کالمز

انصاف کب ملے گا؟‌

میاں نواز شریف صاحب اور ان کی صاحبزادی کے بارے خبر یہ ہے کہ وہ لندن سے روانہ ہوچکے ہیں اور شام چھ بجے لاہور ایئر پورٹ پر اترینگے اب وہ اتر جائینگے یا جہاز کا رخ کسی اور رخ مُڑ جاتا ہے یہ تو جب جہاز لاہور کی فضائی حدود میں داخل ہوگا تو پتہ چل جائیگا۔ کیوں نہ اسی دوران سیاسی ماحول سے ذرا ہٹ کرسیاست کی گرمی سے بچنے کا اہتمام ہو۔ گرمی کا الٹ سردی ہے اور سردی کے حوالے سے ذہن ایک دم شندور دس ہزار فٹ کی بلندی دنیا کی چھت کی طرف چلا گیا جہاں ہر سال کی طرح اس سال بھی شندور پولو ٹورنامنٹ منعقد ہوا اورگلگت بلتستان کی پولو ٹیم ٹھنڈی ہوکر ٹھنڈی کیا بلکہ کپکپا کر واپس آئی ہے۔یعنی بہت بُرے طریقے سے ہار کر۔موسم بدلتے رہتے ہیں اور موسم کی تبدیلی انسان کی طبعت میں اتار چڑھائو کا باعث بنتی ہے ۔موسم کے لحاظ سے بات کی جائے تویوں جانئے کہ شندور کا حال اس تندور کے بلکل برعکس ہے جہاں شیخ رشید روٹیاں پکا رہے تھے۔

میرا مطلب ہے شندور کا موسم ایک دم ٹھنڈا اور مزیدار۔اس کے ساتھ ساتھ شندور کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ یہ دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں پر پہلی بار چاندنی رات میں پولو کھیلا گیا اور یہ کب کھیلا گیا اس بارے خود سے معلوم کریں۔ تھوڑی سی پڑھنے کی عادت بھی ڈالنی چاہئے اپنے میں بس اتنا بتا دیتا ہوں کہ ایک برٹش پولیٹکل ایجنٹ ہوتے تھے گلگت میں کوب صاحب جو گلگت کے مقامی باشندوں میں کاف صاف کے نام سے مشہور تھے۔اس کا زمانہ کونسا سا بنتا ہے آپ حساب کتاب لگائیں ۔میں آگے بڑھتے ہوئے اپنے ان بہادرجوانوں کا ذکر چھیڑدوں جو برٹش دور سے شندور کی رکھوالی پر معمورتھے جی ہاں صحیح جانا گلگت لیوی جسے بعد میں گلگت سکاوٹس کا نام دیا گیا۔ جب انگریز پولیٹکل ایجنٹ کوب نے یہاں پولو گرونڈ بنوایا اور چاندنی رات میں پولو کھیلا اس کے بعد سے شندور میں چترال اور کوہ غذر کے علاقائی ٹیموں میں اکثر پولو مقابلے ہوا کرتے تھے اور ان پولو مقابلوں کااہتمام و انعقاد گلگت سکاوٹس کے ذمہ تھا۔ شندور میں باقائدہ پولو ٹورنامنٹ کا آغاز ساٹھ کی دہائی میں ہوا۔ ساٹھ کی دہائی میں ہی صوبیدار آحمد خان کی سپرستی میں گلگت کی ٹیم نے ٹورنامنٹ جیتا ۔احمد خان کا نام ائے اور اس کے ساتھ کنگ آف پولو بلبل جان اور مرحوم ڈی ایس پی راجی الرحمت کا نام نہ آئے یہ کیسے ہو سکتا ہے یہ وہ لوگ ہیں اور تھے جن کے دور میں چترال پولو ٹیم کبھی بھی گلگت کی ٹیم سے جیت نہ سکی۔اب تو حالت یہ ہے کہ پچھلے دس سالوں سے شندور ٹورنامنٹ چترال سے جیتنا ایک خواب سا لگ رہا ہے جانے یہ خواب کبھی پورا بھی ہوگا کہ نہیں یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں کہ اب تو ہر چیز میں سیاست نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا دیا ہے۔اسی سیاست نے شندور کی حدود کو سکیڑ کر لنگر تک جبکہ کوہستان جو کبھی دردستان کا حصہ تھا داریل تانگیر تک محدود کر دیا مجال ہے کہ ہم نے کچھ بولا ہو ہم وقت پر نہیں بولتے لیکن جب وقت گزرتا ہے تو ہمیں یاد آجاتا ہے کہ ہم تو ایک قوم ہیں۔اس بارے تفصیل میں نہیں جائونگا کالم طوالت اختیار کر جائیگا۔ بات چلی تھی ٹھنڈ کی اور ٹھنڈ کا حال یہ ہے کہ گلگت بلتستان مین بھی پولو کا کھیل سیاست اور اقربا پروری اور سفارش کی نذر ہوگیا ہے۔ایک طرف ہم شندور کی حدود کھو بیٹھے اوراوپر سے اب مسلسل ہار پہ ہار ہمارا مقدر بن گیا ہے۔یہ ماجرہ کیا ہے کچھ نہیں بس نا اہلی ہےاور اس نا اہلی کو ختم کئے بغیر گلگت کی ٹیم چترال سے جیت نہیں سکتی

امید یہی کی جا سکتی ہے کہ گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت گلگت بلتستان کے اس علاقائی کھیل کے فروغ اور ترقی کے لئے بہتر اقدامات کریگی اور تجربہ کار اور منجھے ہوئے کھلاٹیوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شندور ٹورنامنٹ میں گلگت بلتستان کے کھوئے مقام کو دوبارہ حاصل کرنے میں اپنی تمام

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button