کالمز

یاسین کی سیاست

 پاکستا ن میں ہر کام انوکھا ہے جیسا کہ ملک پاکستان ہی انوکھا ہے،  قدرت  نے اِس ملک کو کیا کچھ نہیں دیا  کہیں سرسبز و شاداب میدان ہیں تو کہیں پر سر سبز و شاداب  چیڑ اور دیودار کے درختوں سے بھرے ہوے پہاڑ،  کہیں لق ودق صحرا اور ریگزار  اور بڑے بڑے ریت کے ٹیلے تو کہیں سنگلاخ اور چٹیل پہاڑ،موسم بہار، موسم گرما، موسم خزاں اور موسم سرما،  چاروں موسمیں  الگ الگ خوب صورتی لیئے اور ہر موسم کا اپنا مزہ ہے، اسی طرح یہاں کے لوگ بھی انوکھے ہیں ان میں  سندھی، پنجابی، بلوچی، پشتون، غرزیک، گلگتی،  بلتی، چیلاسی چترالی، اتنی تکثیریت اور خوبصورتی شاید ہی دنیا میں کہیں ملے

  لیکن یہاں کے لوگوں کا انوکھا پن سب سے زیادہ یہ ہے کہ یہاں کی سیاست بھی انوکھی ہے چونکہ بعض ایسے سیاست دان بھی ہیں جن کی سیاست بھی عجیب و غریب ہے وہ صرف اور صرف تنخواہ کے لئے سیاست کرتے ہیں مثلاََ مولانا فضل الرحمان جو شروع دن سے ہر حکومت میں شامل رہا ہے چاہے وہ فوجی حکومت ہوں یا کسی سیاسی پارٹی کی لیکن جب دوسری حکومت آئی تو  یہ حضرت دوسری حکومت میں شامل ہو کر اپنے سابقہ محسنوں کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتا ہے اسی طرح شیر پاؤ صاحب ہیں جو ایک ہی سیٹ لے کر آتا ہے اور حکومت جس کی ہو اس کی دربار میں حاضری دیتا ہے اسی لئے مولانا ، عمران خان کے خلاف ہیں کہ عمران خان نے ان کو کوئی عہدہ تو دور کی بات ہے اپنی حکومت کا حصہ بھی بنانے سے انکار کیا اور مولانا کبھی موسم بہار کی آمد پر کچھ کر نے کی دھمکی دیتے ہیں کبھی رمضان کے گذرنے کے بعد کی، پیچھلے دنوں مدرسے کے طلباء کو لے کر کئی دن تک ایچ نائن میں برجمان رہنے کے بعد کچھ بے چاروں کی جانی قربانی کے بعد واپس  چلے گئے اور آج پھر مارچ کے مہینے میں حکومت گرانے کی دھمکی پر اتر گئے ہیں۔

یہی حال گلگت  بلتستان کے کچھ سیاست دانوں کا بھی ہے اور خصو صاََ یاسین کے منجھے ہوے سیاست دان جناب غلام محمد کا بھی ہے یہ شخص تو انتہائی محسن کُش ہیں یاسین کے یوتھ نے پہلی دفعہ جب اس کو بر سر اقتدار لایا تو اس کے لئے بہت زیادہ کام کیا اور اپنے والدین  سے بھی جھوٹ بھول کراِ س کو ووٹ دیا گیا یہاں تک کہ ایک نوجوان کی مان اندھی تھی اور کافی عمر کی تھی اس نے ووٹ کاسٹ کر نے کے لئے اپنے بیٹے سے کہا میر ے لعل میرا ووٹ  شہزادہ سید فضل حسن یعنی شہزادہ بلبل کو ووٹ دیناہے لیکن اس کے بیٹے نے اپنی قیامت کو بھی بھول گیا اور اپنی ماں کے حق کو بھی پامال کر کے ووٹ غلام محمد کو کاسٹ کیا لیکن جب یہ شخص بر سر اقتدار  آیا تو سوائے اقربہ پروری کے کچھ نہیں کیا یہاں تک کہ اس نے ایک گاؤں کے لوگوں کو پینے کاپانی بھی درپردہ طور پر لوگوں کو اُکسا کر نہیں دیا ِ اور اب بھی طاوس والوں کی شکایت ہے کے ایفاد کا جو پروجکیٹ طاوس میں لانچ ہو نا تھا اس کو ریجکٹ کرنے میں بھی ان کا اہم کردار ہے جو خود پس پردہ رہ کر دوسروں کے کاندھوں پر رکھ کر فائر کرنے میں ماہر ہے، اُس وقت وہ سیاست کا نیا ٹھیکہ دار تھا کہتا تھا صرف راجہ اور پیر ہی کیوں ،غریب کو بھی موقع  ملنا چاہئے،

لیکن آج کوئی تین دفعہ ممبر اور دو دفعہ بھیک منگہ مشیر رہنے کے باوجود اپنی ٹھیکہ داری کو چھوڑنے کو تیار نہیں،اور ایسا  احسان فراموش نکلا کہ محمد ایوب خان سابقہ ممبر کو بھی نہیں بخشا جب کہ وہ شروع دن سے غلام محمد کا  ساتھ دیتا آیا تھا بلکہ اس کا دیایاں ہاتھ تصور کیا جاتا تھا،

 لہٰذا  میرا مشورہ ہے کہ اگر وہ اتنا ہی ایماندار ہے جیسا کہ اس نے شروع میں کہا تھا کہ سیاست کسی کو ٹھیکہ میں نہیں دینا چاہئے تو پھر آج خود بھی اس ٹھیکہ داری سے الگ ہو جائے کسی اور غریب کو موقع دے۔ اس نے بھی کئی مرتبہ سیاسی پارٹیاں تبدیل کیا  جس پارٹی کی حکومت ہوتی ہے اس پارٹی میں شمولیت اس کا بھی وتیرہ بنا ہوا ہے۔ ان سیاست دانوں کو یاسین کی عوام کی خدمت سے کوئی سرو کار نہیں صرف تنخوا ہ  لینے سے غرض ہے، لہٰذا میں یاسین کے عوام کو دست بستہ عرض کرونگا کہ آئندہ وہ یہ دیکھ لیں کہ حکومت کس پارٹی کی ہے اس پارٹی کے امیدوار کو ووٹ دیں یہ ہمارے سامنے ہے کہ  بلتستان والے ابھی سے ہی پی ٹی آئی میں آنا  شروع ہو چکے ہیں اور وہ آئندہ سال پی ٹی آئی کو کامیاب کر کے پھر حکومت میں شامل ہو کر اپنے علاقے کی خدمت کریں گے اس سے قبل پیپلز پاڑتی کا وزیر علیٰ بھی انکا تھا اور موجودہ سیٹ اپ میں بھی ان کے وزراء کی تعداد  زیادہ ہے، لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ پی ٹی آئی والے ٹکٹ کس کو دیتے ہیں، جس کو بھی پی ٹی آئی ٹکٹ دے اسے ووٹ دیدے تاکہ علاقے میں کچھ کام ہو، یہ پورے غذرکی بد قسمتی ہے مشرف کے دور میں تینوں ممبران حسب اختلاف میں ڈٹ گئے لیکن وہ مشرف تھا اس کے دور میں درکوت اور شندور تک کی ایک ایک گلی سڑک میں تبدیل ہو گیا چترال تک بس چل پڑی، استور تک بل کہ اگلے مورچوں تک سڑکیں بن گئی خیر یہ ایک الگ دور تھا، لیکن کسی بھی سیاسی پارٹی نے غذر کو کچھ  نہیں  دیا، لہٰذا یہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا جائے کہ ائندہ تین سال پی ٹی آئی کی باقی ہوگی اور اگر اس موقع کو ضا ئع کیا گیا تو غذر مکمل کھنڈر بن جائے گا،  یاسین تو مکمل بھوت گھر کا نمونہ بن جائے گا لہٰذا  اقربہ پروری، لسانی اور مذہبی تعاصبیت سے پاک ہو کر حکومتی پارٹی کو ووٹ دے کر حکومت سے دوسرے علاقوں کی طرح     فائدہ اٹھایا جائے،  بلتستان میں تر قیاتی کام پچھلے دونوں حکومتوں کے درمیان سب سے زیادہ ہوے ہیں،  اس لئے علاقے پر علاقے کے مکین کو رحم آنا چاہئے اپنء علاقے کی ترقی کے خاطر جو بھی حکومت ہو اس کا ساتھ دیا جائے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button