کالمز

دیوانو کی باتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ گلگت میں ایک  مُردے  سے ملاقات

تحریر : شمس الحق قمرؔ  چترال

آپ زرا تصور کیجے کہ  برسوں کا مردہ آپ سے ملے اور آپ کو اپنی موت کا قصہ  بتانا شروع کرے اور وہ بھی ایک پرانے قبرستان کی مضافات میں  بیٹھ کر۔ کتنا خوفناک واقعہ تھا جو مجھ پر گزرا ۔ جو واقعہ  میں آپ کو سنانے جا رہا ہوں ، کوئی فلم یا ڈرامہ  نہیں بلکہ ایک اصلی مُردے سے ملاقات کی داستان  ہے جسے پڑھ کر آپ کے رونگٹے کھڑے ہوں گے ۔ میری اُن سے ملاقات گلگت کے ایک  قبرستان کے قریب ہوئی ۔

            وہ  اپنی موت سے کچھ دن پہلے اسی قبرستان کے پاس اسی جگہے پر بیٹھے ایک جدت خیال دوست کے ساتھ اللہ کے وجود پر محو گفتگو تھے ۔ مردہ صاحب کہتے ہیں کہ جس دوست کے ساتھ وہ محو گفتگو تھے وہ در اصل  اللہ کے وجود کو   دقیق  نظر سے دیکھنے والوں میں سے تھے ۔  وہ  محض بے بنیاد جذبات اور قصہ کہانیوں کے  بل بوتے پر  گفتگو نہیں کرتے تھے بلکہ پختہ دلائل سے مخاطب کے زہن میں اُتر تے اور سننے والے پرگہرا اثر  چھوڑ کر ہی بات چیت سیمٹ لیا کرتے ۔ مردہ صاحب  اگرچہ ایک کٹر مذہبی خاندان کا چشم چراغ تھے مگر جدت پسند دوست کی حقیقت پسندانہ باتوں کے متلاشی زہن پر  بڑا گہرا  چھاپ پڑا تھا ۔یوں مردہ صاحب  گھر سے نماز کے لئے نکلتے لیکن سیدھا اسی قبرستان  کا رخ کرتے اور  شرف ملاقات سے فیضیاب ہوتے ۔دونوں کی ملاقات روز ہوتی اور موت و حیات کی حقیقت اور اللہ کے وجود پرپُر مغز  بحث ہوتی ۔ گفتگو کا یہ سلسلہ جاری رہا   اور قلیل عرصے میں  مردہ  صاحب  بھی جدت پسند دوست کے رنگ میں رنگ گیا  ۔  جدت  پسند  دوست نے اُسے  سخت تنبیہ کی ہوئی تھی کہ خدا کے وجود کے حوالے سے شکوک و شبہات ایک حساس معاملہ ہے  اگر چہ  ایسے شبہات مثبت ہی کیوں نہ ہوں تب بھی جلتی کو ہوا ملتی ہے  ۔اور کہ یہ باتیں صرف اپنے ہم خیال لوگوں سے کی جاسکتی ہیں ورنہ سر قلم ہو سکتا ہے ۔ مردہ صاحب کا ذہن اب پختہ ہو چکا تھا اُس کے ذہن سے ہر قسم کا ڈر اور خوف ختم ہوا تھا لیکن،  وہ یہ باتیں کسی کو بتانے سے قاصر تھے ۔ ایک عرصے تک تذ بذب کا شکار رہا کیوں کہ اُن کا تعلق ایک پرہیزگار اور  راسخ العقیدہ  مذہبی خاندان سے تھا ۔ ایک طرف قباحت یہ تھی کہ جدت خیال  دوست  سے  نشست و برخواست کا سلسلہ شروع ہونے سے پہلے   وہ جنون کی حد تک مذہبی آدمی تھے  اور انہوں نے علاقے کے نوجوان مجاہدین کے ساتھ  مل کر جہاد کے لئے افغانستان جانے کی قسم کھائی ہوئی تھی ۔ وہ قسم تو توڑ  سکتا تھا   لیکن اس فعل کے مرتکب ہونا موت کو  گلے  لگانے کے مترادف تھا   کیوں کہ  مجاہدین اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے  ایسے  باغی لوگوں کا سر قلم کر تے ہیں لہذا  چارو ناچار علاقے کے مجاہدین کے ساتھ افغانستان کے لئے رخت سفر باندھ لیا ۔  راستے میں  کئی بار سوچتے  رہے کہ جس مقصد  کے لئے وہ جا رہے ہیں وہ کام  درست نہیں ہے کیوں کہ  اس مقصد کی تکمیل میں  انسانی جانیں صفحہ ہستی سے مٹ سکتی ہیں پھر یہ کیسا اسلام ہے کہ زمین پر بشر کا  خون بہا کر  اللہ کی خوشنودی حاصل کی جائے ۔ کیا واقعی خدا   کو  اس خون خرابے پر خوشی ہو سکتی ہے ، اگر وہ لوگ غلط ہیں تو کیا خدا   خود انہیں نیست و نابود دنہیں کر سکتا ،    کیا وہ اتنا چھوٹا  اور بے بس خدا ہے کہ  وہ خود کچھ نہیں کر سکتا  اور  ہم اُس کی مدد کریں، اگر وہ  واقعی ایسا خدا ہے تو وہ کیسے خدا بن سکتا ہے  ؟  ان سوچوں میں کئی دنوں کی مسافت  طے ہو گئی اور  یہ قافلہ افغانستاں میں داخل ہوا ۔ افسوس ناک بات یہ ہوئی کہ افغانستان کے تنگ و تاریک اور پُر پیچ گھاٹیوں کے پاس  تاک میں بیٹھے ہوئے دشمن کی جانب سے فائرنگ کے نتیجے میں گاڑی کو حادثہ پیش آیا اور گاڑی ایک گہری کھائی میں جا گر ی یوں گاڑی میں سوار  تمام مسافر لقمہ اجل ہوئے ۔ تمام مجاہدین کی لاشیں بُری طرح سے مسخ ہو چکی تھیں ۔ ان میں سے چھے مجاہدین کی لاشیں ایسی بھی تھیں کہ جنہیں جنگلی جانوروں نے ہڑپ کر ڈالے  تھے لیکن خوش قسمتی سے مردہ صاحب کی لاش  تھوڑی سی مسخ  ہونے کے  باوجود   کسی حد تک سلامت تھی۔ اور مردہ صاحب اپنی لاش کی سلامتی پر خوش تھے ۔ تین دن گزر جانے کے بعد باقی ماندہ لاشوں کو  بھی اُٹھالیا گیا ۔ مردہ صاحب کی لاش کو ایک بوری میں بند کر کے پاکستان اور پھر گلگت کی طرف روانہ کیا گیا ۔ مردہ صاحب کہتے ہیں کہ گلگت کے ایک مضافاتی گاوں پہنچانے کے بعد علاقے کے ذمہ دار    شخصیت نے جنازے کا غسل کراتے ہوئے توبہ استعفار کی ورد کرتے رہے کیوں کہ لاش کافی حد تک مسخ ہو چکی تھی – لاش کو باہر نکالا گیا  اور مذہبی  ذمہ دار نے جنازے کی نماز پڑھانے کے بعد  ایک زبردست تقریر جھاڑ دی  جس کا متن   جہاد فی سبیل اللہ کے علاوہ  اللہ کے وجود پر کسی بھی قسم کے سوال پر قیامت کے دن سخت سزا   پر مبنی تھا  ۔ مردہ بھائی  کہتے ہیں کہ  گاوں کے تمام لوگ تعزیت کے لئے آئے ہوے تھے اور میں انہیں دیکھ سکتا  تھا اور اُن کی باتیں سن  سکتا تھا  اُنہی میں میرا وہ جدت خیال  دوست بھی شامل تھے جو میری زندگی میں    قبرستان کے پاس بیٹھ کر (جہاں اِس وقت میں اور مردہ صاحب بیٹھے ہوئے ہیں ) خدا کے وجود پر شک کی باتیں کیا کرتے تھے ، نے جنازے کو غسل  کرنے والے ذمہ دار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے  میرے ایک اور جاننے والے کے کان میں دھیمی آواز  سے کہ رہا تھا ” دیکھ یار یہ  بندہ جس نے میرے دوست کی لاش کو غسل دیا ہے، اپنی دکان چلانے کےلئے انسانی زندگی کے تمام پہلووں کو  مذہبی عقائد سے جوڑے جا رہا ہے ۔  یہ جو لاش کو غسل کرانے کے بعد باہر آکر لوگوں کو جو نصیحتیں کر رہا تھا  یہ سب بکواس تھا ۔ مجھے نہیں لگتا کہ اتنا بڑا رب جو کہ بے شمار کائیناتوں کا مالک ِکل ہے  اور یوں جہاد فی سبیل اللہ کا حکم دے کہ جہاں  اس کی خوشنودی  صرف انسانی خون بنانے میں مضمر ہو  ۔ بھائی اگر وہ لوگ غلط  ہی کیوں نہ ہوں  ہمیں  انہیں کیوں  قتل کرنا چاہئے کیا اللہ خود اُن کو نہیں مار سکتا  ہے ۔  میری عقل بالکل نہیں مانتی ہے  ہمیں خدا کی خوشنودی کے بہانے ہر وہ کام  کرنے چاہئے جہاں ہمارا پنا فائدہ  چھپا ہوا ہو۔   اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہم خدا کو بھی دھوکہ دے رہے ہیں ۔   یہ جو بے جان لاش ہمارے سامنے پڑی ہوئی ہے اس کی موت کو بھی یہ لوگ خدا کے شانوں پر ڈالتے ہیں ۔   یار خدا تو اتنا بڑا اور مہربان ہے کہ اُس نے تمام نظام  پہلے سے بنایا  ہوا ہے  اُس نے ہمیں عقل اور شعور عطا فرمایا اور کہا کہ اس عقل کو استعمال کرو  لیکن صد افسوس کہ ہم ہر کام کو خدا پر ڈال کر بری الزمہ  ہو جاتے ہیں ۔ شاید میرا جدت پسند دست اور بھی بہت    ساری اور باتیں  کرتے لیکن میری لاش کو  لوگوں نے کاندھا  دیکر  قبرستان کی جانب روانہ کیا  ۔میں تمام واقعات کو بڑی توجہ سے دیکھ رہا تھا لیکن افسوس کہ   بولنے اور حرکت کے قابل نہیں تھا ۔  مختصر یہ کہ مجھے قبر میں اُتارا گیا  اور  اور میرے اوپر مٹی ڈالی گئی  میں نے دیکھا تو میں ایک کمرے میں تھا  کمرہ دروازہ اور کھڑکیوں سے عاری تھا  لیکن روشنی تھی  ۔ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ یہ روشنی کہاں سے آ رہی ہے ۔ اُسی کمرے میں ایک اور جانور باندھا گیا تھا جس کے گلے میں زنجیر تھی   جس سے روشنی پھوٹ رہی تھی  شاید اسی زنجیر سے پورا  کمرہ  روشن تھا ۔   یہ جانور کُتا تھا یا بھیڑو  یہ فرق کرنا مشکل  تھا ۔میں انتظار میں تھا کہ وہ فرشتہ کہ  جس کے بارے میں دنیاوی زندگی میں قصے بتائے جاتے تھے ،کب آئے گا ؟  میں بہت سخت پریشانی کے عالم تھا   کیوں کہ میری مدد کے لئے اس بند کمرے میں کوئی نہیں تھا ۔ مجھے یقین تھا کہ موت کے بعد کوئی  تمہارا نہیں ہے ۔ میں نے ایک پل کے لئے آنکھیں بند کیں  اور جب میں نے دوبارہ آنکھیں کھول دیں تو میرے سامنے  ایک دیو ہیکل سفید پوش انسان   ہاتھ میں ایک بہت  ہی موٹی   بہی  کھاتہ لئے  کھڑے تھے ۔ اُس دیو ہیکل آدمی کا حلیہ  ناقابل بیان حد تک  حیرت انگیز تھا  قد  اتنا  لمبا  کہ  قد ِ آدم شرما جائے ، سر تا پا  سفید ریش و سفید پوش  ۔    بغل کے نیچے سے کتاب نکالی ، کتاب کے اَوراق     کی شکل و شباہت دیکھ کر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ کسی پہاڑ پر کوئی  بہت بڑا اسکرین لگا ہوا ہو ۔ گو کہ یہ لکھائی سے بھری ہوئی تھی  لیکن  تمام الفاظ مدہم  اور دھندلے  تھے ۔ اُس دیو ہیکل شخص نے ورق گردانی شروع کی ۔ ورق  اتنے وزن دار تھے کہ پلٹانے سے زمین ہل جاتی تھی ایسا لگتا تھا کہ زمیں پر کوئی  زوردار  بھونچال آگیا ہو   ۔ ورق گردانی کا سلسلہ جاری رہا  اور پھر ایک ورق ایسا بھی  آیا جس میں  سب سے اوپر میرا نام جلی حروف میں    لکھا ہوا تھا    باقی   صفحے کا صفحہ تحریر سے بھرا تھا لیکن تمام حروف مدہم تھے ۔  میں یہ سب کچھ دیکھ کے بہت پریشان ہوا  پھر میں نے ہمت کرکے اُن سے پوچھا کہ میرے نام کے نیچے  میری جو تاریخ رقم ہے  وہ کیوں دھندلی ہے ؟  یہی کہنا تھا کہ  وہ آدمی آپے سے باہر ہو گیا      اور گرج دار آواز میں کہا ”    تمہاری تاریخ  تو    اُس وقت نظر آئے گی جب تمہارے حساب کتاب کا دن آئےگا ”     یہ کہتے ہوئے ہاتھ میں تھامے کتاب   اُٹھا کر  اتنے  زور سے زمین پر دے ماری   کہ جس کی ہیبت و شدت سے  میری  آنکھ کھل گئی ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button