کالمز

غذر کے عوام اور صحت کی سہولتیں

تحریر:۔دردانہ شیر
گلگت بلتستان کا ضلع غذر جو رقبے کے لحاظ سے خطے کا سب سے بڑا ڈسٹرکٹ میں شمار ہوتا ہے نوہزار سات سو مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا اس ضلع کے مسائل ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں گلگت بلتستا ن میں جو بھی پارٹی کی حکومت آئی اس ضلع کو نظر انداز کیا گیا پونے دو لاکھ کی آبادی ہے مگر عوام کے مسائل حل کرنے کی نہ تو عوامی نمائندوں کی کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی بیورو کریسی کی اس پسماندہ ضلع کی طرف کوئی توجہ ہے یہاں کے عوام کو صحت کے بنیادی سہولت تک دستیاب نہیں ڈسٹرکٹ غذر کے ہیڈ کوارٹر گاہکوچ میں ڈی ایچ کیو ہسپتال کے نام پر ایک ہسپتال تو موجود ہے اور مین گیٹ پر ایک بہت بڑا بورڈ لگایا گیا ہے اگر کسی مریض کو لیکر بندہ ہسپتال پہنچ جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس ہسپتال میں کتنی سہولتیں موجود ہیں کروڑں روپے کی لاگت سے یہ ہسپتال تعمیر ہوئی ہے اور تیس بیڈ کا ہسپتال آج سے بیس سال قبل تعمیر کیا گیا تھا ہسپتال میں کروڑوں روپے روپے کی سرجری کی سامان تو خرید گئی ہے مگر کئی سالوں سے یہ مشینری استعمال نہیں ہوئی جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ گلگت بلتستان میں سرجن کم ہونے کی وجہ سے غذر سرجن تعینات نہیں کیا جاسکتا تعجب کی بات یہ ہے کہ غذر کے نام پر سرجن کی تنخواہ لینے والا ڈاکٹر ڈیوٹی کئی اور دے رہا ہے ڈی ایچ کیو ہسپتال مکمل طور پر ڈاکٹروں سے خالی ہوگیا ہے کم از کم بیس ڈاکٹر ہونا چاہئے مگر اس وقت چارمیڈیکل آفسیر تعینات ہیں اور ایک بھی سپشلسٹ ڈاکٹر تعینات نہیں ہے اور اگر تعینات ہیں بھی تو وہ تنخواہ غذر سے لیتے ہیں اور ڈیوٹی گلگت بلتستان کے دیگر ڈسٹرکٹ میں کرتے ہیں غذر ڈی ایچ کیو ہسپتال میں آپریشن کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے معمولی مریض کو بھی گلگت ریفر کیا جاتا ہے مزے کی بات یہ ہے کہ اگر سرجن دینا ہی نہیں تھا تو کروڑوں روپے کی لاگت سے سرجری کا سامان لینے کی کیا ضرورت تھی اور یہ مشینری بھی اب زنگ آلود ہوگئی ہے اگر سرجن کی تعیناتی ہی نہیں کرنی تھی تو ملک کے خزانے سے کروڑوں روپے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی ڈی ایچ کیو ہسپتال کی دوسری منزل کی تعمیر بھی عنقریب مکمل ہوگی اور اس ہسپتال کو ساٹھ بیڈ کا بنایا جائیگا مگر صورت حال وہی کی وہی رہ جائیگی ڈاکٹر نہیں ہونگے البتہ ہسپتال کی عمارت بہت بڑی ہوگی بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ صرف غذر کے ساتھ ہی یہ امتیازی سلوک کیوں ہورہا ہے ایک طرف ڈی ایچ کیو ہسپتال کی یہ حالت تو دوسری طرف ضلع کی چاروں تحصیلوں میں بھی ڈاکٹر تعینات نہ ہونے سے عوام مریض کو یا تو پرائیوٹ ہسپتال پہنچاتے ہیں یا پھر گلگت کا رخ کرتے ہیں اس وقت غذر کی چاروں تحصیلوں میں 30ڈاکٹر ہونا چائیے مگر صرف سات ڈاکٹر تعینات ہیں سینگل میں دس بیڈ ہسپتال میں دو ڈاکٹروں کی پوسٹ خالی ہیں اس طرح دیگر چاروں تحصیلوں میں ڈاکٹر تعینات نہ ہونے سے عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہورہا ہے یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ غذر میں اس وقت محکمہ صحت کے کھاتے میں سترہ ڈاکٹر ڈیوٹی دے رہے ہیں جن میں سے دس ایسے ڈاکٹر ہیں جو تنخواہ تو ضلع غذر سے لے رہے ہیں مگر ڈیوٹی کہاں دے ہیں اس بارے میں کچھ پتہ نہیں جبکہ ڈی ایچ کیو ہسپتال کے اٹھ ڈاکٹر بھی تنخواہ غذر سے لیتے ہیں مگر ڈیوٹی کئی اور دے رہے ہیں جس باعث یہاں بنائے گئے ہسپتالوں کی بلڈنگ بہت خوبصورت نظر آتی آرہی ہے مگر ہسپتالوں میں ڈاکٹر نہیں جب بندہ ہسپتال میں داخل ہوجائے تو پتہ چلتا ہے ہسپتال کی صرف بلڈنگ ہے باقی کچھ نہیں گلگت بلتستان کا ضلع غذر وہ ڈسٹرکٹ جس کو ہر دور میں نظر انداز کیا گیا پہلے یہاں کے عوام کو گلگت چترال روڈ تعمیر کرنے کے نام پر بیوقوف بنایا گیا پھر کہا گیا کہ غذر کو تاجکستان کے ساتھ لنک کیا جائیگا پھر یہ بتایا گیا کہ پھنڈر میں 87میگاواٹ پاور پراجیکٹ بنے گا اس کے بعد کہا گیا کہ غذر میں ڈاکٹروں کا ہاسٹل بنا تو غذر میں ڈاکٹروں کی کمی پوری ہوگی مگر سب کچھ صرف سیاسی اور عوام کو بیوقوف بنانے والے اعلانات تھے گاہکوچ میں ڈاکٹروں کے لئے ہاسٹل کی بلڈنگ بھی مکمل ہوئی مگر ایک ڈاکٹر کا بھی اضافہ نہیں ہوا یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اٹھارہ کے قریب ڈاکٹر غذر سے تنخواہ لیتے ہیں مگر ڈیوٹی کہاں دیتے ہیں اس بارے میں کسی کو کچھ پتہ نہیں ماہانہ تنخواہ ان کے اکاونٹ میں چلی جاتی اور کئی ایسے ڈاکٹر بھی ہیں جنہوں نے غذر کو دیکھا بھی نہیں ہوگا مگر تنخواہ غذر میں ڈیوٹی دینے کی ملتی ہے بتایا جاتا ہے کہ بعض بااثر ڈاکٹر اپنی پسند کے سٹیشن میں تعینات ہیں مگرتنخواہ غذر سے وصول کر رہے ہیں آخر میں چیف سیکرٹیری گلگت بلتستان سے گزارش ہے کہ محکمہ صحت کی طرف سے غذر کے ساتھ ہونے والی امتیازی سلوک کا نوٹس لیں اور جو سپشلسٹ ڈاکٹر اور میڈیکل آفسیر غذر سے تنخواہ لیکر ڈیوٹی کئی اور دیتے ہیں تو ان کوفوری طور پر غذر میں ڈیوٹی دینے کے احکامات جاری کرے چونکہ غذر کے عمائدین نے تمام سیاسی لوگوں کے دروازے پر دستک دی مگر کوئی شنوائی نہیں ہوئی آپ سے گزارش ہے کہ اس ضلع کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ازالہ کرکے یہاں کے عوام میں پائی جانی والی احساس محرومی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں اور یہ بھی دیکھا جائے کہ جو ڈاکٹر غذر سے تنخواہ لے رہے ہیں وہ گلگت بلتستان کے کسی کونے میں ڈیوٹی بھی دیتے ہیں یا نہیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button