جی۔بی آرڈر اور عوامی رد عمل
تحریر: ساجد حسین
آپ ہی اپنی اداوں پہ ذرا غور کریں ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی پاکستان کے شمال میں واقع گلگت بلتستان کی ستر سالہ آئینی حق تلفی کے بعد اب جی۔بی آرڈر کے نام سے ایک آرڈر عوام کے سروں پر زبردستی مسلط کیا گیا جس کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام شدید غم و غصے کا اظہار مظاہروں کی شکل میں کر رہے ہیں۔ قوم کا ہر فرد اپنی اپنی حثیت کے مطابق احتجاجی دھرنوں کی شکل میں سڑکوں پر اس تلملاتی دھوپ میں برملا اظہار بیزاری کرتا ہوا نظر آرہا ہے کہ ہمیں زبردستی کا قانون منظور نہیں۔ ہم ایسے قانون کو کبھی تسلیم نہیں کرتے کہ جس میں ہمارے حقوق محفوظ نہیں ہمیں حق رائے دہی کا کوئی حق حاصل نہیں کہ ہم اپنی قسمت کے فیصلے خود کر سکے۔ مگر حکومت وقت کی دہشتگردانہ عمل سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ وذیر اعلی اور اسکے کارندے گلگت بلتستان کی ترقی کے عین دشمن ہیں انکی علاقے کی بہتری اور ترقی کے لئے کوئی خیر خواہی نظر نہیں آرہی ہے۔ کچھ روز پہلے گلگت بلتستان کے باسیوں کو پاکستان کے شہری ہونے کا تاریخی موقع ملا مگر اس میں ایک بات بخوبی پنہاں ہے کہ آیاں کیوں گلگت بلتستان کے باسیوں کو پاکستان کے شہری کا درجہ دیا گیا۔ اس بات کو لے کر یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان اس سے پہلے کسی اور ملک کا حصہ تھا جو اب پاکستان میں شامل کر کے عوام کو پاکستان کے شہری ہونے کا درجہ دیا گیا؟؟ کیا گلگت بلتستان کے عوام پہلے افغانستان کی بالادستی کر رہے تھے جو اب پاکستان کے شہری بن گئے ہیں۔ یہ کیسی پالیسی ہے عوام کی ابھی تک سمجھ میں نہیں آئی ہاں عوام اتنا سمجھ گئے ہیں کہ پاکستان کے شہری کہلا کر ہماری زمینیں اور ہمارے سارے حقوق کو ہڑپنا چاہتے ہیں۔ جی۔بی آرڈر کے خلاف گلگت بلتستان کے ہر ضلعے میں پرامن احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں جس پر وذیر اعلی کی بزدلانہ حرکت نے یہ ثابت کیا کہ علاقے میں اس سے پہلے بھی امن و امان خراب کرانے میں اسکا اولین کردار رہا ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام کو ہر موڑ پر کسی نہ کسی طرح دبانے کی کوشش کی جاتی ہے مگر اب کوئی برداشت کرنے کی گنجائش نہیں رہی کیوں کہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے خون پھر خون ہے بہتا ہے تو جم جاتا ہے گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ ستر سالوں سے تاحال سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جارہا ہے اب جاکر ایک گمراہ کن لولی پوپ تھمانے کی کوشش کی جارہی ہے مگر یہ عوام کے لئے گوارا نہیں کہ اس کو قبول کرے۔ گلگت بلتستان کے باسیوں کے سروں پر آرڈر لاگو کرنے کا یہ انوکھا طریقہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمیں اب بیوقوف بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں کہ عوام انکی باتوں میں آکر گمراہ ہو جائے۔ گلگت بلتستان کے عوام کی چوکھٹ میں آکر عوام کو بارہا دھمکایا جارہا ہے کہ ہم تمہارے زمینوں پر قابض ہو نگے اور گلگت بلتستان کی سرزمین تم پر تنگ کر کے رکھ دینگے۔ گلگت بلتستان کے عوام وقت کے یزید اور اسکے حمایتیوں کو اس بات سے متوجہ کرانا چاہتے ہیں کہ ہم پر بے جا ظلم کے پہاڑ مت توڑو وگرنہ ہم تمہارے لئے عرصہ حیات تنگ کردینگے۔ یہ کیسی آئینی حیثیت ہے جس میں جی۔بی آرڈر میں یہ صاف اور واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ قانون سازی کے تمام اختیارات وذیر اعظم کے پاس ہونگے اور گلگت بلتستان کو کوئی اختیار حاصل نہیں کہ وہ اپنا کوئی بھی فیصلہ خود کر سکے۔ اس بارے میں عوام کی ایک ہی آواز ہے کہ وذیر اعظم کے انتخاب میں ہمیں ووٹ ڈالنے کا کوئی حق حاصل نہیں تو وہ ہمارے اوپر قانون کیسے لاگو کر سکتا ہے۔ گلگت بلتستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس پاکستان سے ہوگا اس بات پر عوام کا برملا کہنا ہے کہ گلگت بلتستان شرح خواندگی کے حوالے سے پاکستان میں سر فہرست ہے تو کیا جج بننے کی بھی کوئی حثیت نہیں۔ گلگت بلتستان کی زمینوں کی بات کی جائے تو بے جا زمینوں پر قبضہ کر لینا ایک غیر اخلاقی اور جابرانہ اقدام ہے اور حکومت یہ سمجھتی ہے کہ غیر آباد زمینوں پر انکا حق ہے مگر یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کل تک تو گلگت بلتستان کی سرزمین کو متنازعہ قرار دی گئی تھی تو آج کس منہ سے اور کیسے کہہ سکتے ہیں کہ حکومت کی ملکیت ہے۔ زمینوں کی یا دیگر وسائل مثلا معدنیات، دریائے سندھ کی بات آتی ہے تو انکو یاد آتا ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ ہے اور ہم ہی اس پر راج کرینگے۔ گلگت بلتستان کی آہ و بکا چند دنوں کی نہیں بلکہ یہ گزشتہ ستر سالوں سے عوام چیخ چیخ کر اپنا حق مانگ رہے ہیں مگر حکومت کا یہ انداز بہت تلخ اور ناگزیر ہے کہ گلگت بلتستان کو اگر آئینی حقوق دینگے تو انڈیا ناراض ہوگا ارے بھئی گلگت بلتستان کی قربانیوں کو سامنے لا کر دیکھو کیا گلگت بلتستان کی قربانیاں پاکستان کے لئے نہیں؟ انڈیا کی نارضگی آخر کس بات پر ہوگی اور انڈیا کی نارضگی کو لے کر کیوں اتنا پریشان ہے سمجھ سے بالاتر ہے۔ گلگت بلتستان کے عوام اس بات کو لے کر حکومت پاکستان سے ایک سوال یہ بھی کرتے ہیں کہ آخر انڈیا کی نارضگی پر ہی اکتفا کیوں کیا جارہا ہے انڈیا کی نارضگی عزیز ہے یا گلگت بلتستان؟؟ گلگت بلتستان سے ستر سالہ دشمنی ہے یا انڈیا سے؟؟ گلگت بلتستان کے نوجوان پاکستانکی سرحدوں کی حفاظت کر رہے ہیں یا انڈیا؟؟ سی۔ پیک گلگت بلتستان کے سینے کو چیر کر گزر رہا ہے یا انڈیا سے گزر رہا ہے؟؟ پاک چین دوستی گلگت بلتستان کی وجہ سے ہوئی ہے یا انڈیا کے مرہون منت ہوئی ہے؟؟ افسوس کہ حکومت پاکستان کی سمجھ میں اب تک یہ بات نہیں آئی اور انڈیا کی نارضگی کو سوچ کر اپنے ہی ملک کے باسیوں کو بنیادی حقوق سے محروم رکھا۔ حکومت پاکستان کے خلاف اگر گلگت بلتستان کے عوام جاتے تو آج نقشہ ہی بدل جاتا اور آج سی۔پیک کا منصوبہ ممکن نہیں ہوتا اور خواب کی مانند ادھورا رہ جاتا۔ مگر حکومت پاکستان کو اپنی فکر ہے اور انڈیا کی نارضگی کی پڑی ہوئی ہے جو چین سے جینے بھی نہیں دیتی۔ اس نام نہاد جی۔بی آرڈر کے تحت یہ بات عوام کے لئے بہت تلخ ثابت ہوئی ہے کہ کسی بھی شخص کو ملک دشمن قرار دے کر تین ماہ تک غائب کیا جاسکے گا اور اس میں توسیع بھی ہوگی۔ یہاں پر ایک بات غورطلب ہے کہ وہ عوام جو پاکستان کے نام پر جینے اور مرنے کے لئے تیار رہتے ہیں وہ بھلا کیونکر پاکستان کے خلاف جا سکتے ہیں۔ یہ کیسا ستم ہے جو ایک آذاد ملک میں اپنے حقوق مانگنے والوں کے نام ایسے دھمکی آمیز آرڈرز زبردستی لاگو کرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گزشتہ روز پورے گلگت بلتستان میں جی۔بی آرڈر کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہوئے لیکن گلگت شہر میں وذیر اعلی کی نئی دہشت گردی سامنے آئی جس میں نہتے شہریوں پر لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کروائی گئی اس پر عوامی ایکشن کمیٹی کے چیئرمین مولانا سلطان ریئس سمیت دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے کارکنان ذد میں آکر زخمی ہوئے۔ یہ وہی منظر دہرایا گیا جو سانحہ ماڈل ٹاؤن لاہور میں وقوع پزیر ہوا تھا۔ یہ ایک نہایت ہی بزدلانہ اور دہشتگردانہ عمل ہے جس کی وجہ سے آج عوام بکھر گئی اور عوام میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کسی بھی ملک یا ریاست کے حقوق کو اجاگرکرنے کے لئے میڈیا کا ایک عظیم اور کلیدی کردار ہوتا ہے مگر پاکستانی میڈیا چاہے وہ پرنٹ ہو یا الیکٹرونک میڈیا وہ خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے اور افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ گلگت بلتستان کی آواز کو ہمیشہ سے دبائی جاتی ہے۔ یہ کیسا ستم ہے جو گلگت بلتستان کے ساتھ روا رکھا جارہا ہے۔ جی۔بی آرڈر کوئی قرانی آیات یا صحیفہ نہیں جس کو نہ ماننے پر یا عمل نہ کرنے پر قانون کو زبردستی مسلط کر کے عوام پر لاٹھی چارج کی جائے۔ اگر حکومت وقت یہ سمجھتی ہے کہ گولیوں اور لاٹھیوں کے زور سے گلگت بلتستان کے عوام کو متنفر کروالے یہ انکی بھول ہے اور انکی سوچ ہے اسطرح عوام کو ڈرانا دھمکانا کوئی معنی نہیں رکھتا اس طرح کے حربوں سے آوازیں دبتی نہیں بلکہ اور مظبوط ہوکر اعلی ایوانوں کو ہلنے پر مجبور کر دیتی ہیں اس لیے اے وقت کی ظالم حکومت ذرا ہوش کے ناخن لیں۔