کالمز

آپ خارجی مطالعہ کیسے کریں

تحریر: امیرجان حقانی

عمرعزیز کی مکمل گیارہ بہاریں دروان طالب علمی کی، مدارس اسلامیہ میں گزری ہیں۔ آپ سے بہت کچھ شیئر کرنے کو جی چارہا ہے مگر کچھ باتیں خارجی مطالعہ اوربیرونی پڑھائی کے حوالے سے پیش خدمت ہیں۔یہ باتیں اور تجربات دراصل دینی مدارس وجامعات کے مبتدی طلبہ و طالبات کے لیے ہیں مگر استفادہ عامہ بھی ممکن ہے.
مدارس و جامعات اور اسکول و کالجز کے طلبہ کیساتھ یہ تجربات اس لیے شیئر کررہا ہوں کہ شاید کسی طالب علم ساتھی کو اپنا خارجی (اضافی) وقت مثبت انداز میں غیر رسمی تعلیمی ایکٹیویٹیز میں استعمال کرنے کا طریقہ آجائے، اگر ایسا ہوا تو بہت خوب۔مجھے بھی دعا دیجے اگر آپ کو ان تجربات سے کچھ رہنمائی ملے تو.تو سنیں! دسمبر 1999 میں گوہرآباد ہائی اسکول سے مڈل پاس کرنے کے ساتھ  ہی حفظ قرآن کے لیے کراچی سدھار گیا۔ 2000 سے حفظ قرآن شروع کیا ، اس دور میں ہفت روزہ ضرب مومن کا عروج تھا، شاید 2000 سے 2003 تک ضرب مومن کو بلاناغہ پڑھا، اور تمام پرچے جمع بھی کیے جو آج تک محفوظ ہیں۔اس کے علاوہ عصر اور جمعہ و تعطیلات کے ایام میں حکیم اختر ؒ اور عاشق الہی ؒ کے کتابچے بھی خوب پڑھا۔ جب اٹھارہ پارے مکمل ہوئے تو کراچی بورڈ سے نویں کا داخلہ کروایا، معمول یہ تھا کہ رات گیارہ بجے سے ایک بجے تک نویں کی کتابیں بالخصوص اردو ، سوکس اور مطالعہ پاکستان کا مطالعہ کرتا، ساتھ ساتھ نسیم حجازی کے ناول بھی چلتے۔اخبار پڑھنے کا معمول حفظ کے دور سے ہی تھا. عیدین کی چھٹیوں میں بلانا غہ لیاقت انٹرنیشنل لائبیریری جاتا اور انگلش ریڈنگ اور گرائمر سیکھتا۔نویں دسویں کی انگلش کی تیاری کے لیے میں شام عشاء کے بعد رات گیارہ بجے تک اپنے ایک مہاجر کلاس فیلو (حفظ) فیضان کی بہن سے انگلش پڑھنا شروع کیا۔وہ کراچی یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھی.
ہم دونوں پڑھ رہے تھے، اس کی والدہ بھی اسکول ٹیچر تھی۔چار ماہ مسلسل ان کے گھر میں انگلش گرائمر پڑھا، مدرسے میں عشاء کے بعد کھانا لگتا لیکن میں پڑھنے کے لیے مدرسے سے دو میل دور پیدل اس کے گھر جاتا اور ایگ گھنٹہ پڑھائی کے بعد واپسی ہوتی مدرسہ.
یقین جانیں ، مسلسل چار ماہ رات کی کھانا نہیں کھایا۔ہوٹل سے کھانے کا بھی انتظام نہیں تھا،کبھی کبھار میرا کوئی کزن مطعم سےایک روٹی اچک لیتا اورجیب میں رکھ کر لاتا،تو اسی پر گزارہ ہوتا۔
2005ء کو جامعہ فاروقیہ میں درجہ ثانیہ میں داخلہ لیا۔جامعہ فاروقیہ ٹائم منیجمنٹ کے حوالے سے انتہائی کمال رکھتا ہے۔بارہ بجے کا مطلب بارہ بجے ہی ہے۔پورے بارہ بجے دوپہر کا کھانا لگتا، بارہ پندرہ تک میں کھانے اور واش روم سے فارغ ہوکر اپنے کمرے میں بستر پر پہنچتا اور فیکس ایک بجے تک کسی اردو کتاب کا مطالعہ کرتا بستر پر لیٹے لیٹے۔
یہ معمول دو سال مسلسل چلتا رہا، پہلی فرصت میں عباسی صاحب کی تمام اردو کتب پڑھ ڈالی اور بہت ساری کتابیں۔ ابوالحسن علی ندوی صاحب ؒ کی کتابوں کا معتد بہ حصہ بھی انہی دنوں پڑھ لیا تھا.
جامعہ فاروقیہ میں مسلسل سات سال تعلیم حاصل کیا، جمعرات کو کبھی بھی کہیں نہیں گیا۔جمعرات کو ہفت روزہ ضرب مومن اور القلم  اخبارات  خریدتا اور تمام مضامین بلاناغہ پڑھ لیتا، رات عشاء سے صبح کی آذان تک  کا وقت یہی دو اخبارات اور کسی ادبی کتاب کے ساتھ گزارتا،میں نے بہت ساری عربی و اردو کی ادبی کتابیں خریدی.
ڈائجسٹوں میں بنات عائشہ،حیا ڈائجسٹ اور اردو ڈائجسٹ مسلسل جبکہ بعض دیگر خال خال، بچوں کا اسلام،خواتین کا اسلام بھی کمال ہوتے، اس کے علاوہ سنڈے میگزینوں سے بھی خوب استفادہ کیا۔
عام طورپرسال بھر  نماز فجر کے بعد صبح سات بجے تک سوتا، سات سے لے کر اٹھ بجے تک بلاناغہ سات سال اخبار پڑھتا رہا علاوالدین کی چائے خانے میں، روزنامہ امت ، اسلام، ایکسپریس اور جنگ کے تمام کالم پڑھتا رہتا. سیلانی، جاوید چوھدری، ہارون الرشید، عرفان صدیقی، ڈاکٹر صفدر محمود، عطاء الحق قاسمی، زاہدالراشدی، اعجاز منگی، رعایت اللہ فاروقی، مفتی ابولبابہ، قاری منصور، اسلم شیخ پوری، ابن الحسن عباسی اور یاسر حمد خان فاروقیہ کے سات سال مسلسل پڑھتا رہا. شاید کھبی ان کا کالم چھٹ گیا ہو مجھ سے. ان کے علاوہ بھی بہت ساری تحریریں پڑھ لیتا جو اہم ہوں.
ظہر کے بعد بھی کلاس شروع ہونے سے پہلے چائے کے دوران کم از کم  روز تین کالم ضرور پڑھ لیتا۔
درجہ خامسہ میں استاد ابن الحسن عباسی کی نگرانی میں کئی اردو کتابوں کا مطالعہ کیا، استاد جی نے سب سے پہلے سید سلیمان ندوی ؒ کی یاد رفتگاں مطالعہ کروائی تھی(یہ مطالعہ رات گیارہ بجے کے بعداور جمعرات کو چلتا)، پانچ دن میں اس کتاب کو بالاستیعاب پڑھ کر استاد جی سے شیئر کرنے لگا تو وہ اس کے مباحث پر ایسے بحث کررہے تھے جیسے آج ہی پڑھ ڈالا ہو، معلوم کیا تو کہنے لگے کہ کافی سال پہلے مطالعہ کیا ہے۔عجیب ذہانت پائی ہے۔
پھر ایک طویل عرصہ(غالبا مسلسل سات ماہ) رات گیارہ بجے سے ایک بجے تک استاد حبیب زکریا سے عربی تحریرسیکھی، الناشین کے تین جز مکمل استاد جی سے سبقا سبقا پڑھے۔اور ہرتمرین کو خود لکھا اور استادجی نے تصحیح و درستگی کیا۔یہ سب چیزیں میری کلاس کی کتابوں کے علاوہ تھا.
جب ثانیہ میں داخلہ لیا تو میں ایف اے پارٹ ٹو کا طالب علم تھا، اسی سال ایگزام دیا، پھر فاروقیہ میں ہی دوران تعلیم کراچی یونیورسٹی سے بی اے ،کراچی یونیورسٹی سے ہی ایم اے پولٹیکل سائنس اور جامعہ اردو کراچی ریگولر ماس کمیونیکیشن میں ماسٹر کیا. میں پاکستانی مدارس وجامعات کا پہلا طالب علم ہوں جس نے سابعہ اور دورہ حدیث کے سال ہی ماس کمیونیکیشن میں ریگولر ماسٹر کیا. یونیورسٹی میں اٹنڈینس کا بڑا مسئلہ تھا. مدارس کی سالانہ تعطیلات میں گھر نہیں آتا. عیدین کی چھٹیاں اور جامعہ کی ششماہی امتحان کی دس چھٹیاں اور ہر جمعہ ریگولر یونیورسٹی جاتا اور درمیان میں کھبی کھبار چھٹی بھی لیتا. اس سارے عمل میں فاروقیہ کے نظام میں ارینج کرنا بہت مشکل تھا لیکن کسی طرح یونیورسٹی میں ارینج کرتا رہا. بہت ساری مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑا.
دونوں ایم اے کا سلیبس اور تمام متعلقہ کتابیں پڑھ ڈالی۔یاد رہے ثانیہ سے لے کر سادسہ تک میں نے فاروقیہ میں ایک دن بھی چھٹی نہیں کی، بیماری کے علاوہ۔یعنی موسٹ ریگولر اسٹوڈنٹ رہا.
سادسہ کے اواخر سے کافی چھٹیاں ہوتی رہی۔پھر اخبار میں لکھنا ہوتا، اور رسائل میں بھی لکھتا تھا، اس لیے خارجی مطالعہ کرتا رہتا۔جب بھی کوئی کالم لکھتا تو احباب اور اساتذہ کی حوصلہ افزائی سے مزید لکھنے کی تحریک پیدا ہوتی اور اچھا لکھنے کے لیے مزید اچھا پڑھنا پڑتا اور سلیبس سے ہٹ کا بہت سارا پڑھ لیتا، مدارس و جامعات کو سلیبس کے سوا مطالعہ کو خارجی مطالعہ کہا جاتا ہے.
جامعہ فاروقیہ کے دارالتصنیف اور لائبریری میں درجنوں رسائل آتے، ان کے مضامین بھی پڑھا کرتا۔کچھ رسائل اور مضامین تو عباسی صاحب اور حبیب زکریا صاحب خصوصی پڑھواتے۔
خیراس زمانے میں مجھے عجیب شوق تھا، کسی بھی کتاب ، رسالہ، اخبار، یا سائن بورڈ پر کوئی بھی لفظ ، ترکیب، تعبیر ومحاورہ یا اچھا سا جملہ (اردو، انگلش، عربی) میں پڑھتا اور سمجھ نہ آتا  یا اچھا لگتا تو،وہی لفظ یا محاورہ  یا پورا جملہ فورا ً جیب میں رکھی چھوٹی ڈائری میں نوٹ کرتا ، پھر ایک کاپی تھی اس میں نوٹ کرتا، اور لغت سے اس کے معنی و مطلب سمجھتا اور اس بڑی کاپی میں بھی لکھتا اور جیبی ڈائری میں بھی، اور راستے میں چلتے چلتے یہی الفاظ و محاورے رٹے لگاتا رہتا۔کسی دوست کو رٹے ہوئے الفاظ سنا ڈالتا۔اس کاپی کے چند صفحات کی امیج بھی دیکھ سکتے ہیں.یہ کاپی آج تک محفوظ ہے میرے پاس۔ایک ہی صفحے پر کئ قلم چل چکے ہیں کیونکہ مختلف اوقات میں لکھتا اور قلم کوئی اور رنگ کا ہوتا۔
میں گیارہ سال میں صرف دو دفعہ سالانہ چھٹیوں میں گھر آیا، ورنہ میں کراچی میں ہی رہا کرتا، سالانہ تین ماہ کی چھٹیوں میں انگلش سیکھتا، کمپوٹر سیکھتا اور لیاقت لائبیریری میں جاتا،لیاقت لائیبریری کے ساتھ میری حسین یادیں وابستہ ہیں۔بلاشبہ میری محسن لائیبریری ہے۔وہاں نمازیں بھی پڑھاتا جب جاتا، نواب اکبر بگٹی کا غائبانہ نماز جنازہ بھی پڑھایا تھا، خوشی سے نہیں ڈرتے ہوئے، کالے کالے بلوچوں کی ایک ٹیم لائیبریری کے اسٹڈی ھال میں آئی اور کہا مولوی صاحب جنازہ پڑھاو، پھر پڑھالیا تھا.
عصر کے بعد تین سال کمپوٹر کے مختلف کورسز کیے، چار دفعہ کراچی کے مختلف  لینگویج سینٹرز میں تین تین ماہ (سالانہ تعطیلات میں)  انگلش سیکھا،کچھ لوگوں سے عیدین کی تعطیلات میں بھی سلیبس کی انگلش پڑھتا رہا۔یہ باتیں تو دوہ حدیث تک کی تھی، اس کے بعد اور اچھی نوکری کے بعد بھی درس نظامی اور کالج سلیبس سے ہٹ کر بہت سارے فنون سیکھنے کا سلسلہ جاری ہے. وہ پھر کبھی آپ سے شئیر کیے دیتا ہوں.
اس جمع ضرب کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ بھی درس نظامی کے ساتھ ساتھ انگلش، اردو، عربی  اور کمپوٹرسیکھنا چاہتے ہیں اور خارجی مطالعہ کرنا چاہتے ہیں اور پرائیویٹ امتحانات دینا چاہتے ہیں، یونیورسٹی اٹنڈ کرنا چاہتے ہیں  تو یقینا آسانی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔عصر کے بعد ، بقر عید کی تعطیلات اور سالانہ چھٹیوں کا ٹائم بھی آپ کو ان امور کے لیے بہترین ثابت ہوسکتا ہے۔۔بس تھوڑی ہمت کیجیے گا. اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button