خواتین کا عالمی دن
تحریر کرن قاسم
جدید دنیا ہرسال 8 مارچ کو عورتوں کا عالمی دن کے نام سے بڑے اہتمام کے ساتھ منایا کرتی ہے۔ سرکاری، نیم سرکاری اور پرائیویٹ سطح پر مختلف النوع طرز و انداز کے ساتھ خواتین کو خراج تحسین پیش کی جاتی ہے ۔اس ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آج عالم مغرب اس حوالے سے پیش پیش نظر آتا ہے اور اس ظاہری دکھاوے میں آکر دنیا مغرب کو حقوق انسانی کے شعبہ حقوق نسواں کا چمپیئن سمجھنے لگتی ہے مگر درحقیقت یہ ایک نظری بہکاوا ہی ہے کیونکہ اگر تاریخ کے جھروکوں میں جھانکا جائے تو عیاں ہوتا ہے کہ یہ دن 1909 سے منایا جارہا ہے لیکن خواتین کے عالمی دن کے طور پر دنیا بھر میں آٹھ مارچ کو منانے کا باقاعدہ فیصلہ 1913 میں کیا گیا۔
اس دن کو منانے کے بنیادی اسباب اور وجوہات پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ مرد کے زیر تسلط چلی آرہی اس دنیا میں خواتین نے پہلا منظم اور باضابطہ احتجاج 1908 کو اسوقت شروع کردیا جب پندرہ سو کے لگ بھگ عورتیں مختصر اوقاتِ کار، بہتر اجرت اور ووٹنگ کے حق جیسے بنیادی مطالبات منوانے کے لیے نیویارک کی سڑکوں پر مارچ کرنے نکلیں تھیں۔ یہ رجحان اس وقت کے تنگ نظری اور ہوس ذدہ امریکن سماج پر بارگراں کے مانند گزرا تھا اور ارباب اقتدار نے اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے والی ان خواتین کو شکست دینے کیلئے نہ صرف گھڑ سوار دستوں نے کارروائی کی بلکہ ان پر بے پناہ تشدد کی گئی اور حقوق کیلئے میدان عمل میں آئی بہت سی عورتوں کو گرفتار بھی کیا گیا۔ یوں اس تحریک نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سماجی رویوں اور انداز فکر پر گہرے نقوش و اثرات ثبت کئے اور یوں حقوق نسواں کا پیچیدہ ترین نظریات جنم لیتے گئے اور آج اس موضوع کو ہرخطہ اور مذہب اپنے مخصوص انداز میں تشریحی معنویت دے رہی ہے اور باضابطہ 8 مارچ کو یوم خواتین کے طور پر منایا جاتا ہے ۔
اگرچہ عورت کے حوالے سے متضاد فکر ونظر کے باوجود یہ ایک حقیقت ساری دنیا پر منکشف ہے کہ عورت کا مقام کسی بھی معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہوتا ہے ، کیونکہ بنت حوا اگر نہ ہوتیں تو اس دنیا میں تخلیق انسانیت اور اس کے تسلسل کے جاری رہےکا کوئی جواز نہیں بنتا۔ اس حقیقت کو شواہد اس امر سے بھی ملتے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت کے بعد بی بی حوا کی بھی خلقت کی ضرورت درپیش ہوئی اور نسل آدم علیہ السلام کی افزائش و بڑھوتری ایک عورت یعنی ام حواؑ ہی کے مرہون منت تکمیل پائی۔ حقیقت پسند معاشروں کیلئے عورت کی عظمت کیلئے یہ چشم کشاء حقیقت کا احساس و ادراک ہی کافی ہے کہ یہ عورت ہی ہے جو نو مہینوں کی ازیت ناک صورت حال کے بعد ایک نئی زندگی کو جنم دیتی ہے اور بچے کی پیدائش کے بعد اسے ہرقسم کی سہولت اور بہتر تربیت دینے کی خاطر آلام و مصائب جھیلنے کی راہ میں کوئی کسر نہیں چھوڑتی۔ یہ عورت ہی ہے جو خود بھوکی سو جاتی ہے لیکن اپنے بچے کو کبھی بھوکا نہیں سلاسکتی۔ اللہ تعالی نے عورت کو ایک ایسی قوت برداشت اور جذبہ قربانی عطا کی ہے جس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے خصوصا ماں باپ ، بہن بھائی اور اپنی اولاد کے حوالے سے ، ماں کو مختلف قسم کی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے مگر عورت ایسے تلخ و آزمائشی حالات کا سامنا بڑے ایثار ، جذبے اور بےباکانہ اندازمیں کرتی ہے حتی کہ جان تک سے بھی گزر جاتی ہے۔
تاریخ کے صفحات ایسی بے پناہ کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں اور
مصائب کو برداشت کرنے کی استعداد قدرت نے عورت کو اس حد تک عطا کی ہے کہ وہ خود تو ٹوٹ کے چور چور ہو جاتی ہے لیکن اپنی صبر و رضا ، تحمل مزاجی اور خودارادیت سے درپیش تمام سختیوں کو کبھی دنیا پرعیاں نہیں ہونے دیتیں۔ ان کے اس صبر و استقامت کے خراج ہی کے صدقے معاشروں میں محبت و اپنائیت کے حسین احساسات کی آبیاری ہوتی ہے اور بکھری بکھری سوچ اور فکری رجحانات پر مشتمل انسانیت وحدت و رغبت کے حسین احساس اور بندھن میں بندھ جاتے ہیں . عورت اپنے معاشرتی رول کے حساب سے معاشرتی گاڑی کی اہم اکائی کی حثیت کا حامل ہے اور مرد اور عورت اس معاشرتی گاڑی کے پہیوں کے مانند ہیں اگر اس میں سے عورت کو نکال دیا جائے تو اس معاشرے کی گاڑی کی کوئی حیثیت نہیں باقی نہیں رہتی کہ وہ کسی بھی طور گاڑی کہلائے۔
عورت کے عالمی دن کے مناسبت سے اگر ہم تاریخ کا مختصر سا مطالعہ کریں تو ہمیں تاریخ میں بہت ساری مثالیں اور روایات ملتی ہیں چاہے وہ جنگ کے میدان سے ہو، چاہے وہ امن کے میدان سے ہو، چاہے وہ کربلا کے میدان سے ہو یا چاہے وہ جدید ٹیکنولوجی کے میدان سے ہو ہر جگہ عورت کا بہترین کردار عیاں نظر آتا ہے۔ اور تاریخ چیخ چیخ کر گواہی دیتی ہے کہ عورت کاہمیشہ سے ایک اہم کردار رہا ہے۔ عورت کی اہمیت کے مذہبی پہلو کو مدنظر رکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مذہب اسلام نے عورتوں کو عدیم المثال حقوق دے کر ایک متوازن معاشرتی تشکیل میں دیگر تمام ادیان و مذاہب کے تنگ نظر فلسفے اور دقیانوسی سوچ کو مات دی ہے اور اپنے سنہرے اصولوں کی برتری سب پر آشکار کردیا ہے ۔
ہمارا دین اسلام قرار دیتا ہے کہ جب کسی کے ہاں لڑکی پیدا ہوتی ہے تو اللہ تعالی اسکے ہاں فرشتے بھیجتے ہیں جو آکر کہتے ہیں اے گھر والو! تم پر سلامتی ہو۔ وہ لڑکی کو اپنے پروں کے سائے میں لے لیتے ہیں اور اسکے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہتے ہیں "یہ کمزور جان ہے جو کمزور جان سے پیدا ہوئی ہے جو اس بچی کی نگرانی اور پرورش کرے گا قیامت تک خدا کی مدد اسکے شامل حال رہے گی۔
اسلام کی آفاقی تعلیمات سے یہ ثابت شدہ ہے کہ عورت اپنے روپ اور معاشرتی کردار کے حساب سے اگر بیٹی ہے تو باپ کے لئے رحمت، اگر بیوی ہے تو شوہر کے لئے نصف ایمان کی وارث اور ہاں اگر عورت ماں ہے تو اسکے قدموں تلے جنت بچھی ہوئی ہے ۔ عورت کی منزلت کا اندازہ اس امر سے بھی با آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ سیدنا فاطمہ الزہراہ (رضی اللہ تعالی عنہا ) بطور بیٹی اپنے جلیل المرتبت باپ کے لئے رحمت جو خود رحمت العالمین ہیں، اس شوہر کے لئے نصف ایمان جو خود کامل ایمان ہیں اور اپنے ان بیٹوں کیلئے اپنے قدموں تلے جنت پالے رکھنے والی ماں ، جن بیٹوں کے حوالے قطعی برحق فرمان و منصب کا اعلان ہو چکا ہے حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ سرداران شباب جنت ہیں۔۔!
قارئین کرام ، عورت کا ہر روپ معاشرے میں کلیدی کردار کا حامل ہے کیونکہ کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک ترقی کے راہوں میں گامزن نہیں ہوتا جب تک عورت کا حصہ شامل نہ ہو۔ لہذا آئیں آج کے دن کے مناسبت سےہم اس حقیقت کو محسوس کرتے ہوئے اپنے فکر ونظر میں مناسب وسعت پیدا کریں اور اس بات کو جو ہم مذہبی تعلیمات اور درسی کتابوں میں پڑھتےچلے آئے ہیں کہ” ماں کے قدموں تلے جنت ہے”
” بیٹی اللہ جل شانہ کی رحمت ہے” کو اس کی بنیادی روح سمیت تسلیم کریں اور اسلامی تعلیمیات کی روشنی میں معاشرتی تعمیر و ترقی میں سرگرم عمل گلگت بلتستان کی خواتین کو باوقار انداز میں اپنا جاندار کردار ادا کرنے کیلئے سازگار ماحول فراہم کریں ۔ مجھے امید ہے کہ انشاءاللہ ہم سب مل کر اپنے ملک و قوم کو عالمی افق پر ترقی یافتہ اور ناقابل تسخیر صفوں میں لاکھڑا کرنے میں کامیاب رہیں گے ۔