کالمز

جنگ نہیں، امن کی آشا اور محبت سے بانہیں پھیلانے کی ضرورت ہے

گزشتہ کچھ دنوں سے پاک بھارت کشیدہ صورتحال پر دونوں اطراف کی افواج اتنی پریشان نہیں جتنے سوشل میڈیا پر فیس بکی مجاہدین تپے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جنگ فیس بک پہ نہیں محاذ پہ کھیلی جاتی ہے اور محاذ پر جانے کے لیے دل گردے کی ضرورت ہوتی ہے جوکہ ماشااللہ سے ہماری قابلِ فخر فوج احسن طریقے سے نبھا رہی ہے۔ ہمیں اس وقت اخلاق سے گرے ہوئے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے گریز کرنا چاہئیے جس سے ہماری پاک فوج اور حکومت کو مسائل کا سامنا ہو۔ یہ وقت دشمن کو گالی دینے کا نہیں۔ ایک قوم بن کر رہنے کا ہے۔ محبتیں پھیلانے کا ہے۔ ان جذباتی نوجوانوں کی حالت دیکھ کر مجھے ایک لطیفہ یاد آرہا ہے۔ ضلع غذر کو وادی شہدا بھی کہا جاتا ہے یہ مبالغہ آرائی نہیں۔ آپ کو یہاں قدم قدم پر سبز ہلالی پرچم اور شہیدوں کے مقبرے نظر آئیں گے۔ اسی وادی شہدا کی بات ہے جو ابھی لطیفہ کے طور پر لوگ سناتے ہیں کہ محاذ جنگ سے ایک غازی چھٹی پر گھر آتا ہے تو ہمارے وہاں یہ روایت ہے کہ لوگ ملنے اور خیر خبر پوچھنے کے لیے جاتے ہیں۔ اس فوجی غازی بھائی کی عیادت کے لیے بھی جب لوگ جاتے رہے تو وہ خود بستر علالت پر پڑا خاموش رہتا تھا لیکن محاذ کی ساری کہانی اس کی بیوی لوگوں کو سنایا کرتی تھی۔ ایک دن فوجی بھائی تنگ آکر لوگوں سے کہتا ہے کہ محاذ جنگ پر میں جنگ کرکے آیا ہوں لیکن باتیں میری بیوی کرتی ہے۔

ان دنوں بھی صورت حال یہ ہے محاذ پر پاک دھرتی کی حفاظت پر معمور ہماری قابلِ فخر فوج ہے لیکن بڑی بڑی باتیں ہم بازار کے چوراہے میں بیٹھ کر کرتے ہیں اور سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ شاید ایسی ہی صورتحال پر اردو کا یہ مقولہ صادق آتا ہے ’’باتیں کروڑوں کی، دکان پکوڑوں کی۔‘‘

پہلی بات جنگ میں کسی کی جیت یا ہار نہیں ہوتی جنگ نام ہی تباہی کا ہے۔ یقین نہیں آتا تو ذرا پہلی اور دوسری جنگ عظیم کی ہولناکیوں کی تاریخ ہی پڑھی جائے تو بازار کے چوراہے پر بیٹھ کر سوشل میڈیا کے ذریعے جذباتی تبصرہ کرنے والے نوجوانوں کی آنکھیں کھل سکتی ہیں۔ اتنی سی بات ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ جنگ نہ پاکستان کے لیے صحیح ہے اور نہ ہندوستان کے لیے۔ جنگ کے جنونیوں سے صرف اتنا کہنا ہے کہ جنگ کیا چیز ہوتی ہے آپ اس ماں سے پوچھئیے جس کا لخت جگر کسی جنگ کی نذر ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جنگ کسے کہتے ہیں آپ اس بیوہ سے پوچھئیے جس نے اپنی سہاگ کسی جنگ کے نتیجے میں کھویا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جنگ کے بارے میں جاننا ہے تو اس یتیم سے پوچھئیے جو کسی جنگ کے نتیجے میں باپ کے سائے سے عمر بھر محروم ہوا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں جنگ کے بارے میں وہ بیٹی آپ کو صحیح گائیڈ کر سکتی ہے جس کا ہاتھ ابھی تک اس لیے پیلا نہیں ہوا ہے کہ اس کا باپ کسی جنگ کی نذر ہوا ہے اوہ تن تنہا اس مردانہ سماج کا مقابلہ کر رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر آپ سمجھ جائیں گے کہ جنگ آپ سے کیا کیا چھین لیتی ہے۔

وزیراعظم عمران خان سے ہماری لاکھ نظریاتی اختلافات سہی لیکن انہوں نے اس کشیدہ صورتحال میں جس دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کے پائلٹ کو خیرسگالی کے طور پر واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا یقیناً ایسے ہی فیصلہ وقت کی اہم ضرورت تھا۔ کیونکہ جنگی قیدیوں کو چھوڑنے کا سبق ہمیں اسلام میں اور پاک نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ سے ملتا ہے۔ ریاست مدینہ کی ایک عملی تصویر دکھانے پر پوری قوم کو عمران خان اور پاک فوج کا شکریہ ادا کرنا چاہئیے۔ لیکن افسوس ہوتا ہے کہ اس موقع پر بھی بعض لوگ روایتی سیاسی چپقلشوں کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں عمران خان کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے وہاں نریندر مودی کو گاؤ موتر پینے والا اور پتہ نہیں کیا کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہہ کر اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یقین کریں ایسی باتوں سے بدبو آتی ہے۔

مان لیتے ہیں کہ نریندر مودی ذہنی مریض ہیں اور یقیناً ایک ذہنی مریض اور پاگل شخص ہی صرف اپنی ذاتی مفاد اور الیکشن جیتنے کے لیے پوری قوم کو جنگ کی ہولناکیوں میں دھکیل سکتا ہے۔ لیکن جناب! آپ اور نریندر مودی جیسے ذہنی مریض میں یہی فرق ہے کہ وہ گاؤ موتر پیتے ہیں لیکن آپ تو گائے کا دودھ پیتے ہیں اس لیے آپ کے بات کرنے کا انداز مودی اور اس کے چیلوں سے مختلف ہونی چاہئیے۔ ہماری باتوں سے خوشبو آنی چاہئیے بدبو نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سب سے اہم بات مجھے اور آپ کو تو ماشااللہ سے اللہ کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے غلام ہونے کا بھی دعویٰ ہے۔ اسی رحمت اللعالمین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا تھا:

’’اچھا مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے محفوظ رہیں۔‘‘

کہتے ہیں کہ ایک شمع جل رہی ہو تو وہ اپنے ماحول کو نور سے منور کر دیتی ہے۔ جنگل میں پھول کھلا ہو تو وہ اپنے گرد و پیش کو معطر کر دیتا ہے۔ اور ریگستان میں ایک سایہ دار درخت سفر کے تھکے ماندے اور درماندہ مسافر کو سکون و آرام اور سایہ بخشتا ہے۔ اسی طرح حبیب خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے غلام سے بھی انسانیت کو نور ہدایت نصیب ہوتا ہے اور اس کے سایہ رحمت کے نیچے دنیا کو سکھ اور آرام نصیب ہو جایا کرتا ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے آپ کو غلامان محمد کہلانے کا دعوی کرتے ہیں اور کسی کو ہم سے سکھ اور چین نصیب نہیں ہوتا تو ہمیں اپنے دعوی غلامی پر نظر ثانی کرنا ہو گی۔

یہ وقت امن کی آشا کا ہے۔ بانہیں کھول کر دوسروں کو گلے لگانے کا ہے، محبت کے اظہار کا ہے، برداشت کا ہے اور صبر کرنے کا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نصرت ہمیشہ صابرین کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیونکہ؎

’’میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‘‘

اللہ پاک دونوں خطوں کے رہنماؤں اور باسیوں کو اس کشیدہ صورت حال میں حقیقی سمجھ عطا فرمائے۔ آمین!

و ما علینا الا البلاغ المبین!

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button