عیدِ نوروز کا پیغام
دنیا کی ثقافتوں اور تہذیبوں میں مخلتف صورتوں میں بہار کی آمد کے موقع پر جشن منائے جاتے ہیں ایک ایسا ہی ثقافتی جشن نوروز ہے جو تاریخی طور پر فارسی بولنے والی اقوام مناتی رہی ہیں۔ روایت بیان کی جاتی ہے کہ نوروز کی رسم برصغیر میں ایرانی مہاجرین لے کے آئے تھے جو گجرات میں سنجان کے مغربی ساحل کی طرف غالباً دسویں صدی عیسوی میں آئے۔
اس دن کی اہمیت پیغمبر اسلامؐ کی احادیث اور ائمہؑ کے فرامین کے ذریعے بتائی گئی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں یہ بیان کیا گیا ہے نبی کریمؐ کو شرینی کا پیالہ نوروز کے تحفے کے طور پر پیش کیا گیا تو آپؐ نے اسے قبول فرماتے ہوئے دعا و برکات فرمائیں۔ مزید اس سلسلے میں مشہور ہے کہ مولا علیؑ کو ایک ایرانی زمیندار کی طرف سے نوروز کے تحفے موصول ہوئے تو آپؑ نے فرمایا ’’ہمارا ہر دن نوروز ہو۔‘‘
تاریخ پر جب ہماری نظر پڑتی ہے تو تاریخ شہادت دیتی ہے کہ اس سیارۂ زمین کی پیدائش سے لے کر اب تک نوروز کے موقع پر جتنے بھی عجیب و غریب اور انتہائی عظیم واقعات رونما ہوۓ ہیں۔ اتنے واقعات کسی اور موقع پر نہیں ہوۓ ہوں گے۔ چنانچہ علامہ مجلسی کی کتاب ’’زادلمعاد‘‘ کے حوالے سے یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ حضرت امام جعفرالصادق علیہ السلام نے فرمایا:
’’نوروز وہ مبارک دن ہے جس میں خداوندِ عالم نے بندوں کی روحوں سے یہ اقرار لیا کہ وہ اس کو خداۓ واحد سمجھیں۔‘‘
جیسا کہ قرآن پاک کا ارشاد ہے:
’’اور وہ وقت یاد کرو جب کہ تمہارے پرورگار نے اولاد آدمؑ کی پشتوں سے ان کی اولاد کو لیا اور انہیں ان کی اپنی اپنی ذات پر گواہ قرار دیا۔ اور ان سے پوچھا کیا میں تمھارا پرورگار نہیں۔ یہ اقرار اس لیے لیا۔ تاکہ تم قیامت کے دن یہ نہ کہو کہ یقیناً ہم اس سے بالکل بے خبر تھے۔‘‘ (سورہ الاعراف آیت ایک سو بہتر)
مذکورہ روایت کے مطابق نوروز ہی تھا۔ جس میں حضرت نوحؑ کی کشتی طوفان تھم جانے کے بعد کوہ جودی پر ٹھہری۔ حضرت ابراہیمؑ نے اسی روز ملک عراق کے شاہی بتوں کو توڑ ڈالا تھا۔ حضرت موسیؑ نے اپنے زمانے میں اسی دن فرعون مصر کے جادوگروں کو شکستِ فاش دے دی تھی۔ اور آنحضرتؐ نے بھی اسی نوروز کے موقع پر مولانا علیؑ کو اپنے مبارک کندھوں پر چڑھاکر خانہ کعبہ کے تین سو ساٹھ بتوں کو توڑوایا تھا۔ اور ہاں یہی نوروز کا دن تھا جب نبی کریمؐ نے مولا علی کو غدیرخم کے مقام پر لاکھوں حاجیوں کی موجودگی میں اپنا جانشین مقرر فرمایا تھا۔ نوروز کے متعلق اس قسم کی بہت سی روایات مشہور ہیں۔ لیکن پھر بھی اس یومِ سعید کی بہت سی حقیقتیں ہوسکتی ہیں۔ جو اب تک پردۂ راز میں پوشیدہ رہی ہوں۔
عید وہ روز ہے جس دن ہم خداوند متعال کی یاد اور اس کے انبیاؑ و ائمہؑ سے کئے ہوئے عہد و پیمان سے غافل نہ ہوں، جس روز ہم خدا اور انبیاؑ و ائمہؑ کی یاد سے غافل ہوں (چاہے وہ عید ہی کا دن کیوں نہ ہو)، وہ دن حقیقت میں روز عزاء ہے، اور اسی مطلب کی تائید مولائے کائنات حضرت علیؑ کا یہ فرمانِ پاک کرتا ہے:
کلُّ یومٍ لا یُعصیٰ اللہُ فیه فهو عیدٌ
’’ہر وہ دن جس میں اللہ کی معصیت نہ کی جائے، عید کا دن ہے۔‘‘
آئے آج ہم اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نشانی پر غور کرتے ہیں جس کا اس عید سعید یعنی نوروز عالم افروز سے گہرا تعلق ہے اور وہ عظیم نشانی یہ آسمانی سورج ہے اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس روئے زمین پر ہر زندہ شے کی زندگی اور بقا کا انحصار اور اس کے جسمانی عروج و زوال کا دار و مدار اس ظاہری آسمانی سورج کے قریب اور اس سے دور ہونے پر ہے اور سال کے چاروں موسم بہار، گرما، خزاں اور سرما اسی سورج سے قربت اور دوری کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مفہوم: اور ان (لوگوں) کے لیے مردہ زمین ایک نشانی ہے ہم نے اسے زندہ کیا اور ہم نے اس میں سے دانہ نکالا۔ پس وہ اس میں سے کھاتے ہیں۔‘‘ (القرآن سورہ چھتیس آیت تینتیس)
یہاں یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ رب کائنات نے مردہ زمین کو براہِ راست زندہ نہیں کیا ہے بلکہ اس کی زندگی کے لیے آسمانی سورج اور پانی کو بطورِ وسیلہ پیدا کیا ہے اور زمین کی زندگی سورج کی قربت سے مشروط ہے۔ ایک اور آیت میں خالق کائنات ارشاد فرماتا ہے:
مفہوم: ’’بیشک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات اور دن کے اختلاف میں صاحبانِ عقل کے لیے البتہ نشانیاں ہیں جو اٹھتے اور بیٹھتے اور کروٹوں پر لیٹے اللہ کو یاد کرتے ہیں اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش پر غور کرتے ہیں۔‘‘ القرآن سورہ تین آیت ایک سو نوے، اکیانوے)
اس آیۂ مبارکہ میں رب کائنات نے صاحبانِ عقل و خرد پر دو نہایت ہی اہم ذمہ داریاں عاید کیا ہے ان میں سے پہلی ذمہ داری ہر وقت اور ہر حالت میں اللہ کو یاد کرنا کیونکہ یادِ الٰہی سے انسان کی بصیرت تازہ ہوجاتی ہے جس کو چشم بصیرت بھی کہا گیا ہے۔ جیسے کہ مولانا رومیؒ فرماتے ہیں؎
’’ذکر آرد فکر را در احتراز‘‘ یعینی ذکر انسان کی فکر کو حرکت میں لاتا ہے۔
دوسری ذمہ داری حق تعالیٰ کی طرف سے انسان پر یہ ہے کہ وہ نظام کائنات پر غوروفکر کرے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا مقدس کلام تمثیلی زبان میں ہے اور نشانیوں کو سمجھنے کا مقصد کتابِ مقدس میں بیان شدہ امثال کے ممثول و مراد کو دریافت کرنا ہے جوکہ اس کی اصل غائت ہے۔
مذکورہ بیان کا مقصود یہ ہے کہ ںظام کائنات میں یہ آسمانی سورج اللہ تعالیٰ کی نشانیوں اور مثالوں میں سے ایک ہے اور اس کا ممثول اور مقصود دورِ نبوت میں رسولؐ اور دورِ امامت میں آل نبیؐ ہیں۔ جس کا ثبوت قرآن پاک کی تفاسیر اور بزرگانِ دین کے بصیرت افروز کلام کے بغور مطالعے سے ملتا ہے۔ پیر ناصر خسروؒ نے اپنے اس حکیمانہ شعر میں اس جانب اشارہ کیا ہے؎
چشمِ سر بی آفتابِ آسمان بیکار گشت
چشمِ دل بی آفتابِ دین چرا بیکار نیست
مفہوم: ’’جب سر کی آنکھ آسمانی سورج کے بغیر بیکار ہے تو (اس صورت میں) دین کے سورج کے بغیر دل کی آنکھ کیوں بیکار نہیں ہے۔‘‘
ہم دیکھتے ہیں یہ آسمانی سورج روئے زمین پر موجود برتر اور کمتر ہر شے پر مساوی روشنی بکھیرتا ہے لیکن سورج کی روشنی اور حرارت سے اسعفادہ کرنے میں تمام اشیا اور مخلوق مساوی نہیں ہیں۔ اسی طرح روحانی سورج جو نور کا منبع ہے اور انسانی قلوب کو روشن کرنے والا ہے، بغیر امتیاز رنگ و نسل اور مذہب کے تمام بنی نوعِ انسان کو فیض پہنچاتا ہے۔
عید نوروز زبان حال سے پر زور الفاظ میں ہم سے تقاضا کرتی ہے کہ ہم نظام فطرت سے سبق حاصل کرتے ہوئے اپنے خیالات، عادات اور رویوں میں بہتری لانے کی کوشش کریں۔ یادِ الٰہی کو زادِ سفر بنائے۔ ہمارا تعلق کسی بھی مسلک سے کیوں نہ ہو اپنے طریقے کے مطابق اس روحانی سورج سے نزدیکی حاصل کرکے روحانی بہار کی لذتوں سے بھی لطف اٹھانے کی کوشش کریں تاکہ نوروز کے باطنی پیغام کو سمجھ سکیں۔ نامور اسماعیلی داعی اور اسکالر ابو اسحاق کے ان فکر انگیز اشعار کے ساتھ اجازت چاہوں گا؎
نوروز ظاہری بود تغییرِ ماہ و سال
نوروز باطنی بود تغییرِ کیف و حال
نوروز اہلِ صدق بود ترک فعلِ بد
نوروز اہلِ کذب بود زیبِ جسم و مال
نوروز آن بود کہ بود ایمن از زوال
مفہوم: ’’ظاہر نوروز ماہ اور سال کی تبدیلی کے نتیجے میں آتا ہے جبکہ باطنی نوروز اندرونی کیفیات اور حالات میں مثبت تبدیلی کی صورت میں آتا ہے۔ اہلِ صدق کا نوروز برے افعال سے اجتناب کرنا ہے جبکہ اہلِ کذب کا نوروز محض جسم اور مال و دولت کی نمائش کرنا ہے (جوکہ زوال پذیر ہے) اصل نوروز وہ ہے جو زوال سے محفوظ ہے۔‘‘
اللہ پاک ہم سب کے دلوں کو اپنے نور سے منور کردے۔ آمین!
و ما علینا الا البلاغ المبین!