کالمز

انسان بیماری سے نہیں موت سے مرتا ہے

کرونا وئریس جو چین سے شروع ہوا تھا اب تقریباً سارے ممالک میں اس وائریس کے مریضوں کی نشاندہی ہو رہی ہےتازہ ترین اطلاعات کے مطابق پاکستان کے شہر کراچی میں بھی دو اشخاص میں کرونا جراثیم پانے کی خبر ہے

جہاں اس خبر نے سب کو  پریشان کر دیا ہے وہاں کاروباری بھڑیوں نے اس مرض میں احتیاطی تدابیر کے طور پر استعمال ہونے والا ماسک ہی مارکیٹ سے غائب کر دیا ہے جس کے باعث دو ڈھائی روپے میں ملنے والا یہ معمولی ماسک اب کراچی مین نا پید ہے اور ملتا بھی ہے تو دو سے ڈھائی سو روپے میں ایسے میں میں تو یہی کہونگا کہ ایسے لوگوں کے لئے کرونا وائریس نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے ایک زلزلہ ہی آنا چاہئے ۔انسانیت کی ایسی گھری ہوئی تصویر شائد کہیں ملے ۔اس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے۔

میری آج کی تحریر مسلمانوں کے لئے ہے  آپ پوچھینگے کہ کیوں؟   کیوں کا جواب تو لڑائی ہوتا ہے لیکن میں یہاں لڑنے کے بجائے اپنی بساط کے مطابق قارئین کو سمجھانے کی کوشش کرونگا۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ مسلمان قران کو آسمانی اور اللہ کا کلام سمجھتا ہے۔دوسری بات یہ کہ مسلمان روز قیامت پر یقین رکھتا ہے اور تیسری بات یہ ہے کہ مسلمان یہ عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ موت اٹل ہے اور اس کا ایک دن مقرر ہے نہ ایک سکینڈ آگے اور نہ ایک سکینڈ پیچھےاب بات کو قارئین بخوبی  سمجھ  گئے ہونگے کہ یہ تحریر کن لوگوں کو بھلی اور مناسب لگے گی!

مسلمانو عرض یہ کرنا ہے کہ پاکستان میں سب اس وقت کرونا کا رونا  رو رہے ہیں اور سب پہ ایک خوف طاری اور ہر شخص پریشان دکھائی دیتا ہے ۔خوف آنا بھی چاہئے اور پریشاں بھی رہنا چاہئے  لیکن بحثیت مسلمان ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ پریشانی اور خوف کے عالم میں  ہمارے اللہ اور  نبی کے ارشادات کیا ہیں میں یہ بھی دعوی ٰ نہیں کرتا کہ میں عالم فاضل ہوں ۔ لیکن  مطالعہ کا شوق اور تھوڑی بہت شد بد  کے تحت  چھوٹے ذہن سے قرطاس کو کالا کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ شائد کچھ ڈھنگ سی تحریر بن پائے اور قارئین کے دل کو بھا جائے ۔اور جب کوئی بات کسی کو بھا جاتی ہے تو دل سے اللہ کا  شُکر ادا کرتا ہوں کہ اللہ تیرا شکر کہ مجھ جییسے کم مایہ  شخص کی بات کسی کو بھلی لگی سب سے پہلی بات جو ذہن میں رکھنی ہے وہ یہ ہے کہ  جب تک اللہ کا اذن نہ ہو کوئی بھی چیزواقع  ہو ہی نہیں سکتی اور نہ ہی کوئی مرض  متعدی ہو یا اور قسم کا کسی کو لگ سکتا ہے ۔ اللہ فرماتا ہے اپنے کلام میں۔ مٹانا اور ثبت کرنا اللہ ہی کی مرضی ہے ۔

اور ساتھ میں پیارے نبی کی یہ پیاری  بات بھی سنو جس میں  آپ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی علاقے میں طاعون کے بارے میں سنو تو اس میں نہ جاؤ اور اگر کسی علاقے میں طاعون پھیل جائے اورتم اس میں ہو تو اس سے نہ نکلو۔ان باتوں پر تھوڑا سا جائزہ لیں تو دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہو جائیگا۔کہ ہم میں مسلمانی کی کتنی رمق باقی  ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ بحثیت مسلمان سب کچھ خدا سے ہونے کا اور دیگر سے کچھ نہ ہونے کا یقین ہمارے دل میں گھر کر جاتا  لیکن افسوس یہ ہے کہ  ہم اللہ کو بھی صرف اس وقت ہی مانتے ہیں جب آفت سر پر آ کھڑی ہوتی ہے ۔

عرض کرنے کا مدعا یہ ہے کہ  ہمیں اللہ کی ذات پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے یہ پکا یقین دل میں بیٹھانا چاہئے کہ مجھ پر مرض کا حملہ اللہ کی مرضی سے ہی ہوگا نہ کہ کسی اور چیز سے۔اور حدیث کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہاں بھی ہم ناکام ہیں ہم صرف ان حدیثوں کا ذکر کرتے ہیں جو ہمارے فائدے کی ہوں یا اپنی علمیت اور قابلیت جتانا مقصود ہوتا  ہے۔حدیث کے مطابق معتدی امراض میں احتیاط کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ہم اس پر کتنا پورا اترے  ۔کیا کرونا وائریس پھیلینے کے بعد ہم نے  ہم سے مراد جس ملک سے اس وائریس کا آغاز ہوا وہاں کے مسلمان اس وائریس کو دیگر ملکوں تک پھیلانے کا باعث بنے یا انہوں نے اس وائریس کو اپنے ساتھ کہیں اور پہنچا دیا۔

میں یہ نہیں کہتا کہ مسلمان  ہی اس وائریس کو پھیلانے  کا موجب بنے ۔میرا کہنا کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے بحثیت مسلمان احتیاطی تدابیر کہاں تک اپنائی  ۔ کرونا کوئی معتدی مرض نہیں  یہ بھی نزلہ اور زکام کی طرح پھیلنے والا  مرض ہے بیماری سے متعلق اب تک جو معلومات ملی ہیں  اس کے مطابق  یہ بیماری ایسے افراد  پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے جو طویل وعرصے تک  مریض کے ساتھ رہتے ہیں منتقلی کھانسی اور چھینکنے سے ہوتی ہے   تاہم  بیرونی  بیماریوں کی منتقلی کے امکانات بہت کم ہیں ۔بات پھر یہاں عقیدے کی آتی ہے اور ذہن اسی طرف مُڑ جاتا ہے کہ  کوئی تو ہے جو نظام ہستی چلا رہا ہے  جی ہاں وہی خدا ہے اور خدا  اپنے کلام کے ذریعے اپنی مخلوق سے مخاطب  ہے  کہ  یہ کلام تمھارے لئے نصحت ہے  اور دلوں میں جو روگ ہیں اس کے لئے شفا ہے اور ساتھ میں رہنمئی کرنے والی اور ان کے لئے جو ایمان رکھتے ہیں رحمت ہے ۔ اور اللہ کے چہتے اور پیارے رسولﷺ کا فرمان اللہ تعالیٰ نے ایسی  کوئی بیماری نہیں اتاری جس کا علاج نہ ہو  ہر بیماری کی دوا موجود ہے  اور جس نے یہ بات جان لی اس نے جانی اور جو جاہل ہیں سو وہ جاہل ہیں۔ اب آپ کے ذہن میں یہ بات آتی ہوگی کہ جب ایسا ہے تو لوگ مر کیوں جاتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ لوگ موت سے مرجاتے ہیں بیماری سے نہیں بیماری سے صحت یابی کے لئے ضروری ہے کہ اس بیماری کے علاج سے واقفیت ہو اگر واقفیت ہوئی تو مریض صحت یاب بھی ہوجاتا ہے ۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ موت کے سوا تمام بیماریوں کا علاج ہے ۔بس کرنا کیا ہے احتیاط  اور اب تک ماہرین طب نے بہت ساری احتیاطی تدابیر بتائی ہیں جن میں کرونا  وائریس کے مریضوں سے رابطے سے گریز ، ہاتھ دھونا۔چھینک اور کھانسی میں منہ کا ڈھانپنا ۔وائریس کے شکار مریضوں کو گھر سے باہر نہ نکلنے کی ہدایت  شامل ہیں  ان باتوں سے ہٹ کر میں جو بات کہنے والا ہوں کہ ہمیں فراست سے کام لینا چاہئے اور فراست  یہ ہے کہ  ظاہری واقعات کی روشنی میں اپنے باطنی اخلاق و کردار کا جائزہ لینا چاہئے ۔ علاج کرانا سنت ہے اور بیماری کی روک تھام کے لئے  اقدامات بھی سنت ہیں یہ بات تو اٹل ہے کہ ہر کام اللہ ہی  کی مرضی سے ہوتا ہے لیکن پاک پروردگار ایسا ہے کہ اس نے اپنی  قدرت کے باوجود حضرت مریم کو کھجور کا درخت ہلا ئے بغیر کھجور عطا نہیں کئے  کیوں؟ اس لئے کہ دنیا عالَمِ اسباب ہے اور یہاں  ہر کام کا کوئی نہ کوئی سبب مقرر ہے۔بیماری اور مصیبت کے وقت  اسباب اختیار کرنے کے باوجود انسان کو چاہیے کہ اس کا کلی انحصار صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر رہے  اسباب کو استعمال کئے  بنا ہاتھ پیر سکیڑ کر بیٹھ جانا شریعت کے منافی  ہے۔ ۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ بڑھاپا اور موت بیماری نہیں اور یہ دونوں انسانوں میں آتے رہئنگے اور موت کو کوئی ٹال نہیں سکتا ۔

ٹالنے  کے لفظ سے میرا ذہن ایک دم سے ہنزہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کی ناگہانی موت کی طرف چلا گیا جس کی موت کوہستان کے قریب ایک کار ایکسیڈنٹ سے ہوئی اس نوجوان کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ چین میں رہائش پذیر تھا اور غالباً کرونا وائریس سے بچنے کے لئے وہاں سے نکلا تھا لیکن کیا ہوا؟ کیا اسے موت نہیں آئی؟ یا کیا اس کی موت کرونا وائریس سے ہوئی؟ یا اس کی موت  موت کی وجہ سے ہوئی  جی ہاں اس نوجوان کی موت موت سے ہی ہوئی جو بیماری نہیں ہے   اور یہ موت صرف اللہ کے اذن سے ہی آجاتی ہے ۔اور اللہ نے جس شخص کی جان کہاں اور کس وقت لینی ہے  اسے سب معلوم ہے جس سے  ہم بے خبر اور لا علم ہیں۔

  کہتے ہیں کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار مین ایک دن ملک الموت آیا ایک شخص کی طرف دیکھا اور وہ شخص اتنا گھبرایا کہ اس نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے عرض کیا کہ  ہوا سے کہہ کر اسے ہند کے فلاں علاقے مین پہنچایا جائے اس کی درخوست پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے ہوا کو حکم دیا کہ اسے وہاں پہنچایا جائے چناچہ ہوا نے حکم کی تعمیل کی اور گھبرائے ہوئے شخص کو اس کی مطلوبہ جگہ پہنچایا  اور اسی جگہ میں اس کی جان عزرائیل نے اللہ کے حکم سے نکالی اور آخر میں اللہ کے ارشاد کہ جو گہری نظر رکھتے ہیں  ان کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button