نوائےسُرود: نئی نسل اورمغربی تہذیب
شہزادی کوثر
ہر علاقے ،ملک اور معاشرے کی اپنی تہذیب ہوتی ہے جو اسے دوسروں سے ممتاز کرتی ہے۔اسلامی معاشرے کی روایات ،رسوم ورواج اور اقدار اپنے اندر انفرادیت کی ایسی شان لیے ہوئے ہیں جو اسے تمام ثقافتوں سے منفرد بناتی ہیں،کیونکہ ان کا تعلق دنیا سے زیادہ دین سے جڑا ہے۔ایسا دین جو طاقت کے زور پر نہیں پھیلا بلکہ فرزندانِ توحید کے بے مثل کردار اور اخلاق نے غیر مسلموں کے دلوں میں ایمان کی شمع روشن کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ بڑی بڑی عظیم الشان سلطنتیں مٹھی بھر مسلمانوں نے مغلوب کر دیں، وجہ یہ تھی کہ ان کے دلوں میں جذبہِ ایمانی سے گرمایا ہوا دل دھڑک رہا تھا۔ ان کے کردار کی عظمت نے غیر مسلموں کے دل پر جمی برف کو پگھلا دیا اور ہر طرف اسلام کا ڈنکا بجنے لگا۔ جب مسلمان اپنے اسلاف کی پیروی سے منحرف ہوئے تو ان کا زوال شروع ہوا، اب حالت یہ ہے کہ فاتح مفتوح ہو گئے ،دنیا میں جہاں کہیں ظلم وجبر ہے اس کو سہنے والے مسلمان ہیں، نہ صرف یہ کہ دوسرے ہمیں ظلم کا نشانہ بنا رہے ہیں بلکہ ہم آپس میں ایک دوسرے کا گلا کاٹنےاور خون بہانے میں کسی سے پیچھے نہیں۔ جس کے ہاتھ میں اختیار ہے وہ بلا روک ٹوک اس کا غلط استعمال کرتا ہے،جو طاقت سے محروم ہیں وہ زبان سے زہر اگلنے سے باز نہیں رہتا۔ کیا اسلام کا پیغام یہ تھا کہ اپنے ہاتھ اور زبان سے دوسروں کو تکلیف دو،انہیں مصیبت میں مبتلا کرو اور ان کا حق کھاؤ؟ تو پھر کیوں ہمارے معاشرے میں ان کی بہتات ہے؟ لگتا تو یہی ہے کہ پاکستانی معاشرہ اپنی جڑوں سے کٹ چکا ہے اس کی کوئی سمت نظر نہیں آتی،دین کو چھوڑ دیا ہے دنیا کو اپنانے میں کامیاب نہین ہوا، اسکی حالت یوں ہے۔۔ ۔۔
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
اس کی وجہ کہیں یہ تو نہیں کہ ہم مغرب کی طرف کچھ زیادہ ہی دیکھنے لگے ہیں؟ کیونکہ ان سے ہمارا بہت پرانا رشتہ ہے غلامی کا رشتہ، جو وقت کے ساتھ مضبوط ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری حیثیت ان کے زرخرید غلام سے بڑھ کر نہیں ہے۔لباس کھانا پینا ،تہزیب،انداز ہر چیز کے لیے ہمارا معیار مغرب ہے۔۔
ہر بات پہ دیتے ہیں ہم غیروں کا حوالہ
اپنا کوئی آہنگ کوئی رنگ نہیں کیا
لیکن جس چیز کے لیے مغرب کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے وہ نہیں دیکھتے، یعنی وقت کی پابندی،وعدے کی پاسداری،سچائی،دیانت داری صحیح ناپ تول،دھوکہ اور ریاکاری سے صاف دل ،تعلیم وتربیت ،خوبیوں کی اس جیسی طویل فہرست ہے جس کی طرف ہمارا دھیان نہیں جاتا صرف ان کا لباس پہننے اور زبان بولنے سے ترقی نہیں آجاتی۔ جو چیزیں انہوں نے انسان کی سہولت کے لیے بنائے ہیں ہم ان کا بےجا اور غلط استعمال کرتے ہیں انٹرنیٹ ،موبائل،کمپیوٹر آسانی اور سہولت کی چیزیں ہیں مگر ہمارے لیے سب سے ضروری کام لیپ ٹاپ کے آگے بیٹھنا یا موبائل میں غرق رہنا ہے۔ جو کچھ کھایا پیا وہ ندیدوں کی طرح دوسروں کو دکھاتے ہیں۔ اور تو اور حج اور عمرہ کے دوران بھی ویڈیو بنا کر اپ لوڈ کیا جاتا ہے یعنی مذہب اور عبادتوں کو بھی مذاق بنایا ہوا ہے۔ موبائل والدین اور اولاد کے درمیان آ ہی چکا تھا اب انسان اور خالق کے درمیان بھی آ کر بیٹھ گیا ہے۔ انتہائی بیہودہ ویڈیوز ایک دوسرے کو بھیجی جاتی ہیں کہ ڈوب مرنے کو دل کرتا ہے۔ ہماری نئی نسل یہ سب کر کے کیا ثابت کرنا چاہ رہی ہے؟ یہ اسلام کے نام پر شرمانے والے احساسِ کمتری کے مارے ہوئے لوگ ہیں ،جنہیں اقدار کی قدروقیمت کا اندازہ نہیں۔ انہیں اپنے بزرگوں کی پیروی کرتے ہوئےندامت محسوس ہوتی ہے۔ بڑوں کی باتیں ان کے نزدیک نہ اہمیت رکھتی ہیں نہ اثر۔۔ ان کی جوانی کو مرجھائے ہوئے بڑھاپے سے کوئی دلچسپی نہیں کیونکہ یہ ماڈرن ہیں یہ زمانے سے با خبر ہیں۔ یہ اپنا قیمتی وقت دقیانوسی بوڑھوں کی باتیں سن کر ضائع نہیں کر سکتے”
سوچ کر دل دکھتا ہے ہمارا مستقبل جن ہاتھوں میں یے وہ ہنر مند نہیں ہیں، ملک کی ذمہ داری جن کندھوں پر پڑنے جا رہی ہے وہ اس کو اٹھانے کے قابل نظر نہیں آ رہے، دعا ہے کہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہواور وہ سنجیدگی کے ساتھ انہیں پورا کرٰیں۔ یہ سب تبہی ممکن ہے جب بڑے اپنا کردار اچھے انداز سے ادا کریں، صرف کہنے سے نہیں ہو گا کر کے دکھانا ہے کیونکہ افعال جب تک اعمال کے سانچے میں نہ ڈھلیں بے معنی ہوتے ہیں۔ ۔