کالمز

روزے کے معاشرتی پہلو

تحریر: امیرجان حقانی

ہمارے معاشرے میں عبادات کے حوالے سے ایک خاص فضاء قائم ہے جس کی وجہ سے عبادات کا تصور کافی محدود ہوکررہ گیا ہے بلکہ جنت اور حصول ثواب تک اس کو محدود کیا گیا ہے جبکہ حقیقتا ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔اسلام آفاقی دین ہے جس میں آخرت کی بھلائی کیساتھ دنیا کی بھلائی کا لازمی ذکر کیا گیا ہے۔ یہی دعا آپ ﷺ نے سکھلائی ہے۔ اسلامی عبادات میں کوئی بھی عبادت ایسی نہیں جس میں اُخروی زندگی کیساتھ ُدنیوی زندگی کا کوئی نہ کوئی تعلق نہ ہو۔ اخروی بھلائی کیساتھ ہر عبادت میں معاشرتی پہلو ضرور شامل ہوتا ہے بلکہ اسلام نے اُخروی کامیانی کے لیے معاشرتی اور سماجی بھلائیوں کومشروط کرکے رکھ دیا ہے۔اللہ تعالیٰ نے جب روزے فرض کیے تو اس کے اصل مقاصد کے حوالے سے ارشاد فرمایا ”لعلکم تتقون“ تاکہ تم متقی ہوجاو۔روزوں کی غایت و مقصد ہی سماجی بہتری اور معاشرتی بھلائی کیساتھ مشروط ہوگئی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”من لم یدع قول الزور والعمل بہ، فلیس للہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ و شرابہ“اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور دغابازی کرنا نہ چھوڑے، اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے(بخاری، حدیث نمبر ۳۰۹۱)

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ نے صالحین کے روزوں کے متعلق فرمایا کہ”نظر بد سے بچنا،غلط سماعتوں سے خود کو روکنا،ایذا رسانی سے دور رہنا،زبان کو ہذلیات سے پاک رکھنا اور دیگر شبہات و ناجائز امور سے بچنا ہے ہی اصل روزہ ہے۔(احیاٗ علوم الدین)۔یہی ساری چیزیں معاشرے سے متعلق ہیں۔

یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ رمضان المبارک کا روزے بے شمار فوائد پر مبنی ہیں۔یہ فوائد معاشرتی، سماجی، معاشی، اخلاقی اور سیاسی حکمتوں پر مشتمل ہیں۔جن معاشرتی پہلووں کا ذکر روزے کیساتھ لازم ہوگیا ہے ان کا مختصرذکر کیا جاتا ہے۔اور یہی اصل تقویٰ اور پرہیز گاری کی بنیادیں ہیں۔پہلی بات خلوص اور ایمانداری ہے۔

یعنی اپنے عزیز و اقارب اور رشتہ داروں اور عام انسانوں کیساتھ تعلقات کی بنیاد خلوص اور ایمانداری پر مشتمل ہو، اور منافقت و منافرت سے اجتناب ہو،معاملات زندگی اور کاروبار حیات خلوص اور ایمانداری سے انجام دینا ہی تقویٰ کہلاتا ہے۔دوسری بات اجتماعی ارادے و عزائم کی مضبوطی سے منسلک ہے۔روزے کا ایک معاشرتی فائدہ اجتماعی ارادے کی مضبوطی ہے۔جو انسان پندرہ سے بیس گھنٹے کھانے پینے اور دیگر نفسیاتی خواہشات پر کنٹرول کرسکتا ہے وہ ملک و معاشرے کی اجتماعی مفاد کی خاطر اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال سکتا ہے اور اجتماعی مصلحتوں کی خاطر سختیاں برداشت کرسکتا ہے۔ روزے سے ادارہ اور عزم میں مضبوطی آجاتی ہے۔جس کی وجہ سے صبر جیسا اہم مادہ انسان میں پیدا ہوجاتا ہے اور اس کی وجہ سے حرام اور ناجائز لذتوں سے آسانی سے پرہیز کیا جاسکتا ہے۔تیسری بات اہم بات فقراء اور مساکین کی مدد کا جذبہ پیدا ہونا ہے۔ روزے کا ایک سماجی پہلو یہ بھی ہے کہ اس ماہ میں فقراء اور مساکین اور محتاج لوگوں کی مدد کا جذبہ پیدا ہوجاتا ہے اور اہل ثروت دل کھول کر غریبوں اور محتاجوں کی مدد کرتے ہیں۔اور خیر کے کاموں میں اللہ کا دیا ہوا مال صرف کرتے ہیں۔اسی سے اچھے معاشرے کی تشکیل ہوجاتی ہے۔

جو انسان رمضان کے تمام دنیاوی اور اخروی احکام و مصالح کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے روزوں کا اہتمام کرتا ہے وہ درحقیقت مومن کامل ہوتا ہے۔خدا شناس ہوتا ہے اور حقیقی معنوں میں آزاد انسان ہوتا ہے۔یہی وہ آزادی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مومن کامل غیرالہی قوتوں سے دور بھاگتا ہے۔برے افعال و اعمال سے اور ناپسندیدہ عادات سے اجتناب کرتا ہے۔ذات الہی پر اعتماد و یقین کرنے اور خلوص دل سے اس کی بندگی کرتا ہے اور زمینی خداوں سے ہر قسم کا قطع تعلق کرلیتا ہے۔یہی روزہ دار معاشرے کے اندر پائی جانے والی غلط خصلتوں بالخصوص خود فریبی، حب شہرت،مال طلبی، نفرت، حسد، ضد کینہ بغض اور عداوت جیسی قبیح اور معاشرتی برائیوں سے بچ جاتا ہے۔ان سے بچنا ہی ایک بہترین معاشرے کی تشکیل کا سبب بنتا ہے۔

بلاشبہ رمضان المبارک میں ایک کامل مسلمان میں مخلوق خدا سے محبت، ان کی مدد،صبر و تحمل، بھائی چارے کی کوشش، مذہبی ہم آہنگی،امن و آمان کے لیے کوشاں، رزق حلال کی تلاش،غصے کو پی جانا، بڑوں کا احترام کرنا اور چھوٹوں پر رحم کرنے جیسے عظیم صفات پیدا ہوجاتی ہیں۔یہی تمام چیزیں روزوں کے اصل نتائج اور مقاصد ہیں اور ان سب کا تعلق صرف آخرت کیساتھ نہیں بلکہ ۹۹ فیصد کا تعلق اسی معاشرے سے ہی ہے۔اوریہی معاشرہ ہی آخرت کی کھیتی ہے۔

جو شخص حالت روزہ میں معاشرتی برائیوں سے نہیں بچتا اور روزہ رکھ کر بھی کذب بیانی، سب و شتم، رشوت خوری،ذخیرہ اندوزی، فراڈ،چوری، زنا اور غریبوں کا حق مارنا، ظلم و ستم کا بازار گرم کرنے جیسے اعمال قبیحہ انجام دیتا اور عادات رذیلہ سے بچنے کیوشش نہیں کرتا،اس کے حوالے آپ ﷺ کا واضح ارشاد ہے کہ ”کم من صائم لیس لہ من صیامہ الا الظماء“ یعنی ایسے روزہ داروں کے لیے اللہ کے ہاں کچھ نہیں وہ صرف اور صرف بھوک اور پیاس سے اپنے آپ کو تکلیف پہنچارہے ہیں۔

رمضان المبارک میں شیاطین کو قید کرلیا جاتا ہے اس لیے انسانی معاشرے میں جرائم میں خاطر خواہ کمی آجاتی ہے اور اس کے مقابلے میں تہذیب نفوس،تزکیہ اخلاق اور مخلوق الہیٰ سے محبت و خدمت اور بھلائی و حسنہ کے کاموں میں بہتری آجاتی ہے۔اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں رمضان المبارک کی برکات سمیٹنے کی توفیق دے۔ وماعلینا الا البلاغ

یہ تحریر ریڈیوپاکستان کے 2019کی رمضان ٹرانسمیشن کے لیے خصوصی لکھی گئی ہے اور ریکارڈ کروائی گئی ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button