کالمز

الوداع اے میرے وطن کے بیٹے، شہید ڈاکٹر اسامہ ریاض 

الوداع اے  سر زمین بے ائین  کے عظیم بیٹے ۔ میں وہ الفاظ کہا ں سے لا وں جن سے تجھے خراج عقیدت پیش کر سکوں ۔ میں وہ جذ بات کہاں سے لا و ں جو تیر ے  رتبےکے شا یا ن شان ہوں ۔ میں وہ پھول کہاں سے ڈھو نڈ وں جو اس قا بل ہو ں کہ تیر ے مزار پہ بچھا سکوں ۔ میں وہ انسو کہاں سے لاکر دکھاوں جو ہم سب نے، تیرے وطن والوں نے تیرے لئے بہائے  ۔

تو نے چند دنوں میں وطن کے لئے  وہ  خدمت سر انجام دیا ہے جو شا ئد کو ئی  صد یوں میں نہ دے سکے ۔ تم نے اپنی پھول جیسی  جوا نی  ا ور اپنے تا بناک مستقبل کو اس قوم کے لئے قربا ن کیا جس کو اپنو ں نے ہی ہمیشہ دھتکار دیا ہے ۔ تو نے آج یہ ثا بت کر دیا ہے کہ اپنو ں کی محبت کیا ہو تی ہے ۔ خد مت  کا جذ بہ کیا ہو تا ہے ۔ تو نے   اس بے سر و سا ما ن قوم کے لئے اپنی پھول جیسی زندگی کو قر با ن کر کے ثا بت کیا ہے ہم وہ قوم ہیں جن میں زندگی اور قر با نی کے جذبا ت اب بھی زندہ ہیں ۔   تم نے کبھی ذرہ بھر بھی نہیں سوچا کہ  وائرس چینی ہے یا سعودی یا ایرانی ۔ بس صرف اپنا فرض  نعبا تے ر ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم تمہا ری قربا نی کی لا ج رکھ سکیں گے ۔ کیا ہم نفرت اور نا اتفاقی سے با ہر آ سکیں گے ۔ کیا ہم پھر سے ایک قوم بن سکیں ینگے اور انسا نیت کے دشمن اس مو زی مرض سے  لڑ کر اسے شکست دے سکینگے ۔یا ا یکبار پھر ہمیشہ کی طرح اس  اپنے اس عظیم بیٹے کی قربانی کو بھی ردی کی ٹوکری میں پھینک کر پھر سے میں میں اور تو تو میں لگ کر اپنا وقت اور وسائل ضائع کرینگے

۔اسامہ! میرے ہیرو تم نے اپنا فرض ادا کردیا ہے ایک نہتے سپاہی کی طرح میدان جنگ میں اخری دم تک ثابت قدم رہ کر نہ صرف  اپنے وطن کی لاج رکھ لی بلکہ انٹرنیشنل میڈیا تک بھی اس لا چار قوم کی حا لت زار کو پہنچادیا ۔ اج میں عرب نیوز ،بی بی سی اور نجانے کون سے سرخیوں میں دیکھ کر سوچ  رہی ہو ں کہ تو نےجاتے جاتے بھی اپنے وطن کے درد ،بےبسی اور تکلیف کو دنیا کے سامنے اشکار کر دیا ۔ ورنہ با قی  دنیا تو دور  کی بات اپنے  ملک نے ہی اس خطے کو ثا نو  ی درجہ دیا ہے ۔  جو اس با ت سے ظا ہر ہے  کہ ولڈ بینک کے امداد  میں با قی  صو بو ں کے ساتھ اس  لا چار خطے کا ذکر تک کہیں نظر نہیں آ رہا ۔ ہما رےوز یر ا علئ  مقا می ملا زمین کی  تنخو  ا ئیں کا ٹ کے  فنڈ ز ا کھٹا کر رہے  ہیں ۔تیرے جیسے  بہا در بیٹے تو صد یو ں میں پیدا ہو تے ہیں ۔ تیرے خدما ت  اور حوصلے کو دیکھ کر ہم یہ برملاکہہ سکتے ہیں

۔کہ” شیر کی ایک دن کی  زندگی  گیڈر کے سوسالہ ذندگی سے بہتر ہے” ۔تو نے تو اپنے ڈاکٹر برادری کی بھی لاج رکھ لی جو شروع دن سےاپنے حفاظتی کیٹس کا مطالبہ کر رہے تھے مگر ہم میں سے بہت سے نا عا قبت  اندیش وقت کی نزاکت کو سمجھ کر وہ جائز مطالبہ ماننے کی بحائے الٹا تیرے برادری کو ہی برا کہنے میں لگے ہو ئے  تھے ۔ اور  آپس میں نفرت کے بیج بونے میں لگے تھے۔تو نے ان سب کا منہ بند کردیا ہے جو ان جائز مطالبات کو ڈرامہ، یا غیر انسانی مطالبہ سمجھ رہے تھے۔آج شا ئد  ہمارے بے حس اربا ب اختیار کو احساس  ھو کہ تیرے جیسے کتنے  صحت  کے شعبے سے تعلق رکھنے والے وطن کے بیٹے اور بیٹیاں خطرے کے منہ میں ہیں ۔ چاھے ان کا تعلق عسکری فیلڈ سے ہو یا سول۔تیری قربانی  یہ چیخ چیخ کے پکار رہی ہے کہ اپنے ان انمو ل بیٹے بیٹیو ں کی حفا ظت کو یقینی بنا و تا کہ یہ بیٹے بیٹیاں اس مو زی مر ض سے تمہیں بچا سکے ۔ہمیں اپنے ان تمام ہیروز سے پیار ہے عقیدت ہے جو ملک کے لئے انسانیت کے لئے اور وطن کے لئے لڑ ر ہے ہیں۔اور اس جنگ میں اس جہاد میں میرے ہیرو اسامہ سب سے پہلے تو نے جان دے کر ابتدا کردی ہے ۔تونے ایک بیٹا اور قوم کا بیٹا بننے کا حق ادا کردیا ہے ۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا تمہا ری  قوم  اس  قربانی  کو سمجھ  پا ئیگی ۔ کیا تمہا ری برا دری کے لاکھو ں بیٹے بیٹیو ں  کی حفا ظت کے لئے کچھ کر پا ئے گی جو  تمہارے لئے نہیں کر پا ئی تھی ۔یا اسی طر ح مجر مانہ غفلت کا ارتکا ب کر تی رہے گی ۔ کیا یہ جرم نہیں کہ ہم نے اپنے اس عظیم بیٹے کو جان بوجھ کر موت کے سامنے بے سروسامان کھڑا کیا ۔کیا ہم نے اپنے فرائض کی ادائگی میں غفلت نہیں کی؟؟ کیا ہم نہیں جانتے تھے یہ راستہ کتنا  خطرناک  ہے ۔  یا جان  بو جھ کر حقیقت سے انکھیں چرالی۔

  دو دن سے جہاں اپ وینٹی لیٹر پر زندگی  کی جنگ لڑ رہے تھے وہاں اپ کا پو رہ  خطہ بھی امید اور نا امیدی کی جنگ اپکے ساتھ لڑ رہا تھا اپ تو شہید ہوکر سرخرو ہوگئے مگر اپکا وطن اور وطن والے اپکو کھو کر ہار گئے۔الوداع اے میرے وطن کے لعل اے میرے لوگوں کے مسیحا  اسمان تیرے لحد پر شبنم افشا نی  کرے۔ تیرے لہو سے تیرے قوم کو زندگی نصیب ہو ۔تو زندہ ہے ہر اس بندے کے دل میں جس نے تجھے ان دو تین دنوں میں اتنا جان لیا کہ شاید کسی اور کو سو سال زندہ ہونے کے باوجود نہ جان سکے۔اور ہاں ایک ماں ہونے کے نا طے میں یہ کہہ رہی یوں۔کہ تیرے جیسے بیٹے صدیوں  میں پیدا ہوتے ہیں جو اپنے وطن اور وطن والوں کا حق ادا کرتے ہیں چاھئے وہ ناعمری میں ہی کیوں نہ ہو۔لوگ سو سال جی کر بھی اپنے لوگوں کے دلوں میں وہ مقام پیدا نہیں کرتے جو تو نے محض 26 سال کے قلیل مدت میں کیا ۔میرے وطن کے بیٹے تجھے اور تیری خدمت کو سلام

میں جانتی ہوں  تیرے  والدین کے لئے یہ دکھ برداشت کرنا بہت ہی مشکل ہوگا۔اور اس ناگہانی دکھ سے جو وہ اس وقت گزر رہے ہونگے ہم شاید اس کا  تصور بھی نہیں کرسکتے  مگر میں یہ ان تمام سے کہتی ہوں اسامہ سب کا بیٹا تھاہے اور ہمیشہ رہے گا ۔اللہّ پاک میرے ہیرو کے والدین ،گھر والوں اور دوست و اجباب کو یہ دکھ برداشت کرنے کا حوصلہ و طاقت عطا فرمائے اور میرے بہادر بیٹے کی روح کو دائمی سکون نصیب کریں اور انھیں شہیدوں کے درمیاں جنت الفردوس میں عالیٰ تر ین مقام عطا فرمائے امین یا رب العالیمن ۔الوداع میرے وطن کے بیٹے ۔الوداع میرے قوم کے ہیرو الوداع ۔

آ خر میں اپنے اس بے ربط تحر یر کے لئے ان سب سے معا فی چا ہتی جن کو اردو اور گرا مر کی پڑ ی ہو تی ہے ۔  آج میرے جذبا ت کسی گرا مر  کے اصول کی پیرو ی کر نے سے قا صر  ہیں ۔ الللہ آ پ سب کا حا می و نا صر ہو۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button