کالمز

متاثرین دیامر ڈیم کا بنیادی مسلہ، ہنوز سوالیہ نشان

چیف جسٹس سپریم کورٹ پاکستان جسٹس ثاقب نثار کی ذاتی دلچسپی اور دیامر ڈیم کو ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کرنے کے حوالے سے شعوری مہم لائق تحسین ہے۔1980کی دہائی سے دیامر بھاشہ ڈیم کی تعمیر کے حوالے سے ابتدائی سروے ہوئی اور دیامر کا علاقہ اس ڈیم کی تعمیر کیلئے موزوں قرار دیاگیا۔بدقسمتی سے مختلف ادوار میں آنے والی حکومتوں نے اس اہم معاملے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جس وجہ سے یہ میگا منصوبہ شروع نہ ہوسکا ۔2009میں جب وفاق میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہوئی ،اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے دیامر ڈیم کی تعمیر کے سلسلے میں ابتدائی اقدام اُٹھانے کا فیصلہ تو کیا لیکن پورے پانچ سالہ دور اقتدار کا سورج غروب ہوا مگر ڈیم پر ۵ فیصد بھی کام نہ ہوسکا ،2013میں وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت قائم ہوئی اور 2015میں گلگت بلتستان میں بھی مسلم لیگ ن حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور مرکز میں میاں محمد نواز شریف وزیر اعظم بن گئے ۔نومنتخب وزیر اعظم نے دیامر ڈیم کو اپنی ترجیحات کا حصہ بناتے ہوئے ڈیم کا پہلا مرحلہ اراضی کا حصول فوری طور پر یقینی بنانے کے احکامات جاری کر دیئے جس پر گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت سپارکو کی مدد سے سٹیلائٹ کے ذریعے کم وقت میں شفاف طریقے سے ڈیم کیلئے ضروری اراضی کے حصول میں کامیاب ہوئی۔پہلے مرحلے کی کامیابی ڈیم کی تعمیر ی پیش رفت کا ایک موڑ تھا جس کو اُس وقت کی وفاقی و موجودہ صوبائی حکومت نے ملکر عبور کیا۔افسوس ناک پہلو یہ رہا کہ 2015کے بعد ڈیم کے دوسرے مرحلے کا آغاز اب تک نہ ہوسکا ،متاثرین کی آبادکاری اب بھی سوالیہ نشان ہے۔دیامر ڈویژن کی انتظامیہ کیلئے دیامر کا سب سے بڑا مسلہ اور چیلنج متاثرین کی آباد کاری ہونا چاہے تھی مگر انتظامی سربراہوں نے اپنی تمام تر توانائیاں ظاہری نمائش (cosmatics))پر خرچ کرتے رہے اور دیامر کے اہم اور اصل مسلے سے کنارہ کش رہے ،واپڈا کے حکام نے بھی کوئی قابل قدر کردار ادا نہیں کیا انتظامیہ اور واپڈا کی غفلت نے دیامر کی عوام اور قبائل کو آپس میں تقسیم کیا۔ضلع دیامر کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر مشترکہ آواز اُٹھانے کی طاقت کو قبائیلی تقسیم کے ذریعے کمزور کیا گیا تشویش ناک پہلو یہ بھی ہے کہ موجودہ انتظامی اہلکار اس وقت بھی دیامر کے قبائل کو اپنے اپنے گود میں رکھ کر ڈوریوں کے ذریعے چلا رہے ہیں اور بعض انتظامی سربراہ متاثرین دیامر ڈیم کے ساتھ طے پانے والے ماضی کا معاہدہ 2010پر عملدرآمدکی لولی پاپ دینے پرتلے ہوئے ہیں حالانکہ دیامر کے کچھ طبقات کو معاہدہ 2010پر تحفظات ہیں اور یہ معاہدہ سوائے بنجر داسس پر نیم عوامی ملکیت کی تسلیم کے علاوہ کچھ بھی نہیں ،یہ معاہدہ بددیانیتی اور لو ،دو کی بنیاد پر وجود میں آیا تھا ،اسی معاہدے کی کوکھ سے چلاس میں افراتفری اور عدم مساوات نے جنم لیا،بنیادی طور پر دیکھا جائے تو مذکورہ معاہدہ ہی فساد کی جڑ ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا متاثرین دیامر ڈیم کے مابین از سر نو معاہدہ کے ذریعے پورے ضلع کی عوام کو اعتماد میں نہیں لایا جاسکتا ہے ؟کیا دیامر کی ڈویژنل انتظامیہ اس معاملے میں سنجیدہ ہے،حقیقت یہ ہے کہ ڈویژنل انتظامیہ نہ تو متاثرین کے ساتھ مخلص ہے اور نہ ہی اپنے پیشے کے ساتھ، یہ لوگ خارجی بناوٹ کے ذریعے شخصی ریٹنگ بڑھانے کے سواکچھ نہیں کررہے ہیں ،اگر دیامر ڈیم کی انتظامیہ متاثرین ڈیم کے ساتھ مخلص ہوتی تو روز اول سے ون پوائنٹ ایجنڈا یعنی متاثرین ڈیم کی آباد کاری کو اپنی توانائیوں کا مرکزبناتی لیکن ایسا نہیں ہوا ۔اس اہم نوعیت کی چیلنج کو انتظامی سربراہوں نے قبول تک نہیں کیا اور ابتدائی ایام سے سڑکوں اور دیواروں کی پینٹنگ کے ذریعے محض اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہے ۔اس سارے عمل میں انتظامی سربراہوں کے ساتھ عوام و سیاسی قیادت کی سستی اور کوتاہیاں بھی آباد کاری کے معاملے میں رکاوٹ بنی رہی اور سال 2018 ختم ہونے جارہا ہے، لیکن متاثرین کی آبادکاری اب تک الجھا ہوا سوال بنا ہوا ہے ۔اس حوالے سے دیامر میں آنے والے نئے بیوروکریٹس کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ روایتی نمائشی بناوٹ کو ترک کرتے ہوئے دیامر کے اہم نوعیت کے بڑے ایشوز پر موجود چیلنج کو قبول کریں اور سنجیدہ اقدامات اُٹھائیں ۔المیہ یہ ہے کہ دیامر میں اچھا کام بھی کسی کے بغض میں کیا جاتا ہے اور اس ضلع میں آنے والے آفسران بھی اسی روش کو اپناتے ہیں۔دیامر کیلئے تمام تر حوالوں سے بالاتر ہوکر مخلصانہ بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔اگر انتظامی سربراہ مخلص ہوں تو اب بھی متاثرین کی آباد کاری کوئی بڑا مسلہ نہیں ہے ۔2007کی سروے کے مطابق چار ہزار دو سو متاثرین سرکاری ریکارڈ کا حصہ ہیں جن میں سے کھنبری کے متاثرین پورا علاقہ چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔،ہرپن داس میں پندرہ سو سے دو ہزار متاثرہ گھروں کو بسایا جاسکتا ہے۔گوہرآباد کے متاثرین خود کیلئے ماڈل ویلیج کی اراضی اپنی مرضی سے اپنے علاقے میں فراہم کرسکتے ہیں۔چلاس کے زیادہ تر متاثرین کو ہرپن داس میں بسایا جاسکتا ہے۔ہڈور تھور اور تھک کے متاثرین کیلئے تھک قبائل سے مذکرات کا راستہ اپنا کر جگہ نکالی جاسکتی ہے مگریہ تمام اُس وقت ممکن ہے جب انتظامیہ و واپڈا کے اہلکار عوام کو بانٹنے کی بجائے خلوص دل سے آگے بڑھیں اور قبائل بھی اپنا دل تھوڑا بڑا رکھیں کیوں کہ آباد کاری کا مسلہ متاثرین ،دیامر کی ترقی اور ڈیم کی تعمیر کیلئے بہت اہم ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button