کالمز

کرونا گردی 

  احمد سلیم سلیمی

ہم وائرس کے دور میں جی رہے ہیں ۔۔۔کرونا باہر سے آکر چمٹ جاتا ہے۔۔ہمارے رویوں کا وائریس پہلے سے ہی رگوں میں دوڑ رہا ہے۔۔۔ہم بحیثیت مسلمان زیادہ برے ہیں یا انسان زیادہ برے ہیں؟ اس کی بھی سمجھ نہیں آرہی۔۔۔

 ایک افراتفری ہے۔۔بھاگم دوڑ ہے۔۔۔خوف اور سنسنی ہے۔۔۔کرونا نے ایسی تھرتھلی مچائی ہے ایک انسان دوسرے سے بھاگ رہا ہے۔۔ہاتھ ملانا اور گلے لگنا اب شامت بن گئے ہیں ۔۔۔بازار اور دفتر سے خوف آنے لگا ہے۔۔۔فاسٹ میڈیا نے اودھم مچا رکھا ہے۔۔خوف، سنسنی اور بے دانشی کا بازار گرم ہے۔۔گلگت کی صبحیں، یہاں کی شامیں کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں ۔۔۔احباب کرونا کی زنجیریں پہن چکے ہیں۔۔۔خطرہ اور خوف انسان کو انسان سے ہونے لگا ہے۔۔۔پیسے کی دوڑ نے پہلے ہی دلوں کو دور کر دیا تھا۔۔۔اب جسم بھی گریز پا ہیں ۔۔۔

 عالم محشر کا بھی یہی سنتے آئے ہیں ۔۔ایک انسان دوسرے سے بھاگے کا کہ کہیں میرے اعمال نہ مانگ لے۔۔۔کرونا نے زندگی میں ہی حشر بپا کر دیا ہے۔۔۔کہ کہیں کرونا نہ سونپ دے۔۔۔۔

  فاعتبرو یا اولی الابصار۔۔۔

  مسجد ہو مے خانہ ہو،کعبہ ہو بت خانہ ہو۔۔۔سبھی پہ تالے پڑچکے ہیں ۔۔۔بازار ہوں،ہوٹل ہوں،کھیل کے میدان ہوں ۔۔۔ایک ویرانی سی ویرانی ہے۔۔۔

  ایک کرونا نے اس ترقی یافتہ انسان کی ساری سائنس،ترقی،ٹیکنالوجی،علم اور غرور کا بھرم کھول کر رکھ دیا ہے۔۔۔قدرت کی طاقت ایک وزنی ہتھوڑے کی مانند اس سائنسی انسان کے سر پر پڑ چکی ہے۔۔۔ایک ہی ضرب میں اس کے حواس مختل کردیا ہے۔۔۔

  مگر یہ انسان سنبھل بھی جائے گا۔۔۔اسی قادر مطلق نے اس انسان کو وہ صلاحیتیں عطا کی ہیں کہ مشکل سے نکل آئے گا۔۔۔۔

  ہم مسلمان پھر بھی بھٹکتے ہی رہیں گے۔۔۔اپنی بے دانشی،خود غرضی اور حرص کی بدولت زخموں کو چاٹتے رہیں گے۔۔۔

 جھوٹ،بے ایمانی،لالچ،زخیرہ اندوزی۔۔۔۔رمضان سے لے کر کرونا تک ہمارے بازاروں میں تھوک کے حساب سے بکتی ہیں ۔۔۔ایسے میں،شروع میں جو ایک غرور تھا کہ یہ وائرس کافر چائنا کی بداعمالیوں کی سزا ہے۔۔۔ہم تو بخشے بخشائے ہیں ۔۔۔۔اب جو ہمارے اندر اتر چکا ہے اب بھی یقین نہیں آرہا ہے کہ بے ایمانی کے ہم امام ہیں ۔۔۔۔ماسک سے لے کر سینی ٹائزرز تک جو پیسہ خوری کا تماشائے سر عام ہورہا ہے ۔۔۔۔اس سے بڑھ کر اور کافری کیا ہے۔۔۔؟

  ہمیں امید ہے آج کا انسان اس صدمے سے بہت جلد نکل آئے گا۔۔۔تب تک حوصلہ،سمجھ داری اور ہمدردی بہت ضروری ہے۔۔۔سوشل میڈیا بریکنگ نیوز کے چکر میں اضطراب،پریشانی اور panic پھیلا رہا ہے۔۔۔اسے زندگی سے نکال نہیں سکتے ہیں مگر اس سے کرونا زدہ انسان کی طرح فاصلے بڑھا سکتے ہیں ۔۔۔

     اس وبا کی وجہ سے آپ کی حرکات و سکنات محدود ہو گئی ہیں ۔۔۔کھیل تفریح کے مواقع مسدود ہوگئے ہیں تو کتب سے تعلق بڑھائیں ۔۔۔کتاب کلچر اپنا لیں۔۔۔ناول ،ڈائجسٹ،شاعری ،تاریخ،حالات حاضرہ پر کتابیں پڑھنا شروع کریں ۔۔۔وقت بھی اچھا کٹے گا۔۔۔علم اور عقل بھی بڑھے گی۔۔۔میڈیا پر کرونا گردی دیکھنے کی بجائے اچھی اچھی فلمیں ڈاؤن لوڈ کر کے دیکھنا شروع کریں ۔۔۔اچھی موسیقی سن لیں ۔۔۔

 اپنے اندر کے انسان کو طاقت ور بنانے کے لیے مذہب اور عبادت سے محبت کریں اسمائے الاہی اور درود و و ظائف کا ورد کریں ۔۔۔

     بدلتے حالات پر نظر ضرور رکھیں مگر اپنے ہوش و حواس سلامت رکھیں ۔۔۔بھیڑ چال کی بجائے اپنے لیے نیا راستہ تلاش کریں  ۔۔۔زندگی میں جذبہ ،جوش اور امید کا دامن نہ چھوڑیں ۔۔۔

یہ گلگت، اس کی صبحوں کی خیر ہو ، اس کی شاموں کی خیر ہو۔۔۔اسے شکستگی سے بچانے کی زمہ داری سب کی ہے۔۔۔حکمران بھی،رعایا بھی،علما بھی عوام بھی۔۔۔قاری بھی لکھاری بھی ۔۔۔سب سمجھداری سے ،معاملہ فہمی سے اس عالمی وبا کی سنگینی کا مقابلہ کر لیں۔۔۔

   بہت سنے ہیں فسانے تخیل کے بنے ہوئے ۔۔۔

آو اب اپنے گریبانوں میں بھی جھانکیں مل کر۔۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button