کس حمام کی بات کروں ۔۔۔
تحریر : حاجی سرمیکی
پاکستان کے گنجان اور بڑی آبادی والے شہروں میں محلوں کے اندر کوڑے والی جگہوں ، ٹرک ، بسیں یا بڑی لاریاں کھڑی ہونے والی جگہوں اور کھیل کے میدانوں کے کونوں میں اکثر نوشتہ دیوار "دیکھو گدا پیشاب کررہا ہے”۔ "سامنے مسجد ہے شرم کرو”اور "قبلہ اس طرف ہے احترام کرو” وغیرہ ایسے جملے ہیں جنہیں وہ لوگ بخوبی سمجھ سکتے ہیں جو کبھی سربازار ہنگامی صورتحال سے دوچار ہوئے ہوں۔ دراصل یہ جملے "یہاں پیشاب کرنا منع ہے "کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ ایسے فلسفیانہ اختراع کا مطلب لوگوں کو کھلے میدانوں میں موترنے سے باز رکھنے کی کوشش ہے۔ مگر اکثر متاثرین کو اس جملے کے آگے سرخم کئے مصروف عمل دیکھے جاسکتے ہیں۔ سچ ہے کہ ہماری شہری آبادی میں بلدیہ کی جانب سے قائم عوامی حماموں کی کال ہے۔ دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ کل ایمان میں سے صرف صفائی کے نصف حصہ کے دعویداران عوامی حماموں سے منہ پھیرکر برسر میدان جانے سے ہچکچاتے نہیں ہیں۔ بلدیہ کو یہ گھاٹے کا سودا منظور کہاں، جس ملک میں ہوائی کمپنی، ریلوے سروس اور سٹیل ملز غیر منافع بخش متصور کئے جاتے ہوں وہاں بھلا ایک حمام سے منافع کی کیا آس لگائی جاسکتی ہے۔جہاں لب سٹرک رفع حاجت سے غیرت قومی متزلزل ہونے کا امکان ہوتا ہے وہاں قومی لباس قمیض شلوار اس عیب کی مکمل ستر پوشی کا کام دیتا ہے۔اس میدان کے مرد میدان بھی مرد حضرات ہی ہیں خواتین کو ابھی اس معاملے میں کسی کوتاہی کی شکار نہیں دیکھی گئی۔ کہتے ہیں ترقی یافتہ ممالک میں نہانے دھونے کیلئے اول تو سوئمنگ پول کا باقاعدہ انتظام ہوتا ہے جہاں حفظان صحت کے اصولوں کے عین مطابق فرحت بخش پانی موجود ہوتا ہے۔ دوسری طرف صاف ستھرے پبلک لیٹرین بھی موجود ہوتے ہیں۔ ابلاغ عامہ سے وابستہ ایک نامور محکمے کی عمارت میں موجود حمام میں حاجت تمام کرنے کا اتفاق ہوا ۔ اندر جاتے ہی سگریٹ بولیوں کی بھرمار دیکھی ، لوٹے کی حالت دیکھ کر تو ” لوٹے”ہی یاد آگئے ۔ لوٹنے کا دل تو کیا مگر ہنگامی حالت ایسی تھی کہ لوٹا نہ گیا۔ بحر کیف اندر بیٹھے محل وقوع کا جائزہ لیا تو بوائز ہاسٹل کے عمومی حماموں کی طرح وہاں بھی منچلوں کی طرف سے شگفتہ جملے لکھے دیکھے گئے۔ ان میں فلموں کے نام، کچھ فون نمبرز، کچھ ناشائستہ جملوں کے علاوہ جو بات زیادہ قائل کرنے والی تھی وہ یہ کہ عین سامنے جلی حروف میں لکھا ہوا تھا دائیں دیکھیں، پھر دائیں جانب لکھا ملا بائیں دیکھیں اور بائیں جانب لکھا ہوا ملا اوپر دیکھیں یہاں تک کہ اوپر لکھا ہوا ہے پیچھے دیکھیں اور پیچھے دیوار پر لکھا ہوا ملا کہ یہ کیا ادھر ادھر، دائیں بائیں اوپر نیچے دیکھ رہے ہو، جلدی سے اپنا کام کرو اور نکل جاو ،دوسروں کو بھی موقع دو۔حد ہوگئی جناب ۔ ہم کس کام سے گئے تھے اور یہ ہمیں کس کام پر لگا گئے۔ یقیناًیہ کسی فارغ آدمی کا کام ہوسکتا ہے جو یا تو حمام کے حدود میں رہ رہ کر یہ تحریک پیدا کربیٹھے ہیں یا پھرکوئی بہت شاطر دماغ شخص ہے۔ باتھ روم کی صفائی کی حالت انتہائی ناقص تھی۔ تعفن، گندگی اور کچرے کی وجہ سے کچھ پل بیتا نہیں جاتا تھا۔ حالانکہ اسی عمارت سے گھرداری، سماجیات، حفظان صحت اور شہری فرائض پرنصیحتیں ہوا کے دوش پر چارسو پھیل جاتی ہیں۔ یہ کیا بات ہوئی بھلا، خود میاں فصیحت دوسروں کو نصیحت۔ بات صرف یہیں کی نہیں، کسی اعلیٰ تعلیمی ادارے کے زیر اہتمام قومی سطح کے ادبی پروگرام میں شرکت کا موقع ملا۔ ادھر بھی دن بھر جاری تقریب میں بیٹھے بیٹھے تھک ہار کر حاجت دور کرنے کی خواہش ہوئی۔ صدر دروازے پر ایک نوجوان سہولت کار کھڑا تھا ۔گلے میں کارڈ ڈالے، سر کاکول سے مشک سرسوں کی بھینی بھینی خوشبو آرہی تھی، میرے چہرے کے تاثرات دیکھ کر ساتھ ہولیئے ۔ اس کی یہ ادا بہت بھائی اور تین چار کمروں پار جاکر اس نے ایک پگڈنڈی کی طرف جانے کا اشارہ کیا اورہدایات دیں کہ واش روم اس طرف ہیں۔ اس طرف گیا تو وہ جدھر تھا اپنا پتہ خود بتا تے پایا۔ اندر انگریزی اور ہندوستانی دونوں قسم کی لینڈنگ سروس موجود پائی مگر جو حال ان لیٹرینوں کا جودیکھا وہ انبیان ایبل ہے۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ایک ایسے ادارے میں جہاں زیور تعلیم سے آراستہ ہوتے افراد کہ جن سے لوگوں کی امیدیں روشن ہیں وہ افراد اندر ہی اندرعوامی امیدوں پر توپانی پھیر رہے ہیں لیکن اپنے کئے پر پانی ڈالناگوارا نہیں کررہے۔ وہاں بھی یہ حال مردانہ مرکز سہولیات میں دیکھا۔ دوکے دروازے کھلے دیکھ کر ہر ایمرجنسی کیس اسی طرف لپکتے مگر اندر سے ان کی حالت غیر ہو کر الٹے پاوں لوٹ آتے تھے۔ صرف یہیں نہیں جناب۔ کچھ مساجد سے ملحقہ غسل خانوں میں بھی ناگفتہ حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ مساجد تو وہ اہم جگہیں ہیں جہاں صفائی تو صفائی پاکی کی بنیاد پر ایمان کی عمارت کھڑی کی جاتی ہے۔ مگر ان حماموں کی حالت دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے کا دل کرتا ہے۔شاید انہیں بھی اپنے ایمان کا نصف حصہ پورا کرنے کے لئے کوئی عیسائی بھنگی دستیاب نہیں۔ سکردو گلگت روڈ پر موجود کئی ایک ہوٹل ایسے غیر معیاری حماموں کی ہماہمی سے مہمانوں کی تواضح کرتے ہیں ۔ یقیناًانتظامیہ کچن میں چھاپے تو مارتے ہوں گے مگر ان کا حمام سے کیا کام۔ جس کا کام آخر اسی کوہی ساجھے۔ان سکولوں کی تعداد ان گنت ہیں جہاں طلباء کی دافع حاجت کے لئے کی گئی تعمیرات پانی کی دستیابی کے باوجود بھی کثرت استعمال سے علم کے پروانوں کی فہم و شعور پر گریہ کناں نظر آتے ہیں۔ کھرمنگ کی جانب روانہ ہوتے ہوئے ایک گرلز سکول میں افراد باہم معذوری کے لئے لیٹرین کو قابل رسائی بنانے کے لئے سروے کرنے کی غرض سے واش روم کی طرف جانے کا اتفاق ہوا ، خدا معاف کرے۔ اس کا سوچ کر ابھی قلم وقرطاس سے گھن آنے لگتی ہے۔ کم و بیش تمام تر سکولوں میں اس کی یا تو سرے سے تربیت ہی نہیں دی جارہی یا پھر اسے گندگی پر صاف ستھرے لوگوں نے بحث کرنا گوارا نہیں کیا۔البتہ اسمبلیوں میں ناخن کاٹنے، بال کٹوانے، جوتے پالش کروانے اور دانت کی صفائی چیک کرنے کے لئے باقاعدہ کلاس ٹیچرز معائنہ کیا کرتے ہیں۔ نیم فوجی جوانوں کے زیر استعمال دوچند حماحموں میں بھی عمومی رجحان دیکھا گیا۔ با ت صرف یہیں تک نہیں رہتی۔ غور کریں تو یہ منفی رویہ ایک قومی المیہ بن چکا ہے۔ کاروباری حماموں میں بھی معیاربہت بہتر نہیں مگر توجہ طلب ضرور ہیں۔ پرائمری سکولوں کی سطح پر زیادہ تر سکولوں میں موجود حمام ناقابل استعمال ہیں۔ اکثر سکول کے بچوں کو کھیتوں کی طرف جاتے دیکھے گئے ہیں ۔ جس سے کھلے میدانوں میں حاجت رفع کرنے کے حوالے سے منفی رویے جنم لیتے ہیں جو بڑے ہو کر ان کے ذہنوں سے محو ہونا محال ہوجاتے ہیں۔ہوا اور گندگی کے ذریعے پھیلنے والی جلدی، آنکھوں کی اور پیٹ کی بہت بری قسم کی بیماریوں میں سے نوے فیصدی بیماریوں کے پھیلاو میں بی مکھی بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ اول تو سکولوں میں سرے سے سکریننگ کیمپس ، میڈیکل کیمپس یا دیگر طبی امداد کی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس پر ستم بالاستم یہ کہ گندگی کے ڈھیر لگ رہے ہیں۔ کئی جگہوں پر سوریج کا پانی لیک ہو کر آب رواں کا حصہ بن رہا ہے جس سے یقیناًآبی اور انسانی حیات کو نقصان کا خدشہ ہے۔ ہم جس سکول میں پڑھتے تھے اس میں تو میٹرک تک کے بچوں کے لئے بھی سکول کے اندر کوئی انتظام سرے ہی موجود نہیں تھا ، شاید تاحال وہاں ایسی کوئی سہولت دستیاب نہیں، تاہم سکول کے بچے سکول کی چاردیواری سے باہر جاکر کسی مقامی کسان کے تعمیرکردہ غیر معیاری، دیسی اور کھلے لیٹرین سے فراغت حاصل کرلیا کرتے تھے۔ سکردو شہر میں قتل گاہ مارکیٹ، کسان مارکیٹ، یادگار چوک کی عقبی گلیوں سے لے کر میونسپل سٹیڈیم کے کونے کھدروں تک میں یہ گندگی پھیل رہی ہے مگر عوامی لیٹرین کی کمی اور گمنامی سے یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ سکردو میں چلنے والی تیز و تند آندھی سے کون واقف نہیں ، ایسے میں ریتیلی میدانوں، گلیوں اور کونوں میں موجود گندگی کے ذرات کی ہوا میں شامل ہوکر عوام کو متاثر کرنے کے خدشے سے انکار ممکن نہیں۔ عوام میں یہ شعور بیدار کرنے کی اشد ضرورت تو ہے مگر جب تعلیمی اداروں، ذرائع ابلاغ کے مراکز اور دیگر اہم عوامی عمارتوں میں موجود حماموں کا کوئی پرسان حال نہیں، جہاں روزانہ حکام اور اہل کار ڈیوٹی دیتے ہیں مگر ان کی حالت زار پر توجہ نہیں جاتی ۔تو ہم روئے روئیں کس منہ سے۔” بس ادھر ادھر ، دائیں بائیں ، اوپر نیچے کوئی کیوں دیکھیں ، اپنا کام کرتے ہیں اور نکل جاتے ہیں، آخر دوسروں کو بھی باری دینا ہے”۔