نیت شاہ قلندر: نادانیوں سے شاعری تک کا سفر
اعجاز ہلبی
گرشتہ دنوں ایک ماں کا انٹرویو پڑھنے کو ملا۔ اس ماں کے تمام بچے سکول کے لائیبریری سے باقاعدگی کیساتھ کتابیں پڑھنے والے طلبا ء میں سرفرست تھے۔ ماں سے بچوں کے اس عادت کے بابت سوال کیا گیا کہ وہ کونسے محرکات ہیں جن کے بنا آپ کے بچوں میں مطالعے کا ر جحان زیادہ ہے۔ آپ نے کیسے ان کو مطالعے کی طرف متوجہ کیا۔ اس پر ماں نے بہت ہی دلجمعی کے ساتھ جواب دیا کہ بچے اپنے والدین کا کبھی نہیں سنتے، آپ لاکھ کوشیش کرلے بچے کو قائل نہیں کرسکتے ۔ بچے وہی کام کرتاپسند کرتا ہے جو ان کے والدیں عمومأکرتے ہیں یعنی بچے صرف والدین کا نقل کرتے ہے۔ اس لیے جب بھی بچوں کو پڑھانا ہو تو میں خود کوئی کتاب اٹھاکر پڑھنا شروغ کرتی ہوں تو میرا دیکھا دیکھی بچے بھی پڑھنے لگ جاتے ہیں۔ اس انٹرویو کے تناظر میں جب میں اپنے دوست ی زندگی کو پرکھتا ہوں تو اس خاتون کی باتیں میں مسلمہ حقیقت نظراتا ہے۔محترم دوست کے دادا اپنے زمانے کے مشہورگلوکار تھے ۔اگرچہ اس زمانے میں گلوکاری کی صنعت میں کوئی رونق و منافع نہیں تھا۔ اس کے باوجود وہ ہمیشہ دلفریبی کے لیے گائیکی کا سہرا لیتے تھے۔ اس صحبت نے میرے دوست کے والد گرامی کو بھی فریفتہ بنایا۔ آواز کی شرینی تو واراثت میں ہی پایا تھا۔ لیکن اپنی مستقیل محنت سے فنکارانہ صلاحیتوں کو بھی خوب گرمایااور موسیقی میں نام کمایا۔ یعنی انکا خانداں پہلے پشت میں گلوکاری ، دوسیرے پشت میں موسیقاری اور تیسرے پشت میں شاعری میں قدم رکھ چکا ہے۔ ہاں میرا اشارہ کتاب داغ ہائے دل کے خالق اور بروشسکی کے معروف شاعر گلوکار اور فنکار نیت شاہ قلندر کی طرف ہے۔ جو کہ عالمی خاندان کے تیسرے پشت پعنی معروف بروشسکی گلوکار ضرب علی شاہ ملنگ کے پوتے اومشہور نعت خواں اورمسیقار قیمت شاہ کے صاحبزادے ہیں ۔ موسیقیت و ترنم کا تحفہ اس خاندان کو رب جلل نے وراثت میں دیاہے۔ شاہ صاحب کے چھوٹے بھائی وجاہت شاہ عالمی بھی کسی تعرف کے محتاج نہیں وہ نیشنل کالج اف آرٹس کے فارغ التحصیل ہیں اور انتہائی کم عرصے میں انٹرنیشنل پروگرامز میں تک رسائی حاصل کر چکے ہے۔
میرے لیے شاہ صاحب سے وابستگی کوئی نئی بات نہیں ۔ وہ میرا ہمعمر، ہم جماعت اور ہمسایہ ہونے کیساتھ انتہائی قریبی دوست رہاہے۔ اور ان کے ہر راز کا میں ہمراز رہا ہوں، اس بابت میں یہاں یہ دعوٰی بھی کر سکتا ہوں کہ جہاں جہاں شاہ صاحب نے شاعرانہ تیر چلایا ہے۔ وہ کیس کیس کے لیے ہیں ۔ ہم اسانی سے بتاسکتے ہیں ۔۔۔
شاہ صاحب کو شعر گوئی سے شغف انتہائے لڑکپن سے ہی تھا۔ وہ سکول کے ادبی مقابلوں ملی نغمیں ، نعتیں اور نظم پڑھتے تھے۔ کلاس میں جب ٹیچر غیرحاضر ہوتے تو ہم شاہ کی آواز سے مہذوز ہوتے۔ ہم کلاس اول ادنیٰ میں ۷۲ ہم جماعت تھے۔ اور میڑک تک ۵۰ ہم جماعت ساتھ تھے۔ کچھ شومی قسمت فیل ہوکے ساتھ نہیں رہے لیکن کسی نے بھی سکول سے بیزار ہو کے سکول نہیں چھوڑا۔ ہمیں سکول سے جوڑے رکھنے میں اساتذہ سے زیادہ شاہ صاحب کا ہی دست کمال تھا۔ وہ کلاس مین کسی کو بور ہونے نہیں دیتا تھا۔ اس لیے ہر سٹوڈنٹ شوق سے سکول اتا تھا۔ کلاس میں بیت بازی کرتے اور اس مقابلے میں جب اشعار کا ذخیرہ ختم ہو تو شاہ صاحب اپنی شاعری ہم پہ آزماتے تھے ۔۔ ان کا ایک کھوار فارسی مکس شعر آج بھی مجھے یادہے۔ جوجماعت چہارم میں صرف اس بیت بازی کے لیے لکھاتھا
گاہ بانی میکونی در راہ زن
تو چرا غاوغو کوسن اے کوستیزن
اگرچہ اس شعر کی حقیقت سے ہم سب اگاہ تھے مگر ان کا دل رکھنے کے واسطے ہم نے بھی ان کی اس معصومانہ شرارت کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ ان دنوںآفغانستاں سے ایک مذہبی عالم اکر متصلہ گاوں میں سکونت پزیر تھا۔شاہ صاحب ان سے فارسی سیکھتے تھے۔ اور فارسی بول چال میں کافی مہارت رکھتے تھے۔
شاہ صاحب کی مزاج پر شاعری کا عنصر غالب نہیں تھا ۔ وہ موسیقی اور آلات سے شغف رکھتے تھے۔ بانسری کمال کا بجاتے تھے۔ اسکے علاوہ ستار، دف، رباب، اور ڈوھول کی بجانوازی میں کمال کا فن رکھتے تھے۔ لیکن علاقائی پسمندگی اور والدین کی کمدستی نے اس میداں میں پیشہ سازی کے راہ میں پہلے ہی فل سٹوپ لگا رکھا تھا۔ اس ناکامی کے پچھے ایک اہم محرک ثقافتی دقیانوسیت بھی حائل تھا۔ لوگ اس فن کی برملا حوصلہ شکنی کرتے۔ لیکن شاہ صاحب نے آغاز شباب پر ہی دل لگی سے نادانیوں کا سفر شروغ کیا۔بادانیاں اس لیے کہ یہ عمر نہ شادی کا تھا نہ منگنی کا۔ لہذا امحبت میں ایک ہونے کا جو فارمولہ برسوں سے چلا آرہا ہے اس کا اطلاق یہاں ہر طرف سے بے سود تھا۔ پس اس فراق و وصال کے تگ و دو میں شاہ صاحب کا ایک ہی سہارا شاعری و موسیقی تھا۔یوں عالمی خاندان کا چشم وچراغ اور ااعلٰی پائے کا موسیقار عش مجازی میں بری طرح پھس گیا اور ، عارض و رخسارکے صدقے شاعری کی طرف مائل ہوے اور استاد حسن خاں شاد کا یہ شعر شاہ صاحب پر صادق ایاکہ
قلندر بنتے بنتے ادمی دیوانہ ہوتا ہے۔
بس شاہ صاحب بھی نیت شاہ قلندر بن گئے اور شاعری کے میداں میں طبع ازمائی کرنے لگے۔ شروغ تو آپ نے بروشسکی میں گیت اور غزلیں لکھینے کی ۔اور کافی مقبول ہوئے۔ ریڈیو پاکستان گلگت سے ان کے گانے سنتے تھے ۔ لیکن حصول تعلیم کے بھاگ دوڑ گلگت سے دور جانا پڑا۔اور شاہ صاحب تلاش معاش کے سلسلے پاک فوج سے منسلک ہوگے بس دوریاں بڑھتے گیءں اور قریبأ ۱۰سال بعد ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ شاہ صاحب نادانیاں کرتے کرتے اردو زباں کے مستند شعراء میں شامل ہوچکے ہیں۔ ان کی کتاب داغ ہائے دل شائع ہوچکا ہے۔ میں نے جلدی سے ایک جلد خریدی اور انکے شاعرانہ افکار کا ان کے سرگزشت سے تقابلی جائیزہ لینا شروغ کیا۔ ان کی شاعری کی گہرائی ، روانی اور وزن ، سے نہیں لگ رہا تھا کہ میں کسی ایسے شخص کی شاعری پڑھ رہاھوں جو اہل زبان نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں لکھنوی ادب کا جلک بھی ہے اور دہلوی شاعروں کی موسیقت بھی۔ الغرض ان کی شاعری میں عصریں حاضر کی تمام تقاضے موجود ہیں۔۔جاری ہے۔