وزیر کا بچہ، استاد کا بچہ
شمس الرحمن تاجک
آج کل حکومت وقت نے ایک نیا شوشہ چھوڑا ہے کہ حکومت کی زیر انتظام سکولوں کے اساتذہ اپنے بچوں کو حکومتی سکولوں میں پڑھانے کے پابند ہوں گے۔ اس شوشے کے بعد دونوں جانب سے ہوائی فائرنگ کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوچکا ہے اس انارکی کی زد میں آکر ٹیچر ڈے بھی ایسے گزر گیا جیسے آیا ہی نہ ہو۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ استاد کو سب سے زیادہ قابل قدر ہستی مانا جاتا ہے اتنی قابل قدر ہستی ہی جب ایک نان ایشو پر فائرنگ شروع کرے تو کہاں ٹیچر اور کہاں کا ڈے۔حالانکہ ہمیں اس بات پر یقین ہی نہیں پکی والی یقین ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی حکومت ایسا کوئی کام کبھی نہیں کرے گی جس سے ملک میں تھوڑی سی بھی بہتری کی گنجائش نکلتی ہو۔ یہ شوشہ بھی صرف اس لئے چھوڑا گیا ہے کہ کچھ دن اساتذہ کو بھی مصروف رکھا جائے تاکہ جس طرح یکسو ہو کر وہ اپنا یونین چلاتے ہیں اسی طرح یکسو ہو کر حکومت وقت پر تنقید کا سلسلہ شروع نہ کرسکیں۔ حکومت پہلے ہی سے اپنے لئے اتنے سارے محاذ کھولے ہوئے ہیں وہ ایک اور محاذ اساتذہ کی جانب سے کھلوانے کا متحمل نہیں ہوسکتی۔
بالفرض اگر حکومت یہ احسن اقدام اٹھانے کا ارادہ رکھتی بھی ہے تو حکومت کو یہ شوشہ چھوڑنے سے پہلے اپنا ہوم ورک تیار رکھنا تھا۔ تیاری اتنی ناقص تھی کہ حکومت کے پاس اساتذہ کے اس سوال کا بھی جواب موجود نہیں تھا کہ اساتذہ آخر کیوں اپنے بچو ں کو سرکاری سکولوں میں پڑھائیں۔ حکومت کی لاچاری دیکھیں کہ ان کے نمائندے پلٹ کر یہ جواب تک نہیں دے سکے کہ اساتذہ آخر کیوں اپنے بچوں کو ان بچوں کے ساتھ بٹھانے پر تیار نہیں جن کے والدین کے ٹیکس کے پیسوں سے ان کی تنخواہ بنتی ہے۔ کوئی نیا شوشہ چھوڑنے سے پہلے حکومت کو کم از کم اتنی تیاری تو کرنی چاہئے کہ آسانی سے عوام کو بے وقوف بناسکیں۔ ہر اعلان کے بعد عوام میں حکومت کا گراف کس تیزی سے گر رہا ہے اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں۔ حکومتی شوشے کے بعد اساتذہ کا بھی پہلا ڈیمانڈ یہی تھا کہ حکومت میں شامل تمام وزاراء، ممبران قومی و صوبائی اسمبلی اور تمام حکومتی اراکین کے بچے بھی سرکاری سکولوں میں پڑھیں گے تو ہمارے بچے بھی ہمارے ہی زیر نگرانی تعلیم پائیں گے۔ یعنی اس ملک میں انسان صرف اساتذہ اور حکومت میں شامل افراد ہی ہیں۔ جن لوگوں کے بچے ان اساتدہ کے پاس پڑھنے جاتے ہیں نہ وہ بچے اور نہ ہی ان کے والدین انسان کہلانے کے لائق ہیں۔کیونکہ یہاں جن بچوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے وہ یا تو وزراء اور حکومتی ارکان کے بچے ہیں یا پھر اساتذہ کے۔ عام آدمی یا ان کے بچے کا ذگر سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
مگر اس میں سب سے حیرت انگیز اساتذہ کا رویہ بلکہ ان کی جانب سے دی جانے والی دھمکی ہے کہ ’’وہ کسی صورت اپنے بچوں کو سرکاری سکولو ں میں نہیں پڑھائیں گے۔ یہ بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔‘‘ میرے حساب سے بھی یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے مگر استاد دھمکی نہیں دیتا بھائی! دلائل دیتا ہے۔ آپ اپنے بچے کو اپنی زیرنگرانی چلنے والی سکول میں کیوں نہیں پڑھائیں گے ؟ اس کی کوئی تو وجہ ہوگی۔ آپ نصاب پر سوالات اٹھا سکتے ہیں۔ معیار تعلیم پر دلائل دے سکتے ہیں۔اساتذہ کی قابلیت پر بحث کرسکتے ہیں۔سکول عمارت کی خستہ حالی پر بات کرسکتے ہیں۔ آپ کے گھر سے سکول کی دوری بھی موضوع بحث ہوسکتی ہے۔اس کے علاوہ بہت سارے مسائل ایسے موجود ہیں جس پر آپ دلائل دے کر اپنے بچے کو اس ادارے سے دور رکھ سکتے ہیں جہاں پڑھنا بنیادی انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی ہے۔کیا ان لوگوں کے سوالوں کا جواب دینا بھی آپ کے فرائض میں شامل نہیں جو اپنا پیٹ کاٹ کر آپ کو تنخواہ دے رہے ہیں۔ کہ آخر آپ کی زیرنگرانی چلنے والی سکول میں بچوں کو پڑھانا کیونکر بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ یہ بنیادی حق صرف ملازمین کے بچوں کا ہوتا ہے یا مالک بھی بنیادی انسانی حقوق رکھتے ہیں؟۔
کمال دیکھئے کہ ماچس کی ایک ڈبیہ 2 روپے کی آتی ہے۔ عام آدمی ایک ڈبہ ماچس خرید کر 36 پیسے ٹیکس ادا کرتی ہے۔ اس 36 پیسے سے سرکار کے نام پر چلنے والے تمام اداروں کے سرکاری ملازمین کی تنخواہ بنتی ہے۔اور یہ 36 پیسے ادا کرکے تنخواہ پر ملازم رکھنے والے ’’مالک‘‘ کے دونوں’’ ملازمین‘‘ آپس میں اس بات پر لڑ رہے ہیں۔ کہ ہم اپنے بچوں کو مالک کے بچوں کے ساتھ بیٹھنے نہیں دیں گے۔مالک کے بچوں کو جو پڑھایا جارہا ہے وہ ملازمین اپنے بچوں کو پڑھانے پر راضی نہیں ہیں۔یہ دونوں ملازمین اپنے بچوں کوایسے اداروں میں جانے کی ہرگز اجازت دینے کو تیار نہیں جہاں سے وہ دونوں ’’رزق حلال‘‘ کما کر بچے پال رہے ہیں۔ حیرت انگیز بات نہیں ہے؟!