شاہراہِ ریشم کے دیرینہ دوست
تحریر: تہذیب حسین برچہ
شاہراہِ ریشم دنیا کی اہم تاریخی اور تجارتی شاہراہوں میں سے ایک ہے جو چین کو جنوبی ایشیاء کے ممالک کے ساتھ ساتھ مشرقی وسطیٰ اور مغرب تک رسائی حاصل کرنے میں نہایت اہم کردار اداکرتی ہے۔ چین جو دنیا کا ایک اہم تجارتی ملک ہے اور اس کی خشکی کی تجارتی سر گرمیوں کا انحصار شاہراہِ ریشم پر ہی منحصر ہے۔ چینی مصنوعات اسی شاہراہِ سے گزر کر گوادر پھر پوری دنیا میں پہنچ جاتی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ شاہراہِ ریشم پر تجارتی سرگرمیاں تین سو قبل مسیح سے جاری ہیں۔ قدیم یونان میں چین کے لئے سیرس (Seres)کی اصطلا ح استعمال کی جاتی تھی جس کے معنی "ریشمی خطہ” کے ہیں ۔مغربی سیاح مارکوپو نے بھی اس شاہراہ پر سفر کیا لیکن اس شاہراہ کے لئے”شاہراہِ ریشم ” کی اصطلاح 1877 میں جرمن تاریخ دان وجغرافیہ دان Ferdinand von Richthofen نے وضع کی۔اس طرح اس شاہراہ پر مختلف صورتوں میں تجارتی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن 1979 میں شاہراہ کی باقائدہ تعمیر کے بعد تجارتی سرگرمیوں میں تیزی آئی جبکہ 2013 میں پاکستان چائینہ اکنامک کاریڈور (CPEC)منصوبہ کے آغاز کے بعد ایک معاشی انقلاب آیا ۔ چین کے صدر شی جن پنگ کی دوراندیش حکمت عملی کے باعث چین مستقبل میں سی پیک بیلٹ اینڈ روڑ انیشیٹیو(BRI)کے بعد نہ صرف عالمی مارکیٹ میں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگا بلکہ ایک معاشی دیوہیکل طاقت کے طور پر دنیا بھر میں خود کو منوانے میں بھی کامیاب ہوگا۔
پاک چائینہ انسٹیٹیوٹ اسلام آباد کے زیرِ اہتمام14 فروری 2019 کو وفاقی دارالحکومت کے ایک فائیو سٹار ہوٹل میں "شاہراہِ ریشم کے دیرینہ دوست "کے موضوع پر ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا ۔اس موقع پر چین سے آنے والے وفد کے اراکین، وفاقی وزراء اور سینیٹرز نے شاہراہِ ریشم کی اہمیت، پاکستان اقتصادی راہداری منصوبہ کی اہمیت اور پاکستانی معیشت پر اثرات کے موضوعات پر مفصل گفتگو کی۔
سہ پہر3بجے تقریب کا آغاز وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی و ترقی مخدوم خسرو بختیارکی صدارت میں ہوا۔پاکستان کی جانب سے پاک چائینہ انسٹیٹیوٹ کے چیئرمین سینیٹر مشاہد حسین سید، سینیٹر شبلی فراز، سینیٹر شیری رحمان اور پی سی آئی کے ڈائریکٹر مصطفیٰ حیدر سید نے شرکت کی جبکہ چین کی جانب سے گاؤ یولونگ وائس چیئر مین چائنیز پیپلز پولیٹیکل کنسلٹیٹیو کانفرنس،لی روگو وائس پریذیڈنٹ چائینہ پیس اینڈ ڈیولپمنٹ فاؤنڈیشن اورزاؤ لجیئن ڈپٹی چیف چینی سفارتخانہ کے علاوہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔ نظامت کے فرائض ارم نذیر نے انجام دیے۔
اس موقع پر چیئرمین پاک چائینہ انسٹیٹیوٹ مشاہد حسین سید نے خطبہ ء استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ "شاہراہِ ریشم کے دیرینہ دوست”(ٖFriends of silk road)نامی مہم پاکستان اور چین کے سدا بہار تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ سی پیک پراجیکٹ کو معاونت فراہم کرنے کی جانب ایک قدم ہے ۔پاکستان روڑ اینڈ بیلٹ انیشیٹیو (BRI)کے ممالک میں پہلا ملک ہے جس نے عوامی حلقوں،دانشوروں،پارلیمنٹیئرنز ،طلباء اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس سے سی پیک کے بعد پاکستان کی معیشت پر پڑنے والے اثرات اور فوائد کو بہتر انداز میں سمجھنے کا موقع میسر آئے گا۔انہوں نے مزید کہا کہ شاہراہِ ریشم پر گزشتہ دو ہزار سال سے تجارتی سرگرمیاں جاری ہیں۔ سی پیک پراجیکٹ پاکستان کے شاندار مستقبل کی ضامن ہے جس سے 70000پاکستانی افراد کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے جوملک سے بے روزگاری کے خاتمے کے لئے ایک نیک شگون ثابت ہوگا ۔
انہوں نے مزید کہاکہ سی پیک پراجیکٹ کے بعد پاکستان کے حوالے سے دنیا میں پائے جانے والے غلط تاثرات کم ہوئے ہیں پاکستان دہشتگردی کا شکار ایک خطرناک ملک تصور کیا جاتا تھا لیکن اس پراجیکٹ کے منصوبوں کی کامیابی کی جانب گامزن ہونے سے چین کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کے لئے سرمایہ کاری کے مواقع میسر آئے ہیں۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر منصوبہ بندی و ترقی مخدوم خسرو بختیار نے کہا کہ سی پیک منصوبہ چین کے صدر شی جن پنگ کی دور اندیش حکمت عملی کا منہ بولتا ثبوت ہے جو21 ویں صدی میں دونوں ملکوں کے عوام میں قربتیں بڑھانے میں معاون ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کے عوام کی تقدیر بدل دے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ وزیر اعظم عمران خان کے گزشتہ دورہ چین اورآٹھویں جوائنٹ کمیٹی آف سی پیک (JCC)نے 2019کو صنعتی باہمی تعاون کا سال قرار دیا ہے اور دونوں ملکوں نے کئی سماجی و اقتصادی منصوبوں میں باہمی تعاون کوبڑھانے کا عز م کا اظہار کیا ہے خصوصاََ چین نے پاکستان کو ذرعی شعبے کے ساتھ ساتھ توانائی کے شعبے میں خاص تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے جس سے پاکستان مستقبل میں چین تعاون سے نہ صرف توانائی سے متعلق مسائل پر قابو پانے کے قابل ہو جائے گا بلکہ آنے والے تین سالوں میں صنعتی تجارت میں بھی اضافہ ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ گوادر سی پیک پراجیکٹ کا ایک اہم مرکز ہے ۔گوادر میں 300میگاواٹ کول پاور پراجیکٹ،نیو انٹرنیشنل ایئر پورٹ اور پینے کے صاف پانی کے منصوبے شروع کیے جا رہے ہیں گوادر ماسٹر پلان کو چینی تعاون سے حتمی شکل دی گئی ہے جس کا آغاز اگلے ماہ کیا جائے گا ۔اس کے علاوہ سعودی عرب کے تعاون سے 10ارب ڈالر کی لاگت سے خطے کی سب سے بڑی آئل ریفائنری قائم کیا جا رہا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس شعبے پر خاص توجہ دے کر خاطر خواہ نتائج بر آمد کیے جا سکتے ہیں اسی حوالے سے زرعی شعبے میں تعاون کے فرو غ کے لئے رواں ماہ چینی ماہرین کا وفد پاکستان کا دورہ کرے گا جس سے زراعت کے شعبے میں ایک انقلاب آئے گا۔
اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گاؤ یولونگ وائس چیئر مین چائنیز پیپلز پولیٹکل کنسلٹیٹیو کانفرنس نے کہا کہ پاکستان اور چین کی دوستی سدا بہار ،پُراعتماد اور قابلِ رشک ہے اور گزشتہ 6دہائیوں پر محیط یہ رشتہ باہمی اعتماد اور عوامی مدد کے باعث مزید مضبوط ہو چکاہے۔سی پیک پراجیکٹ میں مشکلات ضرور ہیں لیکن ان پر قابو پا کر مقررہ وقت میں ان کی تکمیل کو یقینی بنائیں بنایا جائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس وقت چین میں 20000پاکستانی طلباء زیرِتعلیم ہیں اور امید ہے کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے عوام میں مزید قربتیں بڑھیں گی۔ سی پیک پراجیکٹ کے روڑ اینڈ بیلٹ انشیٹیو(BRI)کے تحت 22میں سے 9 منصوبے مکمل ہو چکے ہیں جبکہ 13کی تکمیل کو مستقبل میں یقینی بنایا جائے گا۔
اس تقریب کے آخر میں سی پیک پراجیکٹ کے حوالے سے سوالات و جوابات کا سلسلہ بھی شامل تھا ۔جس میں لیفٹیننٹ جرنل (ر)عبد القیوم ،زاؤ لجیئن ڈپٹی چیف آف مشن چینی سفارت خانہ،حسن داؤد بٹ ،پراجیکٹ ڈائریکٹر سی پیک وزارت منصوبہ بندی و ترقی اور لی روگو وائس پریزڈنٹ چائینہ پیس اینڈ ڈویلپمنٹ فاؤنڈیشن نے ذرائع ابلاغ کے نمائیندوں کے سی پیک کی اہمیت،پاکستانی معیشت پر اثرات،مستقبل اوردونوں ملکوں کے عوام کے درمیان رفاقتیں بڑھانے کے حوالے سے اقدامات سے متعلق سوالات کے جوابات دیے۔
اس موقع پر چینی وفد کے اراکین ،وفاقی وزراء اور سینیٹرز میں اعزازی شیلڈ تقسیم کیے اور پاکستان اور چین کے مستقبل میں مزید مستحکم کرنے کے عزم کے ساتھ ساتھ بہت ساری خوشگوار یادیں اپنے دامن میں سمیٹے تقریب اختتام پذیر ہوئی۔
بلاشبہ سی پیک پراجیکٹ اور روڑ بیلٹ انشیٹیو ) (BRI اس صدی کا سب سے بڑا منصوبہ ہے لیکن اس منصوبے کی کامیابی کے حوالے سے بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔کیونکہ اس منصوبے کی کامیابی مغربی طاقتوں پر نہایت گراں گزرتی ہے اور وہ اس منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے کسی بھی ہتھکنڈے کو استعمال کرنے سے گریز نہیں کریں گی۔مغربی طاقتیں جہداللبقا) (Survival of fittest کے اصول کی قائل ہیں اور وہ اپنی بقاء کے لئے کمزور قوتوں کو کچلنے سے بھی باز نہیں آتیں جبکہ قانونِ فطرت ہے کہ اقوام کی تقدیریں دعاؤں اور وظیفوں سے نہیں بدلتی بلکہ اقوام فکر و عمل کے ذریعے ہی کامیابی کی بلندیوں کو چھوتی ہیں۔پاکستان اور چین کو سی پیک پراجیکٹ کے حوالے سے عوام میں شعور پیدا کرنے کے لئے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں پاکستانی عوام سی پیک کے حوالے بیرونی سازشوں کا شکار نہ ہو سکیں ۔) (Friends of silk road مہم مستقبل میں نہ صرف دونوں ملکوں کے عوام میں قربتیں بڑھانے کا باعث ہوگا بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے اذہان پر بھی اچھے اثرات مرتب کرے گا۔
اس کے علاوہ گلگت بلتستان سی پیک کا گیٹ وے ہونے کے باعث بنیادی اہمیت کا حامل ہے لیکن پراجیکٹس اور اکنامک زونز میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں گلگت بلتستان کو نظر انداز کرنے کے باعث جی بی کے عوام میں خدشات پائے جاتے ہیں۔ جوائینٹ کمیٹی آف سی پیک کی پاکستانی و چینی قیادت کو سی پیک پراجیکٹ کے منصوبوں میں گلگت بلتستان کے عوام میں پائے جانے والے خدشات کے ازالے کے لئے بھی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔