میخائل گورباچوف بمقابلہ عمران خان
تحریر: ظفر اقبال
یورپ میں سامراجی قوتوں نے جب معاشرے کو پوری طرح اپنے شیکنجے میں کسا ہوا تھا۔اس طبقاتی کشمکش کے درمیان کارل مارکس کے افکار اور نظریات نے دنیا کی سوچ کو ایک نئی سمت کی جانب موڈ دی۔سرمایہ دار اور مزدور میں کشمکش زمانہ قدیم سے چلی اتی ہیں اور ہر دور میں ظالم نے مظلوم کو دبانے کی کوشیش جاری رکھی ہیں۔ایسی حالت میں کارل مارکس کا پیدا ہونا ایک فطری عمل تھا۔مارکس کا یہ پیشنگوئی غلط ثابت ہوئی کہ دنیا میں پہلا سوشلسٹ انقلاب انگلینڈ میں ائے گا۔
پیشنگوئی کے برعکس سوشلسٹ انقلاب کا پہلا نشانہ زار روس بنا۔1917 کی بالشویک انقلاب اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی پرولتاریہ کے ڈکٹیٹر شب کا مارکس کے تعلیمات کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔مارچ 1887 میں پیٹر سبرگ میں زارالیکساندر سوئم کے قتل میں حصہ لینے کے جرم میں لنین کے بڑے بھائی الیکساندر اولیانوف کو شلیسلبرگ قلعہ میں پھانسی دے دی گئی۔لنین نے اپنے بھائی کو اپنا ہیرو مان لیا لیکن ان کی جہدوجہد کی طریقہ کار کو یکسر مسترد کیا۔انقلاب کے سات سال بعد لنین قتل ہوئے۔سویت یونین نے اپنی معاشی حالات کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں کمیونزم کے پھیلاؤ کا بیڑا اٹھایا ۔جس سے دنیا میں دو قطبی نظام رائج ہو گئے۔جنگ عظيم دوم کے بعد سرد جنگ شروع ہوئی۔سویت یونین اسلحے کی دوڈ میں شامل ہو گیا اور دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے رہیں۔
روس نے جب افغانستان پر فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا تو امریکہ اور روس کے درمیان تعلقات بگڑتے چلے گئے ۔اس مداخلت کی پالیسی نے سویت یونین کو معاشی طور پر کمزور کر دیا۔
اس نازک موڈ پے مارچ 1985 کو گوباچوف برسراقتدار ائے۔انہوں نے اتے ہی گزشتہ اصلاحات کو تبدیل کر دیا۔افغانستان سے اپنی فوجوں کی واپسی کی۔گورباچوف کے ابتدائی دور میں روسی معیشت کا کباڑہ ہو گیا تھا۔جون 1987 کو روسی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی اصلاحات پیش کیں تاکہ ملک میں تونائی اور معیشت کو بحال رکھا جا سکے۔قرضوں کی ادئیگی۔ قیمتوں پر کنڑول ۔کرپشن کا خاتمہ ۔بیوروکریسی کا غلط رویہ اور اس کی روک تھام۔ملک کی عدالتی نظام کو بہتر بنانا۔
یہ وہ انقلابی اصلاحات تھیں جن کو بروئے کار لاتے ہوئے کورباچوف نے ملک کو کسی حد تک مستحکم بنا دیا۔
روس 1985 میں جس مقام پے کھڑا تھا پاکستان اج ٹھیک اُسی مقام پے کھڑا ہے۔پوری دنیا کے مسلمانوں کے نمائندگی کا ٹھیکہ لیا ہوا ہے۔جس طرح روس نے کمیونزم کا ٹھیکہ لیا ہوا تھا۔روس کی معیشت اس وقت زیادہ مستحکم نہیں تھی۔باوجود اس کے روس نے پوری دنیا میں کمیونزم کی پیھلاو کی پالیسی جاری رکھا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک کے ٹکڑے ہو گئے۔پاکستان بھی اج انہی راستوں پر گامزن ہے۔ملک کی معیشت کا کباڑہ ہو چکا ہے لیکن نیل کے ساحل سے لے کر کاشغر تک تمام مسلمانوں کے مسائل کا رونا رو رہیں ہیں۔حالانکہ ملک تاریخ کی نازک موڈ پے کھڑا ہے۔دہشت گردی ۔بے روزگاری ۔سیاسی عدم استحکام ۔پانی کا مسئلہ ۔وغیرہ۔ایسی حالت میں عمران خان کا ملک کی باگ دوڈ سنبالنا اور ان مسائل کی بھور سے ملک کو نکالنا یقیناً ایک مشکل مرحلہ ہو گا۔
لیکن عمران خان کے طویل جدوجہد اور ان کے انقلابی اصلاحات پے اگر عمل درامد کو یقینی بنایا گیا تو اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پاکستان کسی حد تک اپنے پاؤں پے کھڑا ہو سکے گا۔
عمران خان کے اصلاحات اور گوباچوف کے اصلاحات میں بہت زیادہ مماثلت پایا جاتا ہے۔ کوباچوف نے بھی ایک مشکل وقت میں عنان حکومت سنبھالا تھا ۔ٹھیک اسی طرح عمران خان نے بھی تاریخ کے ایک نازک موڈ پے ملک کی باگ دوڈ سنبھالنے جا رہے ہے۔
عمران خان نے اقتدار میں انے سے پہلے ہی پاکستان کے عوام میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں ہر اول دستے کا کردار ادا کیا ہے۔ملک سے وی ائی پی پروٹوکول کلچر کا خاتمہ ہو یا دیہی علاقوں میں یونیورسٹیز کا قیام ہو یا صحت کا میدان ہو بے پناہ خدمات سر انجام دئے ہیں۔
امید یہی کی جاسکتی ہے کہ انے والے وقتوں میں ملک کی ابتر سیاسی اور معاشی حالات کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ پسماندہ علاقوں کی ترقی اور خوشحالی پے خصوصی توجہ دینگے۔اور ان علاقوں میں رینے والے عوام کے معیار زندگی کو بلند کرنے کے لئے خصوصی اقدامات بروئے لائنگے۔
کرپشن نے ملک کو اندرونی طور پر دمک کی طرح کھا لیا ہے۔اور ملک کی بنیادیں ہل چکے ہیں۔سابقہ حکمرانوں نے کرپشن کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے۔ملک میں ٹیکس کی مد میں جمع ہونے والی رقم کو اپنی عیاشی پر خرچ کیے۔اور ملکی خزانے کو نقصان پہنچا کر اپنی ذاتی کاروبار پر خرچ کرتے رہیں۔
اور ملک میں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہو گئی۔ شہری اور دیہاتی زندگی میں فرق بڑھ گیا ۔اور پوش علاقوں پر پیسے خرچ ہوئے جو پہلے سے ترقی میں دوسرے علاقوں سے اگے تھے۔اس لئے ان علاقوں کے رہنے والےغریبوں کی ذندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہیں۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ برابری کی بنیاد پر کم ترقیاتی والے علاقوں پر زیادہ پیسے خرچ کرتے۔
اب انے والے وقتوں میں عمران خان اور ان کے حکومت کی پالیسیوں پر منحصر ہے کہ وہ اس ڈوبتی معیشت کو کیسے سہارا دیتے ہیں۔