کالمز

خصوصی عدالتیں

سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے آٹھویں جوڈیشیل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہاہے کہ ملک میں خصوصی عدالتیں مثلاََ ملٹری کورٹ ، انسداد دہشت گردی کی عدالت اور سپیشل ڈرک کورٹ جیسی عدالتیں نہیں ہونی چاہئیں ٹرائل کورٹ ایک ہی ہونا چاہیئے اصولی طور پر اس میں کلام نہیں دسمبر 2014ء کے اے پی ایس حملے کے بعد فوجی عدالتوں کا قانون پاس کرتے وقت سینیٹر میاں رضا ربانی رو پڑے تھے انہوں نے گلوگیرآواز میں کہا تھا کہ ہم مجبوری کی حالت میںیہ بل پاس کررہے ہیں ملک کا کوئی بھی مہذب شہری متوازی عدالتی نظام کا حامی نہیں ہوسکتا لیکن میاں رضا ربانی کی طرح ملک کا ہر شہری مجبوری کی حالت میں خصوصی عدالتوں کو قبول کرتا ہے دوسرا کوئی متبادل نہیں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے پاکستان کی عدلیہ میں بڑا نام پیدا کیاتھا انہو ں نے جسٹس منیر کے مشہور قول کو غلط ثابت کیاتھا مولوی تمیز الدین کیس میں فوج کے حق میں غلط فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ گیارہ جج قلم ہاتھ میں لیکر بندوق والی 3لاکھ فوج کا مقابلہ کس طرح کرسکتے ہیں س پھر عدلیہ ہی نے فوج کے حق میں نظریہ ضرورت کا قانون تراش لیا اے کے بروہی سے لیکر شریف الدین پیرزادہ تک بڑے بڑے وکلاء نے نظریہ ضرورت کی حمایت کی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری واحد جج تھے جس نے فوجی قیادت کا حکم ماننے سے انکار کر کے عدلیہ کا وقار بلند کیا مگر وہ بھی عدالتی نظام کو برطانیہ ، امریکہ ،بھارت ،سعودی عرب ، ایرا ن اور چین کی طرح درست سمت نہ دے سکا ایسی عدالت نہ لاسکا جس کے دروازے مظلوم عوام کے لئے مفت کُھل سکتے ہوں جہاں سے مظلوم کو مُفت انصاف مل سکتا ہو ایک بدمعاش نے بیوہ کے مکان پر قبضہ کیا بیوہ غریب ہے بچے چھوٹے ہیں ایم پی اے اور ایم این اے بدمعاش کی حمایت کرتے ہیں پولیس بھی بدمعاش کا حامی ہے بیوہ کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں انصاف کی دہائی دینے کے لئے پیسہ چاہیئے دولت چاہیئے اور کم از کم 100سال کی عمر چاہئیے ایک اور مثال لے لیں ناخلف بیٹے نے باپ کی غیر موجودگی میں ماں کو گھر کے اندر ذبح کر کے ابدی نیندسلادیا باپ باہرسے آیا اس کو بھی ذبح کر کے دہرے قتل کی واردات کے بعد روپوش ہوا پولیس نے کھوج لگا کر پکڑ لیا 3سال بعد ماتحت عدالت نے ملزم کو سزا ئے موت دے دی عدالت عالیہ نے 6سال بعد ماتحت عدالت کی سزا کو کالعدم کرکے ملزم کو باعزت بری کرنے کا حکم دیا سپریم کورٹ میں اپیل ہوئی 12سال بعد سپریم کورٹ نے ماں باپ کے قاتل کو رہا کرنے کا حکم دیا استغاثہ کی طرف سے پبلک پراسیکیوشن برانچ کا تنخواہ دار وکیل پیش ہوتا تھا ملزم کی طرف سے مقدمے پر 55لاکھ روپے خرچ ہوئے معاشرے کو منفی تاثر ملا کہ ماں باپ کے قاتل کے لئے کوئی سزا نہیں ہے قاتل پیسہ خرچ کرے تو سزا سے بچ سکتا ہے یہ زمینی حقائق ہیں جن کی وجہ سے خصوصی عدالتوں خاص کر فوجی عدالتوں کی ضرورت پڑتی ہے عوام مطالبہ کرتے ہیں کہ مقدمہ فوجی عدالت کو منتقل کیا جائے انصاف کے دو اہم تقاضے ہیں پہلا تقاضا یہ ہے کہ انصاف مفت ہو دوسرا تقاضا یہ ہے کہ انصا ف بروقت ملے دیوانی مقدمات میں زیادہ سے زیادہ ایک سال کا وقت دیا جاسکتا ہے تاہم فوجداری مقدمات میں ایک ماہ سے زیادہ وقت نہیں دیا جاسکتا قاتل ، اغوا کار ، منشیات فروش ، سمگلر اور دیگر جرائم میں ملوث ملزم کو ایک مہینے کے اندر ضابطے کی تمام کاروائیاں مکمل کر کے عوام کے سامنے سزائے موت دی جانی چاہئیے 25سال بعد اگر سزائے موت پر عمل ہو بھی جائے تو معاشرے کے لئے عبرت نہیں بنتا کیونکہ لوگ اصل واردات کو بھول چکے ہوتے ہیں لاہور کے نواحی ضلع قصور میں زینب نامی معصوم بچی کا قاتل عمران پکڑا گیا چار مہینے گذر گئے چار سال بھی گذریں گے سفاک قاتل کو سزا نہیں ہوگی عدالتوں میں 20لاکھ مقدمات کا زیر التوا ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا عدالتی نظام ناکام ہوچکاہے آٹھویں جوڈیشیل کانفرنس کی سفارشات میں عدالتی نظام کو انصاف کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے پر بات ہونی چاہیئے تھی عوام کو مفت اور بروقت انصاف فراہم کرنے پر غور ہوناچاہیئے تھا فوجی عدالتوں کو مثالی عدالت قرار دیکر عدالتی طریقہ کار کو فوجی عدالتوں کی طرح آسان ، سہل اور شفاف بنانے پر غور ہونا چاہئیے تھا اگر ایک لفٹننٹ کرنل یا بریگیڈئر انصاف دے سکتا ہے تو ایک جج کیوں انصاف نہیں دیتا؟ 25سال کیوں لیتاہے قاتل کی رہائی کے احکامات کیوں جاری کرتا ہے؟ جسٹس آصف سعیدکھوسہ کا شمار دانشور ججوں میں ہوتا ہے اُن کے بقول فوجی عدالتیں نہیں ہونی چاہیءں خصوصی عدالتیں نہیں ہونی چاہیءں تو ان کا متبادل کیا ہے ؟ اور کہاں ہے ؟ ساغر صدیقی کہتا ہے ؂

تاحدّ نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن میں

پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے

جس عہد میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی

اُس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button