگی۔ تو یہ واضح کیا جاتا ہے ہے کہ جس جنت کے لئے یہ پاگل بنے پھیر رہے ہیں وہی جنت اسی عورت کے قدموں تلے موجود ہے۔اور جان ہتھیلی پہ رکھ کر یہ سوال کرتا چلوں کہ مرد عورت سے پیدا ہوکر پھر اسی عورت سے افضل کیسے بنتا ہے، سمجھ سے بالاتر ہے۔