صفت بہادر بروشے اور محی الدین خوشوقتے
کرنل شمبر گ تانگیر اور داریل پر حکومت کرنے کے خواہشمند راجوں اور گشپوروں (شہزادوں)کی مہمات ایک د وسرے کے خلاف سازشوں اورگٹھ جوڑ اور تانگیر اور داریل کے لوگوں کی سازش اور بے وفائی کاذکر کرتے ہوے راجہ صفت بہادر اور راجہ محی الدین کی مہم جوئی، ایک دوسرے کے خلاف اندھاسازش کا ذکر کچھ یوں کرتے ہیں۔ صفت بہادر مقامی لوگ اسے (صفت بخدور) کہتے تھے جو کہ عسےٰ بہادر یا بخدور کا بیٹا تھا اور بروشے تھا، جب کہ محی الدین المعروف چق مہتر پہلوان بہادر یا بخدور کا بیٹا تھا اس سے بڑ ا شاہ رحیم المعروف مجی غشٹی (منجلا) اوت سب سے بڑا شاہ اعبدالرحمان جس کو یاسین میں بعد از مرگ وفات منم کہا جاتا ہے جو ایک درویش صفت آدمی تھا، ” مشہور لکھاری اور ماہر تاریخ ڈاکٹر فیض امان کا کہنا ہے کہ محی الدین المعروف چق مہتر کی شادی ہنزہ کی کسی شہزادی سے ہو ئی تھی جس سے وہ بہت پیار کرتے تھے اس کی بیوی ایک بہت خوب صورت خاتون کے ساتھ اُس میں کچھ مردانہ خاصیتیں بھی تھی مثلاََ وہ ایک بہادر خاتون تھی، وہ ایک ماہر نشانہ باز تھی وہ موسیقی کی دلدادہ تھی ستار بھی بجاتی تھی اور ایک مشہور پیراک (تیرائی) میں بھی ماہر تھی۔ اس کی نشانہ بازی کا اندازہ اس بات سے لگائے کہ محی الدین کا باز سایورج شکار کے بعد چنا کے درخت پر جا کر بیٹھا لیکن اس کے پاؤں ک تسمہ جس کو کہا جاتا ہے چنات کی کسی ٹہنی میں پھنس گیا تو اس کو آزاد کر نے کے لئے اس خاتون نے بائیس بور بندوق سے فارئر کر کے اس تسمے کو کاٹا جس سے باز لٹک گیا تھا، کہتے ہیں کہ چق مہتر کا اپنی بیوی سے اتنا پیار تھا کہ اس کی موت کے بعد وہ اسے نو دن تک دفنانے کی اجازت نہیں دیا آخر کا عالموں اور برادری والوں نے بہت مشکل سے ان کو قائل کیا اور ان کو دفنایا گیا لیکن اس کے بعد وہ کچھ ذہنی طور پر متاثر بھی ہوگیو تھا اور جب تانگیر گیا تو اس کے عزیز و اقارب نے اسے روکا تھالیکن وہ دویوانے کی طرح اسرار کر کے چلا گیا اور مارا گیا جاتے وقت بھی وہ ان تین چیزوں کو وہ ساتھ لے کر گیا جو ہمیشہ ساتھ رکھتا تھا ایک بندوق جس کو شونر کہا جاتا ہے شاید یہ تھری ناٹ تھری ہے دوسرا ستار اور تیسر گلاب کا پھول وہ ہر وقت ساتھ رکھتا تھا وللہ عالم بالصواب“
صرف ایک آدمی جو اُس خالی تخت کو حاصل کر نے کے نزدیک پہنچا جو راجہ پختون ولی کے مرنے کے بعد خالی ہو گیا تھا، وہ بروش خاندان کا راجہ صفت بہادر تھاجو کہ پونیال کے موجودہ راجہ انور خان کا چچاتھا، اسے یاسین کی گورنری سونپا گیا تھا،اگر چہ اُس نے اِس مخصوص آسامی کے لئے کوئی مطالبہ نہیں کیا تھا۔ جب کہ حکومت کو پورا اختیار حاصل تھا کہ کسی کو بھی مقرر کرے۔
ان پہاڑی سرداروں کے ساتھ معاملات کرتے وقت یہ مناسب ہے کہ ان جاگیرداروں (فیوڈل لارڈ) کے تعصبات کاا عتراف کرتے ہوے، یعنی ان کی مخصوص حق پر ڈٹے رہنے کو مانا جائے اور مبہم دعوے کو غیر متنازہ مراعات کا موقع نہ دیا جائے۔
خوشوقتیہ اور بروشے ایک ایسی بے سکون نسل ہے جو کہ بعض اوقات نہایت باہمت اور قابل اور بعض اوقات ظالم اور سست اور تنگ نظر لیکن عام طور پر غیر مطمین۔ وہ سازش اور عیاری میں نطاق تھے اور عام طور پر اپنی لالچ کی وجہ سے بے وقت اختتام پزیر ہوتے تھے اُن کی پوری تاریخ ان کی یہ کردار ہے، نو یا دس سال اُس زرخیز سرزمین اور یاسین کے خوش مزاج اور نرم لوگوں پر حکومت کر نے کے بعد صفت بہادر ایک لالچی آنکھ سے تانگیر اور داریل پر نظر رکھتا تھا اور اس نے ایک ہلاکت کو اپنے گھر میں بلایا،
گھنے جنگل اور ایک بڑی رقم جو کہ لکڑی کے تاجر اداکرتے تھے اُس کے لئے ایک کشش رکھتی تھی وہ یہ جانتا تھا کہ اگر اُ س نے اِس علاقے کو فتح کیا تو صرف اُ س نے ٹھیکہ داروں کو ایجازت دینا ہوگا کہ وہ جنگل کاٹے بس پیسے اُس کے خزانے کو بغیر مزید کسی کوشش کے بھر دے گا، جو ایک پہاڑی سردار رقم بٹورنے کے لئے آسانی سے کر سکتاتھا،اُس نے اِس حریص ملک میں اپنا ایک حمائتی گروپ بنانے کے لئے ساز باز شروع کیا،اب یہ ایک سادہ سا معاملہ تھا کہ اِس غیر قانونی ملک میں ہمیشہ دو مخالف پارٹیاں تھیں جب ایک گروپ کمزور ہو تا تھا تو وہ کسی ہمسائے ملک کے حکمران کے ساتھ گٹھ جوڑ اِس اُمید پر شروع کرتا کہ اگر وہ یہاں کا حکمران بن گیا تو وہ اُس حکمران کی مدد سے اپنے خاندانی دشمنوں کے خلاف طاقت ور ہوں گے اور طاقت کاتوازن برا بر ہوگا۔ جب صفت بہادر نے خیال کیا کہ سب کچھ ایک نیا ملک حاصل کرنے کے لئے تیار ہے۔
گلگت کے پولٹیکل ایجنٹ نے اُ س کو کہلا بھیجا کہ بے وقوفی مت کرو، اُس نے اسے تنبیح کیا کہ اگر وہ تانگیر جاتا ہے تو بہتر ہے جائے لیکن وہ یاسین کا حکمران نہیں رہے گا۔ اگر وہ باؤنڈری سے واپس آیا تو زیادہ دیر نہ ہو گا لیکن اگر ایک د فعہ باؤنڈری پار کیا تو پھر وہ کبھی واپس نہیں آسکے گا، اسے اپنے ملک میں آنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ وہ یاسین اور تانگیر میں سے کسی ایک کو اختیار کرے۔ یہ ایک بہترین مشورہ تھا،یہ مشورہ ایک د وست کی حثیت سے تھی نہ کہ روز مرہ کی معمولات کے مطابق۔ اسے تنبیح کیا گیا کہ اگر اس کا مہم ناکام ہوا تو اُمید نہ رکھنا کہ حکومت اُسکیکوئی مددکر ے گی اُس وقت صفت بہادر چوالیس یا پنتالیس سال کا ایک سرخ چہرے والا جسیم آدمی تھا اور جلدی سے غصہ کرنے والا، ضدی اور خود سر اور سرخ و سفید اور مضبوط، لیکن عام طور پر ایک بہترین آدمی تھا۔ صفت بہادر بہر حال اکیلا نہیں تھا جو تانگیر پر حملے کا سوچتا تھا، محی الدین پہلوان مہتر ایک خوشوقتیہ شہزادہ جو فی لحال دائن اشکومن میں رہتا تھا جو کے یاسین اور غذر کے موجودہ حکمران کا بھائی تھا، اس کی بھی نظر یں ان زرخیز اور جنگلا ت سے اٹا پٹا علاقوں پر جمی ہوئیں تھیں۔ اب ایک مہم جو کی رحم و کر م پر تانگیر کے سازشیوں نے ان کے ساتھ بھی ساز باز شروع کیا،حقیقت میں وہ ایک تخت کو حاصل کرنے کے لئے ایک امید وار کو دوسر ے کے ساتھ لڑانا چاہتے تھے دغا بازی اُن کو بہت اچھی لگتی تھی۔
چنانچہ ان سازشیوں نے دونوں محی الدین اور صفت بہادر کو بلایا تو ایک نے جب ایک وادی سے تانگیر کی طرف جانا شروع کیا تو دوسرے نے دوسری وادی سے اس کا پیچھا کیا اور ایک ہی وقت میں وہ فوجی چال سے ایک دوسرے کو قتل کرنے جا رہے تھے صفت بہادر اب بھی بہت سے سازیشیوں کی طرح حکومت سے مدد حاصل کر نے کی اُمید رکھتے تھے جب کہ اُس کو ایک سفارت کار کی حثیت سے ٹالنے کی تجویز دیا گیا تھا،وہ گلگت گیا اور کمانڈر انچیف کو لالچ دینے کی غرض سے جو دورے پر گلگت آیا ہواتھا، جس نے صاف انکار کیا۔چنانچہ وہ جلدی میں روانہ ہوا کہ وہ اپنے مد مقابل کو قتل کر وائے گا اگرچہ وہ جانتا تھا کہ وہ اکیلا ہے اُ س کی پو زیشن بھی نازک ہے، حقیقت میں اس نے مہم جوئی کو نظر انداز کیا تھا۔ دونوں آدمی کامی گاؤں میں تھے یعنی قلعے میں، دونوں اپنے اپنے مدد گاروں کے ساتھ تھے۔ صفت بہادر نے ارادہ کیا کہ وہ جگلوٹ جا کر پختون ولی کے قلعے کو دوبارہ تعمیر کرے گا اور پھر اپنے مخالف کو مار ڈالے گا، دوسری جانب محی الدین نے قلعہ بنانے کے بجائے صفت بہادر کو قتل کرنے کے لئے وہ بھی جگلوٹ گیا۔ یہ صفت بہادر تھا جس نے پہل کیا اور اپنے دشمن کے مکان کو گیرے میں لیا جب کہ وہ سب سو رہے تھے، انھوں نے بہت سارا گھاس کے بیچ میں رکھ کر ایک بم کو بلاسٹ کیا اور بم نے کام کر دکھایا اور گھاس کو آگ لگ گئی اور اُس گھر کے لوگ جاگ گئے گھاس کو آگ لگی اور پورے علاقے کو روشن کیا، صفت بہادر اُس مکان کے چھت پر چڑھ گیا، محی الدین نے اپنے بندوق سے تین چار فائر گھر کے اندر سے کیا لیکن وہ صفت بہادر کو مار نہ سکا اور وہ باہر کی طرف دوڑ پڑا، لیکن صفت بہادر کے آدمی نے اُس پر فائر کیا گولی اس کے منہ میں لگ کر گردن سے پار ہوا اور وہ بری طرح زخمی ہو کر زمین پر گر پڑا، اُس کے تانگیری نوکر ہزل نے صفت بہادر کو پکارا کہ اس کا مالک یعنی محی الدین مر گیا ہے، اس لئے باقی لوگوں کو مارنے کی ضرورت نہیں ہے، لہٰذا سب کو مکان کے اندر سے ہتھیا ر ڈالنے کو کہا گیا سب نے ہتھیار پھینکا، لیکن محی الدین مرا نہیں تھا وہ ایک چار پائی پر لیٹا تھا اور دوسرے دن مر گیا تو اسے پختون ولی کے ساتھ قبرستان میں دفن کیا گیا اور اس کے حمایتیوں کو چلاس بھیج دیا گیا۔
جب صفت بہادر اپنے نئے بادشاہت کو فتح کر نے گیا تو اُس نے اپنے خوفیہ مدد گار شتی داریلی کو ساتھ رکھا تھا، جس نے اپنے علاقےمیں بہت سے قتل کرنے کے بعد یاسین جاکر پناہ لیاتھا، اس کی ڈیوٹی ایک مارٹینی بندوق کو لوڈ کر کے اپنے مالک کے پیچھے کھڑے ہو نا تھا،اُس کے دشمنوں نے اس کے ساتھ صلح کیا، اُسے اپنے مالک کو قتل کرنے پر امادہ کیا اور انھوں نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ اُسے اپنے مقتولوں کا خون معاف کریں گے، ایک دن صفت بہادر بیٹھ کر جگلوٹ قلعے کی تعمیر ی کا م کی نگرانی کر رہا تھا اس کا بھتیجا فقیر ولی ایک منیچر رائفل کےساتھ اس کے پیچھے تھا اور اس گاؤں کے ایک مکان میں صفت بہادر کا اٹھارہ سالہ خوبرو اور جوان بیٹا، امیر حیدر تھا اُس کا ایک با عتماد تانگیری نوکر فقیر ولی کے نزدیک ہی تھا۔ فقیر ولی آہستہ آہستہ اونگنے لگا اور جونہی وہ سو گیا اُ س کاباعتماد نوکر آہستہ سے اور احتیات سے اس کے نزدیک گیا اور اس کے رائفل کے سیفٹی کو چڑھا کر ٹریگر کو لاک کیا اور پھراس نے شیتی کو اشارہ کیا اس نے ایک دم صفت بہادر کے گردن میں گولی ماری،اور وہ مر گیا، فقیر ولی جونہی جاگ گیا تو اس کے پیچھے کھڑے تانگیری نے اس کے چچا کے تلوار سے اس کے سر پر وار کیا،فقیرولی ایک طاقتورجوان تھا اچھی ساخت تھی اور پھرتیلا،باتدبیر جوان تھا اس نے اپنا بندوق پکڑا اور چلانے کی کوشش کی لیکن قدرتی طور پر کامیاب نہ ہو سکا، اُس کے نوکر نے اس کے سر پر ایک اور وار کیا،وہ اُس کے نزدیک تھا، لیکن بھاگنے کی امید نہیں تھی جیسا کہ دوسرے تانگیریو ں نے اُسے گیرا اور ماردیا۔
ایک تانگیری جلدی سے گاؤں گیا اور صفت بہادر کے بیٹے کو بتایا کہ کیا ہوا ہے اور اُسے بھاگنے کا مشورہ دیا، یہ کوئی انسانیت نہیں تھی نہ ہی تابیداری کہ اس کو گھر سے نکال دیا جائے، جب کہ وہ ہتھیار سے لیس تھا وہ تانگیری خود بھی اُسے گھر میں رکھ کر حفاظت نہیں کر نا چاہتا تھا اور نہ ہی کھلے فضاء میں اُس نے اس کی مدد کی، جہاں مواقع بہت کم تھے، وہ غریب لڑکا باہر کی طرف دوڑ پڑا اور چھپنے کی کوشش کی، لیکن تانگیریوں نے پہلے اس کی ٹانگوں میں گولی مار دی جب وہ گر گیا تو جان سے مار دیا، اگر وہ اُس گھر میں بند ہو کر کچھ اپنی دفاع کرتا توممکن تھا کہ اس کے حمایتی شاید اس کی مدد کو پہنچتے اور اس کو با حفاظت بھاگنے میں مدد دیتے،لیکن ایک ایسا ملک جہاں دو پارٹیاں ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہوں ایسے میں موقع کم ملتا ہے۔
چنانچہ صفت بہادر نے کبھی داریل اور تانگیر پر حکومت نہ کر سکا اور نہ ہی وہ کسی پر حکم چلا سکا،وہ قتل کیاگیا اور اب بھی پختو ن ولی وہ واحد حکمران ہے جس نے داریل اور تانگیر پر حکومت کیا، جہاں تک شیتی کا تعلق ہے اُس کو اشکومن کے میر بائض خان کے بھانجے سید خسرو نے کیفر کردار تک پہنچایا۔باوجود ،ان واقعات کے، پختون ولی کی سلطنت اور صفت بہادر کی ناکام کوشش کے، ان علاقوں کی قتل و غارت گیری اور خون ریزی ختم نہ ہونے والی کہانیاں ہیں۔ ایسی برائی کہ کوئی گھر ایسا نہیں کہ جو کہ خاندانی دشمنی اور قتل یا قاتل کے بغیر ہو، اور زندگی نا قابل برداشت ہے۔
تا حال یا اب بھی ان وادیوں میں قراقرم کے حکمران گھرانوں کو ان علاقوں مین دل کشی نظر آتی ہے اور پولیٹیکل ایجنٹ بعض گشپور یعنی شہزادوں کو قسمت آزمائی کے لئے ان علاقوں میں جانے کی اجازت دیتے ہیں، بے شک اگر کوئی گور نمنٹ کی ایما پر چلاجاتاہے تو اس کےلئے راستہ کھلاہے اس سے قبل مہم جو قتل کئے گئے چونکہ تانگیر اور داریل کے لوگ جانتے ہیں کہ ان کے پیچھے کوئی نہیں وہ صرف احمق قزاق یا راہزن ہیں لوٹ مار اور طاقت حاصل کرنا ہے اور ان کی کامیابی ملک کو کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔تانگیر اور داریل آزاد تھے اور وہاں کے باشندے نہیں چاہتے کہ کوئی طالم آ مریا کوئی نااہل خود پرست ان پر حکومت کرے اور ان کو کچل دے۔
اب وہ بالکل تیار ہیں حقیقت میں بے قرار یا جلدی میں ہیں کہ حکومت انڈیا کا مقرر کردہ کوئی ان پر حکومت کرے،ان کے لئے قتل ہوکر مرنا
ایک بیماری ہے۔ ایک دفعہ کسی قابل منتظم کی نگرانی میں ان کو خاندانی دشمنی اور قتل و غارت سے آزادی ملے اور ان کو ایک باقاعدہ انتظام کے ذریعے فائدہ پہنچایاجائے۔
صفت بہادر کے وقت میں لگاتار قاصد چلاس بھیج کر اس بات کی تصدیق کی جاتی تھی کہ آیا اس راجہ کو حکومت کی حمایت حاصل ہے یا مدد حاصل ہے۔اگر اس کے پاس یہ مدد حاصل ہو تا تووہ اس وقت وہاں کا حکمران ہوتا۔ اس کے باوجود وہ اس کا بیٹا اور بھتیجا، کامی میں راجہ پختون ولی کے ساتھ ساتھ ان نو قبروں میں سے تین میں مدفون ہیں جنھوں نے داریل اور تانگیر کو تسخیر کر نے کی مہم میں حصہ لیا۔
موجودہ دنوں میں یہ دونوں علاقے گلگت کے مختلف ضلعوں کے لئے مصیبت بنے ہوے ہیں ۔قبائل کے بنائے ہوے راستوں سے وہ اکثر اوقات جگہ لینے کے لئے قتل کرتے ہیں، مال مویشی چرا کر لے جاتے ہیں اور مسافروں کو لوٹ لیتے ہیں، حکومت قبائلیوں کو جرمانہ کرتی ہے اور اس وقت تک ان کو بند رکھتی ہے جب تک وہ جرمانے کی رقم ادا نہیں کرتے۔ یہ غیر تسلی بخش ہے جب تک ان دونوں علاقوں کو حکومت کے زیر کنٹرول نہ لایا جائے تو کچھ نہیں ہوسکتا۔جیساکہ بتایا گیا ہے کہ وہ لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت ان کو کنٹرول میں لائے اور اسیلئے وہ گاہے بگاہے حکومت کے لئے مسائل پیدا کرتے ہیں تاکہ حکومت کارروائی کرے اور ان کو حکومت کے زیر کنٹرول لائے۔
یہ ایک دلچسپ صورت حال ہے کہ کتنے نقاد ہمارے حکومت کی تحقیر کرتے ہیں، یاسین کے بوڑھے حکمران اور دوسرے سردار تو اس موضوع پر زیادہ زوردیتے تھے۔ یہ سب کچھ عیاں کیاگیاہے کہ قبضہ تمام متعلقہ لوگوں کے لئے منافع بخش ہونا چاہئے۔ جنگلا ت سے حاصل ہو نے ولا لگان یا مالیہ اسکے علاوہ حکومت کے لئے ایک منافع بخش ذریعہ ہے۔ آخرکا ر وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ سرکا رکی طرف سے ا یک چھٹی لکھی جائے کہ یہ ان دونوں علاقوں پر حکومت کرے گا۔ مولوی شاید نہ چاہیں، لیکن عام لوگوں کو جب ایک دفعہ بتایا جائے کہ ہ گلگت ایجنسی کا حصہ ہونے جا رہے ہیں اور ان کو فائدہ دیا جائے گا تو یہ بہتر ہو گا۔ اور و ہ کوئی مسلہ نہیں ہو گا۔ ایک تھکاماندہ اور ایک ناممکن حالات کا اس سے بہتر حل نہیں ہو سکتا ۔