جنرل عنایت حسین۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قابل تقلید حوالہ”
یہ ایک حقیقت ہے کہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں میں بے پناہ ٹاأیلنٹ ہے ضرورت صرف درست رستہ اور مواقعوں کی فراہمی ہے ۔
کئی عشروں سے گلگت بلتستان کے نوجوانوں نے ملک کے طول و عرض میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہو”ے زندگی کے میدانوں میں فتح کے پرچم گاڑ دیئے ہیں ۔ ضلع استور کی وادی سے نکلنے والے ہدایت الرحمن نے پاک ملٹری کی آخری رینک پانے میں اسلئے کامیاب ہو”ے تھے کہ انہوں نے سہاروں کی بجاأے اپنا رستہ خود اپنی صلاحیتوں سے بنانے کا عزم کیا تھا۔
بلتستان ڈویژن کے علاقے شگر’ گانچھے اور کھرمنگ سے شہید اشرف نور’ جی ایم سکندر’ محمد حسین’ افضل شگری اور ہنزہ کے شاہد اللہ بیگ پاکستان کی بیوروکریسی اور پولیس میں ترقی کے آخری سرحدوں کو چھونے میں اسلئے کامیاب ہو”ے کہ وہ محرومی کے درس کو سننے کی بجاے اپنی پوٹینشل پر اعتماد کرتے تھے۔ یہ اعتماد انہیں ملک کے بڑے بڑے شعبوں میں اعلی مناصب پر فائز کرانے تک ساتھ رہا۔
ملک کے ساتھ محبت اور بہادری کا سب سے معتبر حوالہ حوالدار لالک جان ہو یا دنیا کی بلند ترین چوٹی پر ملک کا پرچم لہرا کر سر فخر سے بلند کرنے والے نذیر صابر اور ثمینہ بیگ ہو۔ سدپارہ کے حسن سدپارہ ہو یا علی سدپارہ جن کے جذبوں’ جراتوں اور صلاحیتوں کے گواہ کرگل ‘ ہمالہ اور قراقرم کے پہاڑ ہیں۔ نانگا پربت کی جاں لیوا پہاڑ’کے ٹو کے خوفناک بلندیاں اور ماونٹ ایورسٹ کی رفعتیں آج بھی گلگت بلتستان کے جوانوں کے صلاحیتوں اور دلیری کے امین ہیں۔
گزشتہ سے پیوستہ کامیابیوں اور کامرانیوں کا یہ سفر تا حال جاری ہے اور ہنزہ کے علاقہ گنش سے تعلق رکھنے والے ملنسار’ باوقار’ خوبرو اور اپنی صلاحیتوں کا بااعتماد ساتھی بریگیڈیئر عنایت حسین ترقی پا کر میجر جنرل بن گئے ہیں۔کرنل (ر)ہادی کے گھر میں جنم لینے والے عنایت حسین گلگت بلتستان کی تاریخ کا دوسرا انفینٹری میجر جنرل ہیں۔ عنایت حسین کے خاندان کا پاکستان سے عشق کی حد تک وابستگی ہے ۔ اس خاندان کے کئی اور فوجی افسر ملک کی دفاعی سرحدوں کے پاسدار ہیں۔
عنایت حسین گلگت بلتستان کیلئے ایک حوصلہ افزا حوالہ ہیں اور گلگت بلتستان کی نوجوان نسل کیلئے قابل تقلید کامیاب شخصیت بھی۔ موصوف ایک پروفیشنل’ دلیر اور ملک سے محبت سے سرشار شخصیت ہیں۔ اس میں دو راأے نہیں کہ گلگت بلتستان کا چپہ چپہ ہزاروں ہدایت الرحمن’ جنرل نجم خان’ شاہد اللہ بیگ’ جی ایم سکندر اور افضل شگری سے بھرا پڑا ہے لیکن گزشتہ کئی دہاأیوں سے یہاں کی نوجوان نسل کیلئے پلیٹ فارم نہیں ملی ہے اور نہ درست رستہ فراہم کرنے والا رہنما ملا ہے جس وجہ سے مقامی آبادی ایک وقت تک مسلک’ علاقائیت اور لسانی بکھیڑوں میں تقسیم رہی۔ اس کا نقصان یہ ہوا کہ ہمارے اختلافات نفرتوں میں تقسیم ہو گئے اور جس کی کوکھ سے بدامنی نے جنم لی اور علاقہ ایک عشرے تک انسانیت کیلئے نو گو بنتا رہا۔ مسلکی فسادات کے باطن سے انتقام کا رویہ پیدا ہوا اور یہ انتقام ہزاروں بے گناہوں کی جان لے گیا۔ حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے سے گلگت بلتستان کی عوام میں مثبت شعور بڑی تیزی سے بڑھ رہاہے اور لوگ اب ایک دوسروں کا احترام کرتے ہیں علاقے میں سو فیصد امن قاأم ہوا ہے جبکہ دوسری طرف ایک مایوس طبقہ ایسا بھی ہے جو زندگی کا مثبت رخ دیکھنے سے گریزاں ہے اور جان بوجھ کر نوجوانوں میں محرومی بانٹ رہے ہیں حالانکہ گلگت بلتستان کے نوجوانوں کا پوٹینشل کسی طور متنازعہ نہیں ہے ۔جنرل عنایت حسین جب میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پا گئے تو ان کی ترقی میں متنازعہ حیثیت رکاوٹ نہیں بنی اور نہ ہی گلگت بلتستان کی باشندگی آگے بڑھنے میں آڑے آئی۔
جنرل عنایت حسین جیسی شخصیات پاکستان کا اثاثہ ہیں اور گلگت بلتستان کا روشن حوالہ بھی اسلئے خطے کے نوجوانوں کو چاہئے کہ وہ ایمان داری اور صبر کے ساتھ جہد مسلسل کو اپنی زندگی کا منشور بناأیں اور آگے بڑھیں کیونکہ اس ملک کا ہر ادارہ آپ کی صلاحیتوں کا منتظر ہے۔