کالمز

سی پیک کے منصوبے اور ہمارا مستقبل

سی پیک سے جہاں ملک کے چاروں صوبوں کو فائدہ ہوگا وہاں پر گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لئے بھی حکومت نے اس کا حصہ رکھنے کا اعلان کیا ہے اورحکومت کا یہ وعدہ واقعی میں پورا ہوتا ہے یا نہیں یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا چونکہ سی پیک کے حوالے سے گلگت بلتستان کے عوام خصوصا یہاں کے نوجوانوں کی بہت سے توقعات وابسط ہیں اس اہم منصوبے سے ایک طرف علاقے سے بیروز گاری کافی حد تک کم ہوگئی تو دوسری طرف پاک چین اکنامک کویڈور سے یہاں کے عوام کو کاروبار ی سہولتیں بھی حاصل ہوگی اس کے علاوہ یہ بھی نوید سنائی گئی ہے کہ گلگت بلتستان کے اہم شاہراہوں کی تعمیر بھی عنقریب شروع ہوگی جس سے ایک طرف اس خطے میں ہزاروں کی تعدا د میں سیاح ائینگے تو دوسری طرف یہاں کے عوام کو امد ورفت کے سلسلے میں جو مشکلات ہیں اس کا بھی خاتمہ ہوگا جبکہ بجلی کے دو بڑے منصوبوں کو بھی سی پیک میں شامل کرنے کی خوشخبری سنائی گئی ہے اگر چلمیس داس اور پھنڈر پاور پراجیکٹ تعمیر ہوگئے تو پورے خطے میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہوگی اور یہ پسماندہ خطہ بھی ترقی کے میدان میں اگے نکل جائے گادوسری طرف دفاعی لحاظ سے اہمیت کا حامل اور سب سے اہم شاہراہ گلگت سکردو روڈ کی تعمیر کا کام زور شور سے جاری ہے اس اہم شاہراہ کی تعمیر کا ٹھیکہ ایف ڈبلیو او نے حاصل کیا ہے اور تین سال میں اس اہم شاہراہ کو پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے گااور اس اہم شاہراہ کی تعمیر پر 45 ارب کی خطیر رقم خرچ ہوگی ٹینڈر کے مطابق منصوبے پر آنے والی لاگت کا85فیصد ایف ڈبلیو او اور15فیصد این ایچ اے برداشت کرے گی گلگت سکردو اس اہم شاہراہ کی تعمیر نہ ہونے پر خطے کا ہر شخص پریشان تھا چونکہ روزبر وز ٹریفک کے حادثات نے ہر ذی شعور انسان کو پریشان کرکے رکھ دیا تھاگلگت بلتستان کے عوام بلخصوص بلتستان کے عوام نے روڈ کی تعمیر پر خوشی کا اظہار کیا ہے چونکہ سکردو روڈ کی خستہ حالی اور روز بروز اس دفاعی اہمیت کی حامل سڑک پر حادثات نے عوام کو پریشان کرکے رکھ دیا تھا اس اہم شاہراہ کی مرمت تک نہ ہونے سے مسافروں کو اس روڈ پر سفر کرنا ایک عذاب بن گیا تھا سی پیک سے جہاں ملک کے دیگر صوبوں میں تعمیر وترقی کے لئے اربوں روپے رکھے گئے ہیں تو وہاں پر گلگت بلتستان کی حکومت نے گلگت بلتستان کی اہم شاہراہوں کی تعمیرکے ان منصوبوں کو بھی سی پیک میں شامل کر لیا ہے جن میں گلگت چترال ایکسپریس وے شامل ہے جبکہ حکومت نے ،جگلوٹ مظفر آباد روڈ ،بابوسر ٹینل کی تعمیر کی بھی منظوری دی ہے اور ان اہم منصوبوں کی تعمیر پر تین کھرب روپے کی لاگت آئیگی اگر یہ اہم شاہراہوں کی تعمیر ہوتی ہے تو گلگت بلتستان ترقی کی ایک نئی راہ پر گامزن ہوگا اور یہاں سالانہ لاکھوں کی تعداد میں سیاح آئینگے اور علاقے سے بیروزگاری کا بھی خاتمہ ہوگا چونکہ گزشتہ دو سے تین سالوں میں ملکی و غیر ملکی سیاحوں کی ایک کثیر تعداد نے گلگت بلتستان کا رخ کیا ہے اور ہر سال ان سیاحوں کی آمد میں اضافہ ہورہا ہے مگر گلگت بلتستان میں ان کے لئے سب سے زیادہ مشکلات یہاں کی خستہ حال سٹرکیں ہیں اس کے علاوہ محکمہ سیاحت کی طرف سے بھی ان کو معلومات فراہم نہ کرنے کے باعث بھی ان کی تکلیفات میں اضافہ ہورہا ہے اگر گلگت بلتستان کی حکومت بابوسر ٹنیل اور گلگت چترال ایکسپریس وے کی تعمیر میں کامیاب ہوتی ہے تو سالانہ تیس سے چالیس لاکھ تک سیاح ان علاقوں کا رخ کرینگے اس کے علاوہ گلگت چترال روڈ بن جائے تو اگر سیاح چترال کے راستے گلگت بلتستان میں داخل ہونگے اور قراقرم ہائے وے کے راستے بابوسر کے خوبصورت مقامات کا نظارہ کرتے ہوئے اسلام آبادپہنچ جائینگے گلگت بلتستان کے پرامن ماحول کی وجہ سے ہر سال گلگت بلتستان میں سیاحوں کی ایک بڑی تعداد ان خوبصورت علاقوں کا رخ کرتی ہے مگر یہاں آنے والے سیاحوں کو خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے تو دوسری طرف علاقے میں ان کے لئے رہائش کے مناسب انتظامات نہ ہونے سے انھیں سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ہمارے صوبائی وزیر سیاحت فداخان فدا کا کہنا ہے کہ اس سال بھی پچیس لاکھ سے زیادہ سیاح گلگت بلتستان کا رخ کرینگے انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ہاشو گروپ نے گلگت بلتستان میں تین ہوٹل تعمیر کرنے کی رضامندی ظاہر کی ہے اگر واقعی میں ایسی بات ہے تو یہ خطے کے لئے ایک خوشخبری سے کم نہیں ہے گلگت بلتستان میں محکمہ سیاحت کو بھی علاقے میں سیاحت کے فروغ کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگامحکمہ سیاحت کی طرف سے گلگت بلتستان کے مختلف مقامات پر ٹورسٹ پیکنک پوائنٹ بنائے گئے ہیں ان کی مناسب دیکھ بال کرنے کی ضرورت ہے پچھلے سال تو ان پیکنک پوائنٹ سے کسی بھی ٹورسٹ نے کوئی فائدہ نہ اٹھایا حکومت کو ابھی سے ہی ان پیکنک پوائنٹ کی مرمت اور مناسب دیکھ بال کی سخت ضرورت ہے اگر محکمہ سیاحت ان ٹورسٹ پیکنک پوائنٹ چلانے کی اہل نہیں ہے تو پورے خطے میں موجود ان پیکنک پوائنٹ کو کسی سیاحت سے دلچسپی رکھنے والی نجی ادارے کے حوالے کرنا چاہیے تاکہ یہاں آنے والے سیاحوں کو ان علاقوں کے بارے میں معلومات مل سکے گلگت بلتستان پوری دنیا کا ایک جنت نظیر خطہ ہے اور یہاں کی حکومت اس علاقے کی قدرتی خوبصورتی کے حوالے سے دنیا کو آگاہ کریں تو سالانہ لاکھوں سیاح اس جنت نظیر وادی کو دیکھنے ان علاقوں کا رخ کر سکتے ہیں مگر اس حوالے سے اگر سیاحوں کو ان علاقوں کی طرف متوجہ کرانا ہے تو گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو سب سے پہلے یہاں کی سڑکوں کو بہتر بناناہوگاہر ضلع کے ہیڈ کوارٹر میں باقاعدہ طور پر ٹورسٹ انفارمیشن سینٹر قائم کرنے ہونگے پی ٹی ڈی سی کے ہوٹلوں میں سیاحوں کو سہولتیں فراہم کرنی ہوگی ہوٹلنگ کے شعبے میں بہتری لانے کی ضرورت ہے اور ہوٹلنگ کے شعبے میں دلچسپی رکھنے والے افراد کو آسان اقساط پر قرضے دینے ہونگے تاکہ ان خوبصورت علاقوں کی طرف دنیا سے سالانہ لاکھوں سیاح آئے ان سیاحوں کی آمد سے گلگت بلتستان کے عوام ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں چونکہ اب سی پیک پر دنیا کی نظریں اس وقت پاکستان پر لگی ہوئی ہے اور اگر تاریخ کا یہ اہم منصوبہ کامیاب ہوتا ہے تو یہاں اتنے سیاح ائینگے جس کا ہم سوچ بھی نہیں سکتے اور اس حوالے سے ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ ہمارا ہمسایہ ملک کوکبھی ہماری ترقی اس کو ہضم نہیں ہوتی اس دشمن ملک کے غلط عزائم کو خاک میں ملانے کے لئے ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا چونکہ سی پیک کو کامیاب بنانا نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ ہر پاکستانی کی اس اہم منصوبے کی کامیابی میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ ہمارا ملک ایک خوشحال اور ترقی یافتہ ملک بن سکے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button