ڈاک کا صیحپتہ
بے شک ہم انسان چاند سے آگے مریخ تک کو بھی مسخر کر چکے ہیں لیکن اس خالق کائینات کی منشا اور اس کے آگے ہم سرکشوں کی کیا اوقات ہے ۔ابھی تین دن پہلے ہی قدرت نے کشمیر میں زلزلہ کی صورت میں جنجھوڑا تو ہمیں اپنی اوقات یاد آئی تھی لیکن افسوس یہ کہ ہم نادان لوگ ان باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔جو بھی اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہے یا کہلواتا ہے اسے چاہئے کہ دو چیزیں کبھی نہ بھولے ایک اللہ کا در اور دوسرا اللہ کا ڈر۔جب یہ دو چیزیں کسی مسلمان کے پاس ہونگی تو اللہ کےدر سے رحمتوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ خود بخود اس پر کھل جاتا ہے۔
کیا کبھی ہم نے یہ سوچا ہے کہ ہم اس دنیا میں گھر کیوں تعمیر کرتے ہیں؟جی گھر ہمیں احساس تحفظ دلاتا ہے ۔یہاں پر جب ہم آرام کر رہے ہوتے ہیں تو ایک سکون ہمارے اندر گھر کر جاتا ہے ۔ جس کے پاس اپنا گھر ہو وہ کسی کا مختاج نہیں ہوتا ۔اپنی عزت اپنے سکون اور معاشرے میں اچھا مقام پانے کے لئے ہم اپنے اس گھر کو قرینے سے سجاتے ہیں اور اس میں ہر وہ چیز رکھ دیتے ہیں جو ہمارے وقار اور شخصیت کو اجاگر کرے ۔گویا ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے اس گھر میں مکمل آزادی ہے ۔ہم اپنے اس گھر میں کسی قانون و ضابطے کے پابند نہیں ۔جو چاہئیں کھائیں اور جو چاہئیں پئیں اور جو چاہئیں اسے پہنیں دوسرے لفظوں میں ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ گھر اپنا سکون سے زندگی گزارنے کی ایک جگہ ہے۔
اب یہاں سوال یہ ہے کہ دنیا میں ہم نے جس گھر کو بنایا اور اسے قرینے سے سجایا اور اس میں ہر وہ چیز بھی لا کر رکھ دیا جو ہمیں سکون مہیا کرنے کا سبب بنتی ہیں تو پھر ہمیں اس گھر کی فکر نہیں کرنی چاہئے جسے ہم سب اپنا دائمی گھر سمجھتے ہیں ۔اور ہم سب کی آخری منزل بھی ہے جس کی سواری کے لئے ہم یہ سارا تگ و دو کر رہے ہیں اور اسی منزل اور مقام کا نام قبر ہے ۔کون ذی روح ہوگی جو اس مقام سے انکاری ہو ۔کسی کو انکار ہو ہی نہین سکتا اس لئے کہ اس دائمی گھر کے لئے ہم سب کو موت کے مرحلے سے گزرنا ہے ۔جب انکار بھی نہیں اور یہ ایک اٹل حقیقت بھی ہے تو کیا ہمیں دنیاوی گھر کے ساتھ ساتھ اس دائمی گھر کو بنانے اور اور سنوارنے اور سجانے کی طرف توجہ دینی چاہئے کہ نہیں ؟کوئی بھی مسلمان اس کا جواب نفی میں نہیں دے سکتا ۔
جب جواب نفی میں ہے تو اس سے آگے سوال یہ ہے کہ ہمیں اس دائمی گھر کو سجانے اور بنانے کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہے؟ اس طرف دھیان دینے کی ضرورت ہے ۔اور اللہ کا ارشاد ہے کہ اس کی دی ہوئی حلال چیزوں سے فائدہ اٹھائو اور حد سے تجاویز نہ کرو ۔اللہ اور اس کے رسول نے دنیاوی چیزوں سے فائدہ اٹھانے کے لئے منع نہیں فرمایا ہے ۔ بس دنیا کے ساتھ اللہ اور اس کے احکامات کی پیروی لازمی ہے اور اللہ کے احکامات بنی نوع انسانیت کی بھلائی کے لئے ہیں۔اور اللہ سب کو بھلائی کرنے اور اچھے اعمال کرنے کا حکم دیتا ہے اور پھر اس کے بدلے بے شمار انعامات کا وعدہ بھی کرتا ہے ۔ان اعمال میں ایک عمل یہ بھی ہے کہ انسان یا مسلمان اپنی موت کو کثرت سے یاد کرے قبور کی زیارت کرے کیونکہ اس سے انسان کا دل نرم ہو جاتا ہے اور جس کا دل نرم ہو وہی دوسرے انسان کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہے ۔یہی نہیں کہ صرف نرم گوشہ رکھتا ہو بلکہ اس انسان کے اندر عاجزی بھی آتی ہے اور عاجزی اللہ کو بہت پسند ہے ۔اور جب انسان کے اندر عاجزی کا عنصر آجاتا ہے تو پھر دنیا کی یہ آسائشیں اس کا کچھ نہیں بگار سکتی ہیں۔ وہ ہر وقت اپنے آخری گھر کو یاد کرتے ہوئے نیک اعمال میں مبتلا رہتا ہے اور برائیوں سے پرہیز کرتا ہے۔
یہی تیاری کرنی ہے ہم سب نے اپنے اصلی گھر کو سجانے کے لئے اور اسے بنانے کے لئے جہاں ہم دنیا سے تھک ہار کر چاہئے وہ بادشاہ ہو یا گدا سب نے یہی بسنا ہے اور یہی ہمارا صحیح ڈاک کا پتہ ہے اور اس دنیا میں جس نے اپنے دائمی گھر کا صحیح پتہ یعنی اچھے اعمال لکھ دیا اسی کو اللہ کی طرف سے صحیح پتے پرانعامات اورآسائشوں کے پارسل بروقت اور ہردم ملتے رہینگے اللہ ہمارے ساتھ رحم والا معاملہ فرمائے ۔آمین