اداکاری کے جوہر
ٹیلی وژن پروگراموں میں ماضی کے جھروکے دکھائے جاتے ہیں آج ایسا ہی ایک جھروکا دیکھنے کا اتفاق ہوا بلیک اینڈ وائٹ فلم ’’ سالگرہ‘‘ سے 3 منٹ کا منظر دکھایا گیا اس منظر میں وحید مراد کے ساتھ ایک بچے کا مکالمہ ہے آؤٹ ڈور شوٹنگ ہے دو کردار اور بھی ہیں مگر جاندار مکالمے اس بچے کے ہیں جو وحید مراد کے ساتھ محو گفتگو ہے بچے کی گفتگو شستہ اردو میں ہے لہجے میں بے ساختگی ہے بڑوں کی طرح پختگی ہے معصومیت ہے اور سادگی ہے فلمی اصطلاح میں بچے کو چائلڈ سٹار کہا جاتا ہے مکالمے کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ یہ چائلڈ بڑا ہوکر بہت بڑا اداکار ، صدا کار، ایکٹر اور ہیرو بن چکا ہوگا فلمی دنیا اس چائلڈ کو 1960ء کی دہائی میں آصف کے نام سے جانتی تھی اب کس نام سے پکارتی ہوگی دلیپ کمار ، امیتابھ بچن ، سنتوش کمار، محمد علی یا ندیم کی سطح کے اِ س ہیرو نے کتنی فلموں میں کام کیا ہوگا اور کتنے ایوارڈ لئے ہوں گے ! پروگرام کا مقصد یہ تھا کہ ناظرین کو اس ہونہار بچے کے بارے میں یہ بتایا جائے کہ بڑا ہوکر یہ بچہ اداکار نہیں بنا ، سیاستدان بن گیا وڈیرہ باپ کا بیٹا تھا بزنس اس کے گھر کی لونڈی تھی فلمی صنعت سے تعلق کی بنیاد یہ تھی کہ اس کا باپ تقسیم سے پہلے کئی سینما گھروں کا مالک تھا فلمساز اور ڈسٹری بیوٹر اس کے سامنے دست بستہ حاضر ہوتے تھے فلم سالگرہ کے پروڈیوسر نے بچے میں اداکاری کے جوہر دیکھے تو باپ سے اجازت لیکر اپنی فلم کے ایک منظر میں اس کو کاسٹ کیا بچے نے اپنی معصومانہ اداؤں سے اس منظر کو امر کردیا یہ بچہ کوئی اور نہیں سابق صدر آصف علی زرداری تھا ٹی وی پروگرام کے صداکار نے کہا بچے نے اداکاری چھوڑ دی ورنہ یہ بچہ دلیپ کمار ، محمد علی اور رونالڈ ریگن کے مقابلے کا فلمی سٹا ر ہوتا مجھے خیال آیا بچے نے فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کی مگر اداکاری کے شعبے سے وابستگی ختم نہیں کی سیاست بھی اداکاری ہی تو ہے مرزا غالب کا کہنا ہے
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازیگر کھلا
1950ء کے عشرے کا چائلڈ سٹار اب بھی اداکاری کے شعبے سے وابستہ ہے اس فن میں وہ باراک اوبامہ ، الطاف حسین ، نریندر مودی ، نوازشریف اور عمران خان کے مقابلے میں صدا کاری کے جوہر دکھارہا ہے ضیاء الحق ، ذوالفقا ر علی بھٹو اور فیلڈ مارشل ایوب خان کو اس نے پیچھے چھوڑ دیا ہے اندرا گاندھی ، بندرا نائیکے اور بے نظیر بھٹو پر بازی لے گیا ہے سچ پوچھیئے تو سیاست میں بھی وہی کامیاب ہوتا ہے جس کو اداکاری کا فن آتا ہو بلکہ جتنا بڑا اداکار ہوگا اتنا ہی بڑا لیڈر بنے گا یہی وجہ ہے کہ لوگ مگرمچھ کے آنسو پر ڈھیر ہوجاتے ہیں رہبر کے انتخابات میں ہمیشہ منہ کی کھاتے ہیں یہ بھی گفتۂ غالب ہے
چلتا ہوں تھوڑی دور ہر اک راہرو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ابھی راہبر کو میں
اور غالب کی شاعری سے شغف رکھنے والے کبھی نہیں پہچان سکیں گے ذرا چشم تصور سے دیکھئیے وطن عزیز کے اندر کوچہ سیاست میں کیسے کیسے اداکار ہم سے جدا ہوئے اور کیسے کیسے اداکار ابھی اداکاری کے جوہر دکھارہے ہیں ! دو سال پہلے تک ہم لندن والی سرکار الطاف حسین کی اداکاری کے کمالات سے لطف اندوز ہورہے تھے وہ منظر کبھی نہیں بھولے گا جب لندن میں الطاف حسین کے ساتھی عمران فاروق کا قتل ہوا اور ہم نے ٹیلی وژن سکرین پر الطاف حسین کو کمبل میں لپٹے ہوئے دھاڑیں مار کر روتے ہوئے دیکھا حکیم مومن خان مومن نے کیا بات کہی
کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اُس زود پیشمان کا پیشمان ہوا
جب قتل کی تفتیش ہوئی تو سکاٹ لینڈ یارڈ نے الطاف حسین کو قاتل قرار دیا پر اس کی اداکاری کام آگئی اور سزا سے بال بال بچ گیا یہ 1992ء کا ذکر ہے پاکستان کا وزیر اعظم لاہور کی پرانی بستی گوالمنڈی کے ایک سکول میں گیا چوتھی جماعت کے کمرے میں جاکر طلباء میں گھل مل گیا کیمرے بھی ساتھ تھے فلم بن رہی تھی وزیر اعظم نے کلاس سے سوال کیا بتاؤ مجھے کس نے پہچانا ؟ ایک بچے نے ہاتھ اُٹھایاوزیر اعظم نے خوش ہوکر پوچھا بتاؤ میں کو ن ہوں ؟ بچے نے کہا ’’ آپ وہی انکل ہیں جو رات 9بچے والے ڈرامے میں آتے ہیں ‘‘ بچے نے ’’ چائلڈ سٹار ‘‘ والی معصومیت کے ساتھ سرکاری ٹی وی کے خبرنا مہ کو ڈرامہ اور وزیر اعظم کو اداکار کہا اور غلط بھی نہیں کہا مجھے یاد ہے کہ 1987ء میں اوجڑی کیمپ کا حادثہ ہوا تو جنرل ضیا ء الحق کو یت کے دورے پر تھے، شام کوبیرونی دورے سے واپسی پر ٹیلی وژن پر آکر قوم کو رندھی ہوئی آواز میں دلاسہ دیا تو طلعت حسین، محمد قوی خان اور بدر منیر بھی اُس کی اداکاری کے سامنے پانی بھرتے نظر آئے محترمہ نے نظیر بھٹو کی شہادت کے دو دن بعد 29دسمبر 2007ء کو گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں سوگواروں نے جذبات میں آکر ’’ نہ کھپے ، نہ کھپے ‘‘ کہہ کر نعرے بازی کی تو آصف علی زرداری کی چائلڈ سٹار والی رگِ سیاست پھڑک اُٹھی انہوں نے کھڑے ہوکر تین بار ’’ پاکستان کھپے ‘‘ کا نعرہ لگایا اور یہ نعرہ ’’ پاکستان کا مطلب کیا ‘‘ سے زیادہ مقبول ہوگیا فرزند راولپنڈی شیخ رشید کی وہ اداکاری مجھے کبھی نہیں بھولے گی جب وہ گاڑی سے اتر کر ایک پنڈی والے کے پیچھے موٹر سائیکل پر سواری کر کے ہجوم کو چیرے ہوئے جلسہ گاہ کے سٹیج تک آئے اور مصطفےٰ راہی کے انداز میں حکمرانوں کو للکارا مجھے وہ منظر نہیں بھولے گا جب طاہر القادری اور عمران خان کنٹینر پر کھڑے ہوکر گنڈا سا لہرائے بغیر حکومت وقت کو للکار رہے تھے اداکاری کے جوہر دکھانے کا موقع ملے تو ہمارے ہاں کا ہر سیاستدان دلیپ کمار اور مصطفےٰ راہی سے بڑا اداکار ثابت ہوگا چنانچہ فلم سالگرہ کا چائلڈ سٹار آصف آج بھی 1964ء کی طرح اداکاری کے جوہر دکھا رہا ہے اگرچہ میدان تھوڑا سا مختلف ہے مگر کیا فرق پڑتاہے؟