کالمز

تعلیم دشمن کون ؟؟

 تحریر:. ایڈوکیٹ حیدرسلطان

حدیث نبویؐ ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مومن مرد اور عورت پہ فرض ہے۔ یہ حدیث ان چند نمایاں احادیث میں سے ایک ہے جن پہ تمام مسالک سہی مانتے ہیں ۔ اس حدیث کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ تشریح کی محتاج نہیں اور کوئی بھی قاری اس کو پڑھنے کے بعد علم کی فضلیت سے انکاری نہیں ہوسکتا ۔ جس طرح اسلام میں نماز فرض ہے ویسے ہی اس حدیث کی روشنی میں حصول علم بھی فرض چلاس میں گزشتہ روز سکولوں کو جلایا جانا نہ صرف قابل مزمت ہے بلکہ باعث شرم اور پورے گلگت بلتستان کے منہ پہ ایک ایسا زور دار تمانچہ ہے جسکی گونج نہ صرف پاکستان میں بلکہ بہت سارے ایسے ممالک میں سنی گئی جو کہ تعلیم کی اہمیت سے واقف ہیں ۔ دنیا ایسے واقعات پہ حیرانگی اور تشویش کا اظہار کرتی ہے مگر ہمارے لئے یہ واقعہ زیادہ حیرانگی کا باعث نہیں کیونکہ یہ اس نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی ہم اس واقعے کے پیچھے چھپے محرکات سے ناواقف ہیں ۔ ہمیں دہشت گردوں کے ایک ایک ٹھکانے کا پتہ ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ ایسے ازہان کو پیدا کرنے والی مشینیں کہاں سے آپریٹ ہوتی ہیں ۔ ہم سے کوئی چیز چھپی نہیں سوائے ان حقائق کے جن کا سامنا کرنے سے ہم گبھراتے ہیں ۔ کبھی مسلکی غیرت کی وجہ سے تو کبھی قبیلوں میں بٹنے کی وجہ سے اور کبھی زاتی دشمنی کا خوف ہمیں حقائق سے آنکھیں چرانے پہ مجبور کرتا ہے ۔ کچھ دوست اس واقعے کے پیچھے بین الاقوامی قوتوں کی سازش تلاش کر رہے تو کچھ اندرونی ایجنسیز تک زمہ دار ٹھرانے کی کوشش میں لگے ہیں حالانکہ ان کو پوری طرح اندازہ ہے کہ جس علاقے میں یہ واقعہ پیش آیا ہے وہاں پہ عورت زات کو اللہ کی مخلوق سمجھنے سے زیادہ اپنی زاتی ملکیت اور ان سے ناروا سلوک رکھنا اپنا شرعی فریضہ وحق سمجھا جاتا ہے ۔ رسم و رواج کو اسلام کا نام دینا اور غیرت کو ماں بہنوں تک محدود کرنا بھی ہماری عادتیں بن گئی ہیں ۔ ابھی کچھ دن ہی ہوئے ہیں ایک خبر اخباروں کی زینت بنی تھی کہ چلاس میں پہلی بار کسی بندے نے نائی شاپ کھولنے کی جسارت کی ۔ تو کیا یہ بین الاقوامی ایجنسیز تھے جو یہاں پہ نائی شاپ تک کھولنے میں رکاوٹ تھے یا پھر یہاں پہ مقامی لوگوں میں سے ہی کچھ ایسے عناصر تھے کی سوچ اس قدر محدود تھی ۔ سوال یہ نہیں کہ ہمارے اس علاقے کی بیشتر آبادی کیوں نہیں چاہتی کہ ہماری ماں بہنیں سکول جائیں ، تعلیم حاصل کریں اور دین و دنیا میں سرخرو ہوں ۔ سوال تو یہ ہےکہ ہمارے لوگوں کی سوچ کو اتنا محدود رکھنے کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں ۔ آخر یہ سیدھے سادھے لوگ جو کہ اسلام کے نام پہ عورتوں کو گھر سے نکلنے نہیں دے رہے کے زہنوں میں ایسی سوچ ڈالنے والے کون لوگ ہیں ؟؟ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کہیں اس جہالت کے پیچھے کم پڑھے لکھے معتبر عالموں کا ہاتھ تو نہیں ؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اسلام کی غلط تشریح کرکے ہمیں گمراہ کیا جارہا ہو تاکہ ہم دوبارہ اسلام کی بجائے دور جہالت میں داخل ہوجائیں ؟؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ علاقائی رسم و رواج اور زاتی پسند نا پسند کو اسلام کے واضح اصولوں پہ فوقیت دی جا رہی ہو ؟؟ بیان کردہ حدیث کی روشنی میں مرد اور عورت دونوں کو یکساں تعلیم کے مواقع ملنے چاہئے اور جو جو اس راہ میں رکاوٹ بنے گاوہ اسلام و علم دشمنی کا مرتکب ہوگا ۔ اور ایسے لوگوں کواخروی سزا تو ملنی ہی ملنی ہے مگر ریاست جب تک خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھاتی اور لوگ اپنے درمیان موجود کالی بیڑھوں پہ نظر نہیں رکھیں گے تو ایسے واقعات کی روک تھام ممکن نہیں ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button