6ستمبر، یوم دفاع پاکستان
تحریر:سیدنذیرحسین شاہ نذیر
آج بھی یاد ہے چھ ستمبر کی بات
اِک پڑوسی کا فعل، اِک ستم گر کی بات
چھ ستمبر 1965 ہماری عسکری اور دفاعی تاریخ کا بہت اہم ترین دن ہے۔ جب پاکستان کی مسلح افواج اور پوری قوم نے بھارت کے ناپاک عزائم اور غیر اخلاقی جارحیت کے خلاف اپنی آزادی اور قومی وقار کا بہادری اور بے مثال جرات کے ساتھ دفاع کیا۔ اس مشکل وقت میں جو غیور اور بہادر پاکستانی عوام نے جو اپنی مسلح افواج کے ساتھ محبت اور یکجہتی کا مظاہرہ کیا وہ قابلِ ستائش تھا۔ پاکستان میں چھ ستمبر کا دن ہم یوم دفاع کے طور پرمناتے ہیں۔ اس دن انڈیا نے پاکستان پر حملہ کردیاتھا اور الحمداللہ ہمارے لوگوں نے اورپاک فوج نے اس موقع پردشمن کو عبرتناک جواب دیاجسکی مثال پوری دنیامیں نہیں ملتی ہے۔6 ستمبر 1965 ء کی صبح بھارت اچانک سرزمین پاکستان پر حملہ آور ہوا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہ صبح کا ناشتہ لاہور کے جم خانہ میں کرے گا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ جنگ افسانوی خیالات اور محض ہتھیاروں سے نہیں ، بلکہ غیرت ، جذبات ، اور قوتِ ایمانی سے جیتی جاتی ہے۔اس سترہ روزہ تاریخی جنگ میں پاکستان اپنے سے دس گناہ بڑی طاقت کو ذلت آمیز پسپائی اور شکست پر مجبور کردیا۔
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسبان ہو اس کے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ گلستان اس کے
1965کی جنگ میں پاک فوج نے ملک کی سرحدوں کا دفاع باوقار انداز میں موثر بناتے ہوئے دنیا کو یہ بتادیا کہ ہم ایک زندہ قوم ہیں۔ قوم کے بہادر سپوتوں نے جان کے نذرانے پیش کئے اور آج جب قوم کو دہشت گردوں کے خلاف جنگ کا سامنا ہے تو بھی افواج پاکستان کے جانباز جان کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ 6 ستمبر کا دن وطن عزیز کے دفاع کیلئے عظیم قربانیوں کی یاد دلاتا ہے۔ چھ ستمبرکے دن وطن عزیز کے ہر فرد کو عہد کرنا ہے کہ وہ وطن عزیز کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کو زندگی کی سب سے پہلی اور بڑی ترجیح بنا کر اس شعور کو اگلی نسلوں تک پہنچا ئیں گے۔
قوم پوری کی پوری اگر ایک ہو
رنگ سے نسل سے بے خبر، نیک ہو
6 ستمبر یومِ دفاعِ پاکستان کے طور پر ہر سال اُن شہیدوں اور غازیوں کو خراجِ تحسین پیش کرنے کے لئے منایا جا تا ہے جنہوں نے وطنِ عزیز کی سالمیت اور یکجہتی کے تحفظ کے لئے عظیم قربانیاں دیں۔پا کستان کے عوام اور افواج دشمن کے عزائم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن گئے اور اسکے منصوبے خاک میں ملا دئیے۔اُس وقت ہر شخص اپنے اپنے طریقہ سے جنگ میں شامل ہونا چاہتا تھا ۔ لوگ کھانے تیار کروا کر باڈرز تک بھیجوانے کی کوششیں کرتے تھے۔ہرفرد سرحدوں کی حفاظت اور افواج کا ساتھ دینے کے لیے نکل رہا تھا۔اور ہر شہر میں جکہ جگہ زخمی جوانوں کے لیے خون کے عطیات دیے جا رہے تھے۔ اور جب آسمان میں جہازوں کا مقابلہ ہوتا تو لوگ گھروں میں چھپنے کے بجائے چھتوں پر چڑھ کر اپنے جوانوں کو داد دیتے تھے اور اس وقت میڈیا بھی غیرت مندی اور بہادری کا مظاہرہ کر رہا تھا اور جوانوں کو اپنی آوازوں کے ذریعے جوش و جذبہ دلا رہے تھے۔ اور ترانے اور ملی نغمے نشر کیے جا رہے تھے۔
مادر وطن سے محبت ایمان کا جز اور تقاضا ہے ۔ہر مسلمان اپنے وطن کی مٹی پر قربان ہونے کے لئے ہر دم تیار رہتا ہے اور وطن کی مٹی پر جان نثار کرکے شہادت کا رتبہ پانا ہرمسلما ن کی خواہش ہے۔ دنیا کے نقشے پر کلمہ طیبہ کی بنیاد پر وجود آنے والے مملکت خداداد پاکستان کے انتہائی شمال میں واقع ضلع چترال کے طول وعرض میں کوئی گاؤں ایسا نہیں ہے جہاں کوئی شہید ہلالی پرچم تلے ابدی آرام نہ کررہا ہے ۔ان سر فروش اور جان بکف جوانوں کا تعلق پاک آرمی، چترال سکاوٹس ، چترال پولیس اور چترال بارڈر فورس سے ہے جو دوران ڈیوٹی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ان شہداء میں وہ بھی شامل ہیں جوکہ 1965ء میں بھارتی ننگی جارحیت کو للکارتے ہوئے اپنی جانیں جان آفرین کے حضور پیش کرکے ہمیشہ کے لئے امر ہوگئے ۔ مختلف اوقات میں وطن کے لئے جانوں کا نذرانہ دے کر شہادت کا رتبہ پانے والوں میں پاک آرمی کے درجنوں جوانوں، بارڈر پولیس کے 5اور ڈسٹرکٹ پولیس کے 10جواں شامل ہیں جبکہ چترال سکاوٹس سے تعلق رکھنے والے شہداء کی تعداد تمام فورسز سے ذیادہ ہے جوکہ 112کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے۔ چترال سے پاک آرمی کے سب سے پہلی مرتبہ شہادت تورکھو کے زنگ لشٹ سے تعلق رکھنے والے کپٹن اجمل کونصیب ہوئی۔ ان شہیدوں کی لہو کے طفیل آج ہم اپنی آزادی برقرار رکھ کر سکون کی نیند سورہے ہیں اس لئے شاعر نے کہا ہے کہ
شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق سیالکوٹ اور حیدرآباد کے نزدیک دو مقامات پر دشمن نے ہماری سرحدوں میں گھسنے کی کوشش کی۔ سیالکوٹ کے علاقہ میں زبر دست جوابی کارروائی میں پاکستانی فوج نے دشمن کے 25 ٹینک تباہ کر دئیے 5 فیلڈ گنیں قبضہ میں لے کر بہت سارے فوجی قیدی بھی بنائے گئے۔ پاک فوج نے جنگ کا پانسہ پلٹتے ہوئے دشمن کے علاقے کے کافی اندر جا کر کئی چوکیوں پر قبضہ کر لیا۔سیالکوٹ محاذپر سخت لڑائی جاری تھی، جس میں دشمن کے 36 ٹینک تباہ کر دئے گئے۔ پاکستان کی بہادر فوج نے خونریز جنگ کے بعد دشمن کے ٹینکوں کے حملے کو پسپا کر دیا اور دشمن کی فوج کو بھاری نقصان پہنچایا۔ اسکے مزید 45 ٹینک تباہ ہو گئے۔۔ کھیم کرن کے قریب 358 بھارتی سپاہیوں نے ہماری فوج کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے ان کا تعلق چوتھی رجمنٹ سے تھا اور ان میں بیشتر سکھ تھے۔
دل میں ارمان تھا جان دے دیں مگر
آنچ آنے نہ دیں ملک کی آن پر
آئیے آج یہ عہد کریں کہ ہم سب مل کر سرحدوں کے پاسبانوں کا مشکل وقت میں ساتھ دیں اور دشمن کے ہر پروپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دیں۔ ہماری افواج جس حوصلہ و ہمت سے دہشت گردی اور سازشوں سے نمٹ رہی ہیں وہ قابلَ ستائش و خراج تحسین ہیں۔ اللہ تعالی سے دعاہے کہ ہمیں امن و سکون سے اور متحد ہوکر رہنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین ثم آمین
میرا جینا میرا مرنا اے وطن تیرے لیے
اشک پینا آہ بھرنا اے وطن تیرے لیے
چھ ستمبر1965سے آج تک چترال سکاوٹ اورچترال پولیس شہداء کے کچھ تصاویر