کالمز

گلگت چترال اور اندرون شہر سڑکوں کی پختگی مبارک!

مبارک ہو!گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت کو اقتدار کے آخری برس میں داخل ہوتے ہی صوبائی دارالخلافہ کی حالت زار میں بہتری لانے کا خیال آگیا۔ اخباری اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ گلگت بلتستان حافظ حفیظ الرحمن نے محکمہ تعمیرات عامہ کو گلگت شہر کی خستہ حال اور کھنڈرنما سڑکوں کی ری کارپیٹنگ کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ سڑکوں کا یہ مرمتی کام بھی صوبائی حکومت کے دیگر اقدامات کی طرح عالمی معیار کا ہوگا جس کی علاقے کی سترسالہ تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملے گی۔ تاہم خبرمیں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی تھی کہ اس اہم منصوبے میں شہرکی کون کو نسی سڑکیں شامل ہیں اور وہ کونسے خوش قسمت لوگ ہونگے جنھیں ان خستہ حال سڑکوں پر جھٹکے کھانے کے عذاب سے نجات ملے گی۔

گلگت شہرجوکہ وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کا انتخابی حلقہ بھی ہے، میں متعدد سڑکیں واقع ہیں اور ان سب کی حالت اس وقت انتہائی دگرگوں ہے۔ چاہے وہ مرکزی شاہراہیں ہوں یا لنک روڈز۔ کوئی ایسی سڑک نظر نہیں آتی کہ جس پر دومنٹ بھی آرام وسکون کے ساتھ سفرکیا جاسکے۔ باب گلگت سے شہر میں داخل ہوکرمرکزی شاہراہ پر سفر کرکے بازار جانے والاکوئی اندھا بہرہ بھی باآسانی اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہاں پر واقعتا تاریخی کام ہورہے ہیں۔خاص طورپر اگرکسی نے عید کے دنوں میں پبلک چوک جوٹیال کے مقام پر مرکزی شاہراہ پر بارش کا پانی سوکھانے کی غرض سے حکومتی کاریگری دیکھی ہوتو وہ حکومتی تاریخی اقدامات پر عش عش کئے بغیر کیسے رہ سکتا ہے۔

مرکزی شاہراہ کی طرح ذوالفقارآباد سے نیچے کی جانب واقع نوید شہید روڈ، اپرجوٹیال سے بازار کی جانب جانے والا ریاض روڈ،ڈی سی آفس سے اسپتال کی جانب جانے والی سڑک، یادگار چوک سے نگرل کی جانب واقع روڈسب کے سب مسافروں کے لئے موت کے کنویں بنے ہوئے ہیں۔ باقی جوٹیال کے مختلف گلی محلوں میں واقع لنک روڈز کی تو بات ہی کچھ اور ہے۔ ان سڑکوں کی خستہ حالی کے سبب عوام کو درپیش مشکلات کا اندازہ تو وہی کے رہائشی ہی بہتر لگا سکتے ہیں۔ حکمرانوں کا کیا ہے کروڑوں روپے کی پرتعاش گارٰیوں میں پہاڑی سے بھی گزرجائے تو کوئی اثر نہیں پڑتا۔

صوبائی حکومت کے ابتدائی ایام میں وزیراعلیٰ کی جانب سے عوامی مسائل کی نشاندہی اور حکومتی پالیسوں سے متعلق اگاہی کی غرض سے صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ گاہے بگاہے بیٹھک میں ’ملا کی دوڑ مسجد تک‘ کے مصداق ناچیز کی ترجیحی سوالات جوٹیال کے عوامی مسائل اور گلگت غذر روڑ کا ہی محور بنے رہتے تھے۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ سی ایم آفس کی طرف سے کسی نشست میں شرکت کی دعوت ملی نہ ہم نے بن بلائے مہمان بن شاہی دربار میں حاضری دینے کی زحمت اٹھائی۔ چنانچہ دل میں چھپائے ان سوالات کوحسرت بھری داستان کی مانند وقتاً فوقتاً قلم کے ذریعے حکام بلا تک پہنچانے کی ناکام کوششوں پر ہی اکتفا کیا۔

بلآخر عید کے ایام میں سی ایم صاحب کی جانب سے دونوں خواہشات کی تکیل سے متعلق مثبت خبریں سن کرخاصا اطمینان ہوا۔ ان میں بھی گلگت شہرکی سڑکوں کی مرمت پر چار کروڑ روپے فی کلومیٹر کے حساب سے لگنے والی لاگت کا سن کریقین پختہ ہوا کہ واقعتا اس بار کوئی تاریخی کام ہونے جارہا ہے۔ گلگت چترال روڈکی تعمیر سے متعلق خبرتو میرے لئے کم ازکم کوئی نئی بات نہیں تھی۔ جس طرح اوپر کے سطور میں عرض کیا گیا ہے کہ وزیراعلیٰ صاحب کے ساتھ ماضی میں رہنے والی ہرنشست میں اس روڈ پر گفت وشنید ہوتی رہتی۔ سی ایم صاحب گلگت غذر روڑ کی مرمت کے لئے کبھی صوبائی حکومت کے فنڈ سے رقم مختص کرنے کا کہتے، کبھی اسے پی ایس ڈی پی میں شامل کرنے کی یقین دہانی کراتے۔ایک زمانے میں گاہکوچ کے قریب گرنجر نامی گاؤں کے سامنے ایک ادھ کلومیٹر سمپل روڑ بناکر افتتاح بھی کیا گیا پھرپورے چار سال تک یہ منصوبہ حکام بالا کی نظروں سے اوجھل رہا۔

ایک مرتبہ چائنہ میں سی پیک کی جے سی سی اجلاس میں شرکت سے واپسی پرسی ایم صاحب نے گلگت چترال روڈسمیت متعدد منصوبوں کو سی پیک میں شامل کرانے کا دعویٰ کرتے ہوئے میٹنگ مینٹس بھی تھمادیئے تو کامل یقین ہوا کہ اب کے بار توکوئی سیاسی اعلان نہیں ہوگا کیونکہ اس میں حکومت چین کا تذکرہ ہے۔ مگر تین سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود گلگت چترال روڈسمیت سی پیک کے متعلقہ جے سی سی اجلاس کی میٹنگ مینٹس میں درج شدہ کسی بھی منصوبے پر عملی کام کا آغاز نہ ہوسکا۔

چنانچہ یہ امید بھی دم توڑ گئی تھی کہ اسی اثناء سی ایم صاحب نے عید سے محض چند روز قبل وفاقی سطح پرمنعقدہ قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس میں گلگت چترال ایکسپرس وے کی تعمیر کے لئے سترہ ارب کی خطیررقم منظور کروانے کی نوید سنا کرعلاقے کی ترقی کا آرزومند بنا دیا۔ اب اس منصوبے پر عملی کام کا آغاز ہوتے ہوئے مزید کتنا عرصہ لگے گا اس بارے میں کچھ کہنا تو قبل ازوقت ہی ہے مگر تب تک توپاکستان مسلم لیگ نواز کی صوبائی حکومت کا سورج بھی غروب ہوچکا ہوگا اور پھرہم کسی نئی حکومت کو کوستے رہ جائیں گے۔

گلگت غذر روڈ یا گلگت چترال ایکسپریس وے اور جوٹیال کے لنک روڈز کی پختگی کے بارے میں میری پریشانی کے وجوہات اور حاکیم وقت سے اس حوالے سے گلے شکوے کا مقصد کوئی ذاتی مفاد کا حصول نہیں بلکہ اس کے پیچھے عوامی مفادکارفرما ہے۔ سڑکوں کی خستہ حالی کے سبب پیدا ہونے والے عوامی مسائل کا ادراک انہی لوگوں کو ہوتا ہے جنھیں کسی حادثے کا ایمرجنسی کی صورتحال کا سامنا ہو۔ ایسے میں کسی زخمی یا بیمار کو اسپتال لے جانے میں جلدی ہوتب صاف ستھری اور پختہ سڑکوں کی اہمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے کہ کھنڈرنما سڑکیں اور سفری مشکلات کس قدر کسی انسان کے لئے تکالیف اور پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ان مسائل کا سامنا کسی فرد واحد کا مقدر نہیں بلکہ غذر جیسے پسماندہ علاقے کے عوام کے ساتھ یہ روز کا معمول ہے اور مواصلاتی نظام کی بہتری عوامی کی ایک اجتماعی ضرورت ہے۔ ایسی صورتحال میں ایک مخلص اور عوام دوست حکمران کو ہی ان مسائل کے حل کا خیال آجاتا ہے۔

کاش وزیراعلیٰ صاحب کو بھی غذر کے عوام کو درپیش اس اہم اجتماعی مسئلے کا احساس ہوتا تو وہ اولین فرصت میں گلگت غذر روڈکے کئی سال قبل سیلاب سے تباہ شدہ حصوں پر پیچ ورک کروانے کے احکام صادرفرماکر عوام کے دل جیت لیتے، جس کے لئے کسی اربوں لاگت کے منصوبے کی بجائے صوبائی حکومت کے منٹیننس بجٹ سے ہی کچھ رقم درکار تھی۔بہرحال دیرآید درست آید کے مصداق وزیراعلیٰ صاحب کو بلآخر گلگت چترا ل ایکسپریس وے اور صوبائی دارالخلافہ کی سڑکوں کی مرمت سوجھی بھی ہے تو یہ ایک خوش آئنداقدام ہے۔

یہ اقدام چاہے اپوزیشن کی حکومتی کارکردگی پر تنقید کا اثر ہو یا عوامی محرومیوں کا تدارک یا پھرآئندہ انتخابات کے لئے قبل ازوقت حکمت عملی،فیصلہ مگر علاقے کی تعمیروترقی اورعوامی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ گزارش صرف یہی ہے کہ شہرکی مرکزی سڑکوں کی عالمی معیار کے مطابق ری کارپیٹنگ کے ساتھ ساتھ لنک روڈز کی خستہ حالی پر بھی نظرکرم فرمایا جائے تو عین نوازش ہوگی بھلے یہ کام عالمی معیار کا نہ سہی مقامی روایتی انداز میں ہی کروایا جائے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button