گلگت بلتستان میں ٹریفک کے بڑھتے ہوئے حادثات
گلگت بلتستان میں ٹریفک حادثات کے بڑھتے ہوئے واقعات نے خطے کے ہر شہری کو پریشان کر کے رکھ دیا ہے اور ہرعید کے دنوں میں ٹریفک کے حادثات میں مزید اضافہ ہورہا ہے زیادہ تر حادثات موٹر سائیکلوں کے ہوتے ہیں اور گزشتہ دو سالوں کے دوران ان حادثات میں دو سو سے زائد نوجوان اپنی زندگی کی بازی ہار گئے ہیں اور کئی نوجوان زخمی ہوگئے اور کئی ان حادثات میں معذور ہوئے ان واقعات کے رونما ہونے کا اگر جائزہ لیا جائے تو زیادہ تر وہ نوجوان حادثات کا شکار ہوتے ہیں جن کے پاس نہ تو ڈرائیونگ لائسنس ہوتا ہے اور نہ ہی موٹر سائیکل کے کاغذات اور نہ ہلمٹ کا استعمال کرتے ہیںیہ افراد نے نہ صرف اپنی جان سے جاتے ہیں بلکہ کئی بے گناہ افراد کو بھی موت کی وادی میں دھکیل دیتے ہیں چونکہ تیزی رفتاری کے باعث سامنے سے آنے والی گاڑی اور موٹر سائیکل کو ٹکر مار دی اور راہگیروں کو بھی مار دینے کے واقعات بھی سامنے اگئے ہیں جس سے کئی بے گناہ افراد بھی یا تو زخمی ہوئے یا پھر جان سے گئے گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت ہر سال عید کے موقع پر اس حوالے سے اقدامات اٹھانے کی بات کرتی ہے مگر عید کے گزرنے کے بعد سب کچھ بھول جاتے ہیں ہمارے صوبے کے وزیر اعلی حافظ حفیظ الرحمان نے بھی عید سے قبل اپنے ویڈیو پیغام میں عوام سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنے بچوں کے ہاتھ کبھی موٹر سائیکل نہ دے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہا تھا کہ بغیر ہلمٹ کے کسی نے موٹر سائیکل چلائی ان افراد کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی بقول وزیر اعلی انھوں نے تمام ڈسٹرکٹ کے ڈپٹی کمشنر ز کو بھی ہدایات جاری کی ہیں مگر ہوا وہی جس کی امید تھی گلگت بلتستان میں درجنوں موٹر سائیکلوں کے حادثات رونما ہوگئے اور کئی افراد اپنی زندگی کی بازی ہار گئے اور درجنوں افراد زخمی ہوگئے عید کی خوشیاں منانے والے والدین کے گھروں میں ماتم ہونے لگا اخر ان واقعات کے زمہ دار صرف اور صرف والدین ہیںیا حکومت کی بھی کوئی زمہ داری بنتی ہے چونکہ والدین کو بتا کر یہ بچے موٹر سائیکل نہیں چلاتے گھر سے نکلتے ہیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ سیر کرنے کے لئے اور راستے میں حادثے کا شکار ہوتے ہیں موٹر سائیکل کس کی ہوتی ہے حادثہ کا شکار کون ہوتا ہے یہ پتہ لگانا والدین کو بھی مشکل ہوگیا ہے کئی ایسے حادثے بھی ہوگئے ہیں کہ جس بچے نے موٹر سائیکل چلاتے ہوئے حادثے کا شکار ہوا بعد میں پتہ چلا کہ یہ موٹر سائیکل تو اس کی تھی ہی نہیں یا تو موٹر سائیکل کا مالک اس کا کو ئی رشتہ دار نکلتا ہے یا کوئی دوست مگر حادثہ ہونے کے بعد اس طرح کے واقعات کے اصل زمہ دار کے خلاف کارروائی نہ ہونے سے ٹریفک حادثات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے گلگت بلتستان میں اس وقت ہزاروں کی تعدا د میں ایسی موٹر سائیکلیں بھی لوگوں کے پاس موجود ہے جن کے پاس ان موٹر سائیکلوں کے کاغذات تک موجود نہیں ہزاروں موٹر سائیکل روڈ پر بغیر نمبر پلٹ کے نظر آتے ہیں یا اگر نمبر لگے بھی ہیں تو وہ فرضی نمبر ہوتے ہیں نوے فی صد موٹر سائیکل سوار کے پاس موٹر سائیکل کے کاغذات تک نہیں ہوتے مگر ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں اخر ٹریفک پولیس اور محکمہ اکسائز کس مرض کی دوا ہے کہ وہ ان افراد کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کرتی غیر قانونی طریقے سے موٹر سائیکل چلانے والے یہ افراد بغیر نمبر پلٹ کے موٹر سائیکل چلانے کو باعث فخر سمجھتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ گلگت بلتستان میں ہزاروں کی تعداد میں چوری کی موٹر سائیکلیں لوگوں کے پاس موجود ہیں جن کو چوری کرکے لانے والے گروہ اونے پونے داموں فروخت کرتے ہیں اگر ایک لاکھ کی موٹر سائیکل چالیس ہزار کی مل جائے تو اس کا استعمال غلط نہیں ہوگا تو اور کیا ہوگااور اگر بغیر کاغذات کے ان موٹر سائیکلوں سے کوئی حادثہ بھی پیش آے تو مالک کا ہی پتہ نہ چلتا تو مقدمہ کس کے خلاف ہوگا یہ زمہ داری والدین کی نہیں بلکہ گلگت بلتستان کی حکومت کی ہے کہ وہ خطے میں موجود تمام چوری کی موٹر سائیکلوں کے خلاف کریک ڈوان کریں اور چوری کی ان موٹر سائیکلوں کو ضبط کرکے ان کو اصل مالک تک پہنچائے نیزبغیر نمبر پلٹ کے موٹر سائیکل چلانے والوں کی موٹر سائیکلوں کے خلاف بھی کارروائی عمل میں لایا جائے اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں نوے فی صد موٹر سائیکل سوارہلمٹ کا استعمال نہیں کرتے اور زیادہ تر موٹر سائیکل سوارحادثے میں سر پر چوٹ آنے سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اگر یہ لوگ ہلمٹ کا استعمال کرتے تو کم از کم ان کی جان بچ سکتی تھی اس حوالے سے حکومت تمام زمہ داری والدین پر ڈالنے کی بجائے قانون نفاذ کرنے والے اداروں خصوصا پولیس اور اکسائز ڈپارٹمنٹ کو یہ زمہ داری سونپ دی جائے کہ بغیر ڈرائیونگ لائسنس ،بغیر ہلمٹ اور بغیر نمبر پلٹ کے موٹر سائیکل چلانے والے افراد کی موٹر سائیکلوں کو ضبط کیا جائے اگر حکومت نے یہ اقدامات اٹھائے تو ٹریفک کے ان حادثات میں نصف سے زیادہ کمی آسکتی ہے اس کے علاوہ گلگت بلتستان میں چلنے والی مسافر گاڑیوں کے خلاف کارروائی بھی وقت کی ضرورت بن گئی ہے اس جدید دور میں بھی روڈ پر کھٹارہ قسم کی مسافر گاڑیاں چلتی ہے جو کسی بھی وقت کوئی بڑے حادثے کا سبب بن سکتی ہے ایسی گاڑیوں کے خلاف بھی کریک ڈوان کی ارشد ضرورت ہے جن کے ڈرائیور روڈ پر پائلٹ بننے کی کوشش کرتے ہیں ان کو بھی راہ راست پر لانے کی ارشد ضرورت ہے جبکہ روالپنڈی سے گلگت بلتستان چلنے والی رینٹ اے کار کے حوالے بھی مسافروں کی سخت شکایت ہے کہ ایک تو ڈرائیور حضرات تیز رفتاری کا مظاہرہ کرتے ہیں دوسری بات یہ ہے کہ اگر کوئی گاڑی روالپنڈی سے گلگت پہنچے اور گلگت میں اس گاڑی کو سواری مل جائے تو ڈرائیور بغیر ارام کئے اس گاڑی کوواپس پنڈی کی طرف لے جاتا ہے اور نیند پوری نہ ہونے سے حادثات رونما ہوتے ہیں حکومتی ادارے اس حوالے سے بھی کارروائی کریں تو حادثات میں بڑی حد تک کمی آسکتی ہے جبکہ گلگت بلتستان آنے والی بعض پبلک ٹرانسپورٹ کمپنی کی بسیں آثار قدیمہ کا منظر پیش کر رہی ہے اس کے علاوہ نیٹکو کی بعض کھٹارہ بسوں کو روالپنڈی سے گلگت بلتستان کے دور افتادہ علاقوں کے لئے چلائی جاتی ہے اس حوالے سے بھی حکومت اگر ایک کمیٹی بناکر ان گاڑیوں کا جائزہ لینے کے لئے کہا جائے تو پتہ چل جائے گا کہ یہ گاڑیاں روالپنڈی سے گلگت بلتستان چلانے کے قابل ہے یا نہیں اخر میں وزیر اعلی گلگت بلتستان سے گزارش ہے کہ وہ اگر واقعی میں ٹریفک حادثات پر قابو پانے میں مخلص ہے توٹریفک پولیس اور محکمہ اکسائز کو باقاعدہ احکامات جاری کریں کہ جتنی بھی چوری کی گاڑیاں اور موٹر سائیکل ہیں ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے اور ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والے افراد کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے تو خطے میں ٹریفک کے حادثات میں بہت حد تک کمی لائی جاسکتی ہے ۔