کالمز

یہ کون لوگ ہیں جو موت کو بوسہ دیتے ہیں

تحریر: فیض اللہ فراق

مٹی کی محبت میں گرفتار چند خرقہ پوشوں کی سرشت میں یہ بات تو لکھی ہوتی ہے کہ وہ اپنی جانوں سے کھیل کر دھرتی کا قرض اتارتے ہیں مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ انہی خرقہ پوشوں کے خون سے جنم لینے والے بھی وراثت میں وہی تربیت و جذبہ رکھتے ہیں۔۔

ملک پاکستان کے طول و ارض پر اپنی لہو رنگ قربانیوں سے وطن کے ایک ایک چپہ کا دفاع کرنے والوں کی داستان بہت پرانی ہے۔ افواج پاکستان کا ہر جوان اور افسر اعلی نصب العین کا امین اور قومی غیرت سے لبریز ہوتا ہے ۔ اپنی جانوں سے کھیلنا اور دھرتی کا دفاع ان کے تربیتی اقدار کا حصہ ہوتا ہے۔ نظریاتی سرحدوں کی جنگ ہو یا کنٹرول لائن کی پہرہ داری’ دشمن کی چیرہ دستیاں ہوں یا اپنوں کی بے مروتی’ ففتھ جنریشن وار فیئر ہو یا اندرونی یلغار پاک فوج ہر محاذ پر مستعدی سے کھڑی ہے۔ دنیا کی واحد فوج ہے جو ایک جذبے کی بنیاد پر صف اول کی آرمی جانی اور مانی جاتی ہے جو دو دشمنوں کا مقابلہ بیک وقت کرتی ہے ایک سخت موسم کا دوسرا مکار بھارت کا۔۔۔

فوج اس ملک کا وہ واحد ادارہ ہے جس میں رنگ و نسل اور ذات پات کی کوئی تفریق نہیں۔۔ اس ادارے کے سندھ رجمنٹ کا مطلب گلگتی ‘ کشمیری’ بلوچی اور پنجابیوں کی مشترک اشتراک کا نام ہے تو وہاں پنجاب رجمنٹ کا مطلب ملک کے دیگر تمام علاقوں کی اشتراک کا نام ہے۔۔ اس ادارے میں فرنٹ اول کا سپہ سالار ایک مزدور کا بیٹا بھی بن سکتا ہے اور کوئی متوسط طبقے کا فرد بھی۔ اس ادارے کی تربیت گاہ کے تمام کھٹن مراحل سے کسی جنرل کے بیٹے کو بھی گزرنا ہے اور کسی کسان کے بیٹے کو بھی گویا یہ وہ میدان ہے جہاں محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔۔ جرات و بہادری’ برداشت’ عظمت و کردار اور لیڈر شپ کے اسباق پی ایم اے کاکول کی سڑکوں پر سکھائے جاتے ہیں اور دشمن کے عزائم انہیں دوران تربیت دکھائے جاتے ہیں۔ ان کے خون کو مٹی کی خمیر سے جوڑا جاتا ہے اور جذبوں کو وطن پر قربانی سے منسلک کیا جاتا ہے۔ نظم و ضبط کا سبق انہیں پڑھایا جاتا ہے اور زندگی کے چیلنجز سے نمٹنا انہیں سکھایا جاتا ہے۔

آج دنیا کو اگر پاکستان سے کوئی خوف ہے تو وہ پاک فوج کی مرہون منت ہے۔ کیونکہ فوج اس گھر کا وہ سربراہ ہے جو منظم بھی ہے مظبوط بھی اسلئے یہ فطری بات ہے کہ دشمن جب بھی ہمیں کمزور کرنا چاہئے گا وہ اس گھر کے مظبوط ستون پر حملے کی کوشش کرے گا۔۔ دنیا کو پاک فوج اور پاکستان کا ایٹمی پروگرام کھٹک رہا اور یہی وجہ ہے گزشتہ دو عشروں سے پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے کی بے تحاشا کوششیں کیں گئیں۔۔ قبائیلی علاقوں میں شورش ہو یا کراچی میں بدامنی’ بلوچستان کے حالات ہو یا گلگت بلتستان میں فرقہ وارانہ تشدد دشمن نے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا مگر پاک فوج اور اس کے خفیہ اداروں نے بے مثال اور قابل تقلید مہارتوں اور قربانیوں کے ذریعے دشمن کی ہر سازش کو ناکام بناتے ہوئے ملک کا سر فخر سے بلند کیا۔ گزشتہ دنوں ٹانک میں رجحان ساز قربانی بھی ماضی کی لہو رنگ قربانیوں کا تسلسل ہے۔۔

گلگت بلتستان کے علاقہ بونجی کے سپوت کرنل مجیب الرحمن نے دشمنوں کی دہشت گردانہ سرگرمی کو ناکام بناتے ہوئے اپنی جان اللہ کے حوالے کیا ۔ کرنل مجیب الرحمن اپنے جونئیر افسران کو بھی آگے بھیج کر خود پس منظر میں کمان کر سکتے تھے مگر انہیں یہ گوارا نہ ہوا اور اپنے دستے کے فرنٹ مین کا کردار ادا کیا دو دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا اور اپنے سینے پر گولیاں کھا کر مٹی کا قرض دھرتی کو واپس کیا۔۔ والد کی شہادت پر مرحوم کے 12 سالہ بیٹا باپ کی جسد خاکی سے لپیٹ گیا اور یوں مخاطب ہوئے ابو! تم نے تو کہا تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف دونوں لڑیں گے مجھ چھوڑ کر تم اکیلے کیوں گے تھے۔۔۔۔ ابو! تم نے مجھ سے دھوکا دیا۔۔۔۔

کرنل صاحب کی شہادت کے بعد ان کے فرزند نے کمانڈنگ افسر سے کہا کہ آپ میرے چھوٹے بہن بھائیوں کو مت بتانا کہ ابو کو کچھ ہوا ہے۔۔۔ کیسے لوگ ہیں یہ جو موت کو بوسہ دینا فرض سمجھتے ہیں؟ کہاں کے لوگ ہیں یہ؟ کون کرتا ہے ان کی تربیت؟ سلام ہو ایسے باپ اور ماں کو جس نے اس طرح کے بیٹوں کو جنم دیا اور سلام ہو ڈی آئی جی میر افضل خان کو بھی کہ جس نے کرنل مجیب جیسے سپوتوں کو زمین پر اتارنے کا سبب بنا۔۔

کرنل مجیب کے والد’ خاندان ‘ قبیلہ’ دوست اور چاہنے والوں کیلئے یہ ایک بڑا صدمہ ضرور ہے لیکن موت اٹل ہے ہر ذی روح کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔۔۔ کائنات کی صدا ایک دن ختم ہونی ہے۔۔۔ زندگی نے موت کا لباس اوڑھنا ہے۔۔۔ وقت کے بے لگام گھوڑے نے رکنا ہے۔۔۔ سانسوں کی رفتار نے ٹھہرنا ہے۔۔ مگر۔۔۔ مبارکباد کی مستحق ہے وہ موت جو مرنے کے بعد بھی زندہ ہے۔۔۔ کرنل مجیب امر ہو گئے ہیں۔۔۔ وہ مرے کہاں ؟ وہ تو زندہ ہیں بس ذرا آنکھوں سے اوجھل ہیں۔۔ او یہی خدا کی حکمت ہے۔۔۔ ہمیں فخر ہے گلگت بلتستان کے ایسے سپوتوں پر جو دھرتی کے مان ہیں۔۔ جنہوں نے ہر محاذ پر پاکستان کا دفاع کیا۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button