کالمز

سپریم کورٹ آف پاکستان کا تاریخی فیصلہ اور ھم سب

تحریر۔اشفاق احمد ایڈوکیٹ 

یکم نومبر1947کو گلگت وزارت کے پہلے گورنر برگیڈیئر گھنسارا سنگھ کی گلگت میں گرفتاری کے بعد گلگت بلتستان سے مہاراجہ ریاست جموں و کشمیر  گلاب ہری سنگھ کی حکومت  ھمیشہ کے لئے ختم ہوئی لیکن اسی دوران جموں وکشمیر میں جاری پہلی خونی جنگ نے مسئلہ کشمیر کو جنم دیا جس کے کوکھ سے مسئلہ گلگت بلتستان نے بھی جنم لیا اور نہ ختم ہونے والی ٹریجڈی شروع ھوئی، اقوام متحدہ نے ریاست جموں و کشمیر میں  ایک خونی لکیر کھنچ کر جنگ بندی کروائی لیکن  ساتھ ہی UNCIP کی قراردادوں کے زریعے پوری ریاست جموں و کشمیر بشمول گلگت بلتستان کو متنازع بھی قرار دیا، اور استصواب رائے کو اس کا حل قرار دیا، جو آج تک ممکن نہیں ھوئی البتہ انڈیا کی  مشہور دانشور اروندتی رائے کے بقول انڈین زیر انتظام کشمیر میں اب تک ستر  ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں ھزاروں لاپتہ ہیں سینکڑوں پیلٹ گنوں سے اندھے بنائے گئے ہیں،

یہ تنازعہ جنوبی ایشیاء کے دو ایٹمی ملکوں کے درمیان محض زمین کا تنازعہ نہیں بلکہ اس متنازع ریاست جموں وکشمیر میں ڈھائی کروڑ انسان بھی بستے ہیں جو اس خونی  تنازعہ کی وجہ سے  ایک نہ ختم ہونے والی دردناک ٹریجڈی کا شکار ہیں۔اس لیے بھی گزشتہ ستر سالوں سے گلگت بلتستان کے عوام کی ایک بڑی اکثریت اس بات سے مسلسل انکاری ھے کہ ان کا مسئلہ کشمیر کیساتھ کوئی بھی تعلق نہیں ھے، چونکہ ان کے آباو اجداد نے ڈوگرہ حکومت سے آزادی حاصل کی ھے اس لئے سرکاری سطح پر ہر سال یکم نومبر 1947 کو یوم آزادی گلگت بلتستان کے طور پر منایا جاتا جاتا ھے. اگرچہ اقوام متحدہ کے کسی بھی ممبر ملک نے اس آزادی کو تسلیم نہیں کیا ھے، یہی وہ بنیادی قانونی نقط ھے جس کو جواز بنا کر گلگت سکوٹس کے انگریز کمانڈر میجر الیگزینڈر ولیم بروان نے جنگ آزادی گلگت بلتستان کو  Gilgit Rebellion یعنی بغاوت گلگت کا نام دے دیا جس طرح  تاج برطانیہ نے 1857 کی جنگ آزادی ھند کو بغاوت ھند کا نام دیا تھا۔ جنگ آزادی گلگت بلتستان کو بغاوت گلگت قرار دیکر میجر بروان نے یہ واضح کردیا تھا کہ گلگت بلتستان کا مسئلہ بدستور حل طلب ھے، اسطرح وقتاً فوقتاً حکومت پاکستان ،اقوام متحدہ اور کشمیریوں نے بھی گلگت بلتستان کے لوگوں کو اس تلخ حقیقت سے  روشناس کروایا  کہ گلگت بلتستان ریاست جموں وکشمیر کا حصہ تھا، ھے، اور رھے گا جب تک مسئلہ کشمیر کا بزریعہ استصواب رائے حل نہیں نکلتا۔مگر ھمارے لوگ اس  تلخ حقیقت کو تسلیم نہیں کرسکے چونکہ وہ مہا راجا کشمیر کے دور سے ہی حزب مخالف تھے اور ڈوگرہ حکومت کے خاتمے کے بعد سے ہی ایک خیالی دنیا بسا چکے تھے!  جسے آسانی سے دستبردار ھونا ممکن نہیں تھا چونکہ تاریخی جبر اور ناانصافیوں کا گہرا احساس ان کے شعور کا حصہ ھے !اس طرح کی خیالی دنیا سے قوموں کو  تاریخی جبر یا کوئی حادثہ ھی  باہر نکل آنے پر مجبور کر دیتا ھے۔گکت بلتستان کے لوگوں کی اکثریت کو حالیہ برسوں تک نہ تو مسئلہ کشمیر کا مکمل علم تھا نہ ھی مسئلہ گلگث بلتستان کا جس نے مسلہ کشمیر کے کوکھ سے جنم لیا تھا ،اور ستر سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود بھی ھم سیاسی بلوغت کی عمر میں پہنچے سے انکاری تھے. مگر حالات کے جبر نے تقاضہ کیا کہ اس بات  کو ایک بار طے کیا جائے اور ستر سالوں سے موجود اس سیاسی و قانونی غلط فہمی کو ختم کیا جائے۔

اس طرح بالاآخر  71سال 17دنوں کے بعد مورخہ سترہ جنوری 2019بروز جمعرات  تاریخ  کے کوکھ سے اس تاریخی سچ نے سپریم  کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اور دیگر چھ رکنی بینچ کے قلم سے جنم لیا اور عدالت نے گلگت بلتستان میں پائی جانے والی اس  غلط فہمی کو ختم کر کے اس پر عدالتی مہر ثبت کردیا، اور فیصلہ کیا گیا کہ جس مسئلہ کشمیر  نے اکتر سال قبل جنم لیا تھا اور بہت سال پہلے ھی بلوغت کی عمر طے کر لیا تھا اس مسلئے سے جڑے گلگت بلتستان کے لوگوں کو بتایا جائے کہ وہ اس غم کو خوشی کے ساتھ تسلیم کرے کہ وہ ریاست جموں وکشمیر کا بدستور حصہ ہیں،! سپریم کورٹ آف پاکستان کے اس تاریخی فیصلے نے  نہ صرف خیالی دنیا میں تاش کے پتوں سے بنائے گئے محلات کو زمین پر گرایا، بلکہ آئینی صوبہ اور اس کے سوتیلے بھائی عبوری صوبے کی خواہش میں مارے مارے پھرنے والے دوستوں کی راسخ العقیدگی پر بھی سوال کھڑا کیا اور قوم کے سامنے جوابدہ بنایا ۔آج گلگت بلتستان کے جوشیلے نوجوانوں کی اکثریت فیس بک اور سوشل میڈیا پر ایک ستاے ھوے مظلوم کی طرح غصّہ نکال رھے ہیں کیونکہ ان کو اس بات پر غصّہ ھے کہ گزشتہ ستر سالوں سے امید کی ہر کرن پیدا ھوتے ھی تاریکی میں کیوں ڈوب جاتی ھے؟وجہ یہ ھے کہ ایک طویل عرصے تک ھم بحثیت قوم سیاسی بصیرت و سیاسی شعور سے  محروم تھے اور ھماری امید آج بھی غیر حقیقت پسندانہ ھے اور سچ تو یہ ہے کہ دنیا ھماری غیر حقیقی خواھشات کے تابع نہیں ھے بلکہ ازل سے ہی دنیا میں حقیقت پسندی کا راج ھے۔زمانہ بدل گیا ہے اور وقت کا تقاضا ہے کہ اب خیالی دنیا سے باہر نکل آئیں اور دنیا کی تلخ حقیقتوں کا سامنا کریں چونکہ دنیا ھماری خواھشات اور قصہ کہانیوں پر نہیں چلتی ھے بلکہ دنیا  بین الاقوامی قوانین پر  چلتی ھے،اور قانون سے بالاتر کوئی نہیں ھوتا ھے, قدیم زمانے میں رائج جنگل کے قانون کا دور گزرے ھوئے صدیاں بیت چکی ہیں لیکن اگر کوئی قوم کوہ قراقرم، کوہ ہمالیہ اور کوہ ہندوکش کے بلند ترین پہاڑوں کے درمیان لمبی تان لگا کر سو چکی ھے تو اس میں کسی کا کیا قصور؟اگر کسی کو  اقوام عالم کے درمیان دنیا بھر میں رائج بین الاقوامی قوانین کا علم نہیں ھے تو اس میں کسی کا کیا قصور ھے؟اگر کوئی قوم ستر سالوں سے مسلسل ایک خیالی دنیا میں جیتی رھی ھے تو کسی کا اس میں کیا قصور؟بات یہ ھے کہ اگر ھم اپنی طویل اور تلخ ماضی کی طرح اب بھی  چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کے اس تاریخی فیصلہ کو پڑھے بغیر  اپنی غیر حقیقی خواہشات کی بنیاد پر یہ مطالبہ کریں کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے دنیا بھر میں رائج  بین الاقوامی قوانین کو پس پشت ڈال  کر گلگت بلتستان کے لوگوں کو پاکستان کا پانچواں کچا پکا صوبہ کیوں نہیں بنایا ؟ تو اس سوال کا پہلا سادہ سا جواب یہ ھے کہ صوبے بنانے کا اختیار چیف جسٹس کے پاس نہیں ھے۔البتہ اس سوال کا قانونی جواز سپریم کورٹ آف پاکستان نے گلگت بلتستان کے آئینی حیثیت اور حقوق سے متعلق زیر سماعت مختلف مقدمات کو ملا کر اپنے اس تاریخی فیصلہ کے پیراگراف نمبر 13میں دیا ھے جس میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے واضح طور پر  لکھا گیا ہے کہAs noted, Pakistan has responsibilities in relation to two regions , AJK and Gilgit Baltistan.                                                           In 1948 UNCIP recognized the establishment of local authorities (as distinct from the government of Pakistan) for the territories.We are of course have concerned with Gilgit Baltistan alone .The region has not been Incorporated in Pakistan as it is considered to be part of the disputed state of Jammu & Kashmir.However it has always remained completely under Pakistan,s administrative control.سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے اس فیصلے کی بنیاد UNCIP کے قراردادوں پر رکھا گیا ھے جن کے مطابق گلگت بلتستان کو تیرہ اگست 1948کو ھی اقوام متحدہ نے  متنازع ریاست جموں و کشمیر کا حصہ قرار دیا گیا تھا، البتہ  اکہتر سال بعد  سپریم کورٹ آف پاکستان نے اپنے اس فیصلے میں گلگت بلتستان کی اس متنازع حیثیت پر  صرف اپنا مہر ثبت کرکے دنیا کو ایک واضح پیغام دیا ھے کہ ریاست پاکستان مسئلہ کشمیر پر ایک واضح موقف رکھتی ھے جس کے تحت اس نے مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی متعدد  قراردادوں پر عملدرآمد کے لئے دستخط کئے تھے۔ یہ الگ بات ھے کہ اس تاریخی فیصلہ کے بعد گلگت بلتستان کے سیاسی فضا میں مکمل سکوت چھایا ہوا ھے جبکہ چند افراد دریائے سندھ کے مشرق اور مغرب والی کہانی ایک بار پھر قوم کو سنانے کی سعی لاحاصل کر رھے ھیں  لیکن بہت ھی کمزور دلیل کساتھ جبکہ مزے اور حیرت کی بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے طوطے مینا کی اس کہانی کو کسی نے بیان کرنے کی جرات نہیں کی۔اسلیے عقل کا تقاضا یہ ھے کہ آج کے اس نالج سوسائٹی میں طوطے اور مینا کی کہا نیون میں الجھنے سے قبل  حضرت علی علیہ السلام کے اس تاریخی جملے پر غور کر کے سبق سیکھنے کی ضرورت ھے ،کہ” جہالت کا کوئی علاج نہیں.” There is no remedy to ignorance.اس لیے اب وقت کا تقاضا ھے کہ ھمیں بحیثیت ایک پڑھی لکھی قوم کی طرح جناب چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔جس نے اکتر سالوں سے کوہ ہمالیہ، کوہ قراقرم اور کوہ ہندوکش کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں کے درمیان لمبی تان لگا کر سوئی ھوئی اس قوم کو نہ صرف گہری نیند سے جگا کر عین انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے میں کلیدی کردا کیا ھے، بلکہ میں تو کہونگا کہ یہ تاریخی فیصلہ گلگت بلتستان کی قوم میں مجموعی طور پر موجود ستر سالہ False Consciousnessکو بھی ختم کرنے کا  باعث بنے گا. البتہ اس تاریخی فیصلہ پر میں صرف اتنا تنقید ضرور کرونگا کہ بہت اچھا فیصلہ کیا مہربان نے جاتے جاتے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button