کالمز

صوبا ئی حکومت کی کفایت شعاری اوراس کے دوررس اثرات

 تحریر:حسنین علی

سٹی ہسپتال کے شعبہ حادثات میں آنے والے مریضوں کے ساتھ دھیمے لہجے میں انتہائی شفقت کے ساتھ پیش آنے والے ڈاکٹر احمد حسن کا تعلق جگلوٹ سے ہے اور ایک معزز اور با اثر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ایک سال سے وہ اس ہسپتال میں اسی شعبے میں ہزاروں مریضوں کا علاج کر چکے ہیں ۔ ان کی ڈیوٹی دن کو ہو یا رات کو وہ نہایت مستعدی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے ہوئے نظر آئینگے ۔ ان کی موجودگی سے گلگت اور گردونواح کے باسیوں کو زبردست فائدہ ہوا ہے ۔ اس سے قبل وہ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ کے معالج کے طور پر تعینات تھے جوں ہی حفیظ الرحمن کو وزیر اعلیٰ منتخب کیا گیا بحیثیت وزیر اعلیٰ انہوں نے جو کام کیا اپنے زاتی معالج کو حکم دیا کہ چونکہ ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی قلت ہے تو بجائے وزیر اعلیٰ کے دفتر میں بیٹھ کر ایک شخص کا علاج کرے انہیں کسی ہسپتال میں عام آدمی کے علاج معالجہ میں مشغول ہونا چاہئیے اور یوں نہ صرف ڈاکٹر کا تبادلہ کیا گیا بلکہ ایک ایمبولینس جو کہ ہمہ وقت وزیر اعلیٰ کے قافلہ میں موجود رہتی تھی کو بھی واپس کر دیا گیا ، علاقے کے ہسپتالوں میں ایمبولینسوں کی پہلے ہی کمی ہے لہذا اس کا استعمال عام آدمی کے فائدے کیلئے کیا جائے ۔ یہی ڈاکٹر سابقہ دور حکومت میں مسلسل پانچ برس وزیر اعلیٰ سیکریٹریٹ میں اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے اور موجودہ حکومت کے آتے ہی ڈاکٹر ایمبولینس سمیت ہسپتال پہنچ گیا اور عام مریضوں کے علاج و معالجہ پر معمور کیا گیا ۔

اس بات کا یہاں تذکرہ در اصل وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن کے اس رویہ کو زیر بحث لانا ہے جسے آپ عجز و انکساری کہہ سکتے ہیں جوکہ وزیر علیٰ بن جانے کے بعد نکھر کے سامنے آگیا ۔ انہوں نے اپنے کابینہ سمیت تمام سرکاری اداروں کے منتظمیں کوکفایت شعاری اور سادگی کو اپنانے کی نصیحت کرتے ہوئے خود سب سے پہلے عملکیا ا ور دکھایا کہ وہ حکومت کے تمام معاملات میں شفافیت ، سادگی ، کفایت شعاری ، عوامی خدمت اور سروس ڈیلیوری پر یقین رکھتے ہیں لہذا تمام حکومتی مشینری اس مشن کے ساتھ کام کرے ۔

ہر عقل مند شخص اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتا ہے لوگوں کو ایک نئے خیال کی طرف راغب کرتے ہوئے سب سے پہلے خود عمل کیا تاکہ دوسرے ان کے دیکھا دیکھی اس راہ پر چل پڑیں ۔ قطع نظریہ یہ کہ یہ والا راستہ پرخار اور تکلیف کا تھا مگر جواں ہمت اور پر عزم ارادے اپنی منزل پالیتے ہیں وہ اپنی منزل مقصود پر بالآخر پہنچ بھی جاتے ہیں اور یہی ہوا کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے انتخاب کے بعد کئی اصلاحات نے جنم لیا ان تمام اصلاحات میں پہلی اصلاح اپنی عیاشی کو قربان کرتے ہوئے کفایت شعاری اور سادگی کو اپنانا ہے جو کہ موجودہ حکومت کیلئے ایک بڑے اعزاز سے کم نہیں ۔ صوبہ کے وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے حکومتی معاملات کو کفایت شعاری کے ساتھ چلانا در اصل ایسی دانش مندی ہے جو کہ قدرت کی طرف سے بہت کم لوگوں کو عطا ہوتی ہے ۔

وزیر اعلیٰ ہاؤس اور سیکریٹریٹ کے اخراجات میں واضح کمی کرتے ہوئے پورے قوم کو کفایت شعاری کا درس دینے والاوزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن اکثر سادگی سے کہہ جاتے ہیں کہ ایک محدود وسائل کے حامل صوبے کو شاہانہ خرچ بالکل زیب نہیں دیتا ۔ کفایت شعاری کا ابتداء اپنے گھر سے کیا گیا پچھلے کئی سالوں سے منظور شدہ بجٹ میں اس سال کٹوتی کی گئی اور اپنے زاتی فنڈز کو عوام کے فلاحی کاموں پر لگانے کی خود ہی منظوری دیدی ۔ غیر ضروری اخراجات میں کمی کا حکم وہ پہلے ہی دے چکے ہیں اور اعلی ٰہوٹلوں میں سرکاری محافل کا انعقاد کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ان کے دیکھا دیکھی ان کی کابینہ کے اراکین بھی ان کے نقش قدم پر چل رہے ہیں ۔ ڈاکٹر اقبال وزیر تعمیرات نے دفتری اوقات میں چائے پینے پر پابندی عائد کر دی ۔ کفایت شعاری کے ساتھ ساتھ عوامی خدمت سے سرشار نوجوان وزیر اعلیٰ کو عوامی حلقوں میں جس بات پر بے حد پذیرائی ملی وہ ہے سرکاری دفاتر میں دفتری اوقات کار میں سرکاری ملازموں کی حاضری کو یقینی بنانا ہے ۔ کم و بیشتر تمام سرکاری اداروں میں بائیو میٹرک سسٹم لگا دی گئی ہے تاکہ سرکاری ملازمین کے حاضری کو چیک کیا جا سکے ۔ عوام نے خود دیکھا اکثر ویران نظر آنے والے سرکاری دفاتر میں اب حاضری یقینی بنا دی گئی ہے ۔ پولیس کی جانب سے پروٹوکول میں دی جانے والی گاڑیاں بھی واپسکی گئیں۔ گلگت بلتستان کے عوام نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ انتہائی سادگی کے ساتھ حکومتی معاملات نپٹائے جانے لگے ۔

حالانکہ عصری تقاضے کچھ اور ہیں آگے پیچھے مالیشیوں اور پالیشیوں کی کثیر تعداد کی موجودگی پسندگی کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے کون بندہ خدا ہوگا جو اس مقام پر پہنچ کر خوش آمدیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے پروٹوکول کے نام پر سرکاری وسائل کو بے دردی کے ساتھ استعمال نہیں کریگا ۔ جی حضوری کرنے والے تعداد میں کم نہیں ہوتے مگر ان کی دال نہیں گلی ۔ مگر ان تمام مصنوعی فکر کو رد کرتے ہوئے قوم کو کفایت شعاری اور سادگی کا درس دینے والے نے شراعات اپنے دہلیز سے کرکے یہ ثابت کر دیا کہ قوم کی جانب سے امانتاً دئیے جانے والے اختیارات کا ناجائز اور غلط استعمال نہیں ہوگا بلکہ ایک ایک پیسے کو صرف قوم کی بہتری پر خرچ کیا جائیگا ۔ زاتی عیش و عشرت کی بجائے اجتماعی مفادات کا تحفظ کرنا اس کی اولین ترجیح ہے ۔

قارئین کرام ! مہذب اقوام اپنے حکمرانوں کا محاسبہ کرتے ہیں کیونکہ اقتدار عوام کی عطا کردہ ہوتی ہے اور حکمرانوں کی اولین فرائض میں عوام کے حقوق کی حفاظت کرنا ہوتی ہے ۔ تمام سرکاری وسائل پر عوام کا براہ راست حق ہوتا ہے اور اس کو عوام پر ہی خرچ کیا جانا چاہئیے نہ کہ اس کو اپنے عیش و عشرت کا سامان بنانا چاہئے اور یہی ہوا کہ ماضی کے بر عکس اور خدمت روایات عوامی وسائل کو عوام کی امانت تصور کرکے اس کو صرف فلاح و بہبود پر ہی خرچ کیا جا رہا ہے اور جس قوم کے حکمران اس سوچ کے حامل ہوتے ہیں ترقی کی راہ میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں ہو۲ سکتی اور کوئی قوت اس کو پسماندہ نہیں رہ سکتی ۔ قوموں کی ترقی کا راز احساس ذمہ داری ہوتا ہے ۔ قومی وسائل کا استعمال اجتماعی ضروریات پوری کرنے کیلئے ہوتا ہے اور انفرادی استعمال بد عنوانی کو جنم دیتا ہے کیونکہ پھر معاشرے کے ہر فرد کی نظر میں قومی دولت پر ہوتی ہے جس کو حاصل کرنے کیلئے وہ جائز ناجائز حربے استعمال کرتا ہے ، اس کی آنکھوں پر پٹی بندھ جاتی ہے اور تمام احساسات مردہ ہوجاتے ہیں اور وہ دولت کے حصول کی دوڑ میں سب کچھ پیچھے چھوڑ جاتا ہے ۔

گلگت بلتستان کے عوام نے جس شخص کو اپن حاکم چنا ہے اس نے اقتدارسنبھالتے ہی اجتماعیت کی سوچ کو فروغ دیا اور انفرادی فائدے کو پس پشت ڈال کر قومی مفاد کو سامنے رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج گلگت بلتستان کی تصویر بدل رہی ہے ۔ لوگوں کی سوچ میں فرق محسوس کیا جا سکتا ہے ۔ تبدیلی کی شروعات افق پر نمودار ہو چکی ہے ۔ معاشرے میں ہر شخص کا زاتی مشاہدہ ہونا چاہئیے کہ معاشرے میں کن کن تبدیلیوں نے جنم لیا ہے ۔ کیا ریاستی امور میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے یا نہیں ۔ ہر ذی شعور شخص خود کھلی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے کیا ریاستی ادارے جانفشانی کے ساتھ عوام کی خدمت کررہے ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ روم کو بننے میں ایک دن نہیں لگا تھا والے ضرب المثل کے مصداق گلگت بلتستان میں مزید بہتری کی ضرورت ہے اگر پہلے کی نسبت بہتری آئی ہے تو اس کو بھی مان لینا چاہئیے ۔ کفایت شعاری اور سادگی کو اپنانے سے نہ صرف قوم کے وسائل کا ضیاع نہیں ہوا بلکہ اس سے تمام سرکاری محکموں میں ایک شعور بھی اجاگر کیا۔ عوام کی خدمت کے معیار میں بہتری آئی ، مسائل کا کم ہونا یا اس کا خاتمہ دو الگ الگ بحث ہیں مگر یہان پر بات ہو رہی ہے کہ گلگت بلتستان کے صوبائی حکومت نے بتہری لانے کی جو سعی کی ہے اس میں کامیابی کو حرف آخر نہ سمجھے بلکہ کوششوں کو مزید تیز کیا جائے تاکہ ترقی کا عمل مزید تیز ہو ۔ صوبائی حکومت کا سو روزہ اہداف کا حصول اس بات کی دلیل ہے کہ وہ کارکردگی پر یقین رکھتی ہے ۔ محض خالی خول دعوؤں اور کھوکھلے نعروں کے ہتھکنڈوں کو استعمال کرنے کے بجائے عملاً کوشش کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کریگی ۔ پھر سہ ماہی حدف اور اس کے حصول میں سربکف اور نت نئے کاوشیں رنگ لا رہی ہیں ۔ تعلیم ، صحت ، روزگار ، سیاحت ، معدنیات ، جنگلات سمیت کئی شعبوں میں انقلابی اقدامات کئے گئے ہیں جس کا تذکرہ آئندہ آنے والی تحریروں میں بالترتیب کیا جائیگا ۔ مگر فی الحال ہم سادگی اور کفایت شعاری کے موضوع تک مقید رہتے ہوئے قومی خزانے کو نقصان سے بچانے پر وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن ہدیہ تبریک کے مستحق ہیں ۔ یقیناًاداروں کی مضبوطی کے متعلق نظریہ درست ہے کہ جب ادارے اپنے ذمہ داریوں کو احسن طریقے کیساتھ پورے کریں تو عوام کی مشکلات میں کمی ہوگی ۔ اداروں پر مسلسل محنت سے آج خدا کا شکر ہے کہ گلگت بلتستان کے حکومتی ادارے ملک کے دیگر صوبوں کے اداروں سے اگر بہتر نہیں تو کم تر بھی نہیں ۔ لوگوں کو نہیں بھولنا چاہئیے کچھ ماہ قبل طوفانی بارشوں اور سیلاب کے بعد پیدا ہونیو الی صورتحال سے کس طرح نپٹا گیا ۔ مختصر عرصے کے دوران مواصلاتی رابطے بحال ہوئے ، گلگت بلتستان کے تمام شاہراہ بحال کئے گئے ، بجلی گھروں کو شدید نقصان پہنچ جانے کے بعد بھی بجلی کی ترسیل مختصر ترین وقت میں بحال کیا گیا ۔ مندرجہ بالا قدامات گنوانے کا مقصد اداروں کی فعالیت ہے جس پر صوبائی حکومت نے کام کیا تھ ا۔ اب ادارے اپنے آپ کو ہر قسم کے حالات سے نپٹنے کو تیار کررہے ہیں ۔ گلگت بلتستان ڈیزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی نے 65کروڑ روپے کی مشینری کے ذریعے آفتوں کا مقابلہ کرنے سینہ سپر ہے ۔بہترین مثالیں موجود ہیں جو کہ اس بات کو ثابت کریگی کہ کفایت شعاری اور سادگی نے موجودہ حکومت کے ترقی کے ایجنڈے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں مرکزی کردار ادا کیا ہے ۔ کیونکہ وسائل کا استعمال اجتماعی مفاد کی خاطر کیا اپنی زاتی عیش و عشرت کر قربان کرتے ہوئے لوگوں کی تکلیف کا احساس کرنا حکومت کی اولین کامیابی ہے جس نے دیگر کامیابیوں کیلئے راہ ہموار کیا۔ آج صوبائی حکومت کے ذمہ داران فخریہ قوم کو بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے عوام کی جانب سے دیئے گئے اقتدار کو ان کی بہتری اور ترقی کیلئے استعمال کیا اور اقتدار کو اپنے اور اپنے اہل و عیال یا کسی دوست اقرباء کی ترقی کیلئے زینہ نہیں بنایا ۔ اب اس صورتحال میں عوام کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ حکومت کی حمایت کرکے ان کے ہاتھ مزید مضبوط کریں تاکہ ہم ایک پر سکون زندگی گزار سکیں ۔

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

ایک کمنٹ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button