کالمز

شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اُس نے کیا

سکندر علی زرین

"گلگت بلتستان آرڈر 2018 نافذ العمل ہو چکا” یہ وہ خوشخبری ہے جو صوبائی مشیر اطلاعات شمس میر اور وزیر قانون اورنگ زیب ایڈوکیٹ نے اہلیان گلگت بلتستان کو سنائی ہے. جی بی آرڈر 2018 کے خدوخال, نکات اور خامیوں, خوبیوں کا اجمالی جائزہ لینے سے قبل ایک سوال! جو میرے دل و دماغ میں کھٹک رہا ہے. سوال یہ کہ… آخر اتنی عجلت اور شد و مد کے ساتھ یہ آرڈر نافذالعمل کرنے کی وجہ کیا ہے؟ گلگت بلتستان کی منتخب اسمبلی اور کابینہ کی کیا بات کریں. وفاقی کابینہ یا پارلیمینٹ کو بھی گھاس نہیں ڈالی گئی. بس اُدھر نیشنل سکیورٹی کمیٹی سے پروانہ جاری ہوا, اِدھر شاہی حکم نامہ جاری ہو گیا. نیشنل سکیورٹی کمیٹی کیا ہے؟ یہ اسی نیشنل سکیورٹی کونسل کا چربہ ہے جو جنرل مشرف نے 2004 میں تشکیل دی تھی. اس وقت پیپلز پارٹی اور ن لیگ دنوں اس کی تشکیل, تنظیم اور افعال و اعمال پر شدید معترض تھیں. دونوں کے نزدیک یہ ادارہ پارلیمنٹ سے سپریم اور ماورا تھا جو آئین پاکستان کی روح کے برخلاف ہے. خیر! 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو نیشنل سکیورٹی کونسل کو غیر فعال کر دیا. 2013 میں نواز شریف اقتدار میں آئے تو "خلائی مخلوق” کی ناراضگی مول نہ لے سکے اور نیشنل سکیورٹی کمیٹی بنا ڈالی. مزے کی بات یہ ہے کہ "این ایس سی آف مشرف” اور این "ایس سی آف جمہوریت” میں صرف ایک لفظ کا فرق تھا. مشرف کونسل کہتا تھا, جمہوریت کا راگ الاپنے والوں نے اسے کمیٹی کہہ دیا. بس. دوسرا سوال یہ کہ جی بی آرڈر 2018 کو نیشنل سکیورٹی کونسل سے ہی منظور کرانے کے چی معنی؟ گلگت بلتستان اسمبلی, پاکستان کی پارلیمنٹ اور وفاقی کابینہ کو کیوں بائی پاس کیا گیا؟ نیشنل سکیورٹی کونسل جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ملکی سلامتی بالخصوص خارجی سکیورٹی کے تناظر میں تشکیل دی گئی ہے. گلگت بلتستان کو مبینہ طور پر با اختیار بنانے کے حکم نامہ (آرڈر) کو عوامی منتخب اسمبلی یا کم از کم کابینہ سے منظور کرانے کی بجائے ایک سکیورٹی کمیٹی سے گزار کر نفاذ کا پروانہ حاصل کیا جانا بہت کچھ بتلاتا ہے. عقل والوں کے لئے اس میں نشانیاں ہیں. قرائن بتاتے ہیں یہ آرڈر سیاسی ایوانوں میں نہیں بلکہ "خلائی مخلوق” کے دفتروں میں بنا. یا یہ کہ اس آرڈر کی ڈرافٹنگ میں خلائی مخلوق کی بھرپور مشاورت (ہدایت) شامل ہے. وجہ اس کی ایک ہی ہے. وہ ہے سی پیک. چین نے 2014 میں سی پیک کے باب میں پاکستان سے 2 تقاضے کئے تھے. 1. سی پیک کی سکیورٹی, عمل داری اور دیگر امور میں چین کے ساتھ پاکستان میں 2 سٹیک ہولڈرز ہوں گے. پہلی منتخب حکومت, دوسری فوج. 2. چین نے پاکستان سے گلگت بلتستان کی قانونی پوزیشن واضح کرنے کا تقاضا کیا تھا. یہی وہ مطالبہ تھا جس کی بنیاد پر سرتاج عزیز کمیٹی بنائی گئی. کمیٹی نے 2 سال تک غور و غوص کیا. گلگت بلتستان کی آئینی حیثیت, مسلہ کشمیر پر اس کے ممکنہ اثرات سمیت تمام پہلووں کا جائزہ لیا. حسب توقع کمیٹی اس نتیجے پر پہنچی کہ کشمیر کاز کی حرمت اور پاکستان کی قومی انا کی حفاظت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کے آئینی دائرہ کار میں نہ لایا جائے. اسی ریاستی مخمصے کی کوکھ سے انتظامی قانون کے ایک ملغوبہ نے جنم لیا, جسے "گلگت بلتستان آرڈر 2018” کا نام دیا گیا. یہ آرڈر گلگت بلتستان کے عوام کے لئے نہیں نافذ ہوا, یہ سی پیک کو رواں دواں کرنے کے لئے بنا, چین کو مطمئن کرنے کے لئے نافذ ہوا. گلگت بلتستان کے حقوق سے اس آرڈر کو کوئی علاقہ نہیں. اتوار کی چھٹی کے روز گلگت بلتستان کے وزیر قانون اور مشیر اطلاعات’ جی بی آرڈر 2018 کے جن نکات کو فاتحانہ انداز میں منصہ شہود پر لے آئے, تحریر میں طوالت کے پیش نظر ان کا جائزہ اگلی قسط میں لیا جائے گا. سر دست صاحبِ اسلوب شاعر منیر نیازی کی زبانی گلگت بلتستان کے محکوم عوام کی جانب سے اس آرڈر کا جواب دیا جاتا ہے. یہ جواب وفاقی حکومت کے لئے ہے, قوم کے مستقبل کی سودا گر حفیظ سرکار کے لئے ہے اور خلائی مخلوق کے لئے بھی ہے. . میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا عمر میری تھی مگر اِس کو بسر اُس نے کیا میں بہت کمزور تھا اس ملک میں ہجرت کے بعد پر مجھے اس ملک میں کمزور تر اس نے کیا راہبر میرا بنا گمراہ کرنے کے لئے مجھ کو سیدھے راستے سے دربدر اس نے کیا شہر میں وہ معتبر میری گواہی سے ہوا پھر مجھے اس شہر میں نا معتبر اس نے کیا شہر کو برباد کر کے رکھ دیا اس نے منیر شہر پر یہ ظلم میرے نام پر اس نے کیا

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button