فطرت کے آغوش میں چند لمحے
تحریر: حسین علی شاہ، غذر
مجھے ہمیشہ سے ہی اونچی جگہوں پہ جانا پسند ہے۔ شوروغل سے دور وہ جگہیں جو ابھی تک انسان کے ہاتھوں توڑ پھوڑ سے محفوظ ہیں۔ ایسی جگہیں میرے لیے انتہائی اہم رہی ہیں اور وہاں جا کے دل کو ایک عجیب سا سکون مل جاتا ہے۔ ایسی جگہیں ایک خاص کشش رکھتی ہیں۔
ہر چیز کو قدرت نے اپنے انداز میں تخلیق کیا ہے ۔ یہ اس لیے بھی پُرکشش ہیں کہ انہیں انسان نے اپنی ملکیت ظاہر کر کے اس سے اپنی مرضی سی کاٹنا شروع نہیں کیا ہے۔ جب بھی ایسی جگہ جانا ہوتا ہے تو دل کرتا ہے کہ بس یہی کا ہوکے یہی بسیرا کرلیا جائے۔ لیکن وہ انسان بھی کیا جو مجموعے کے بغیر، بغض، حسد، عداوت، غم و غصے کے بغیر زندہ رہ سکے۔ اس لیے خواہشوں کےاوپر نفس کا غالب آنا انسان کی فطرت ہے۔ قدرت کے نظاروں میں ہی بسنا، ہر چیز جو انسان کے ہاتھوں محفوظ ہے قریب سے دیکھنے کی جستجو اپنی خواہشوں کی پوٹلی میں رکھ کر کبھی کبھی تھوڑا فاصلہ طے کرکے انسانی آبادی سے کافی دور نکل جاتا ہوں۔
آج بھی ہوم قرنطین سے اکتایا ہوا گاہکوچ بالا سے اوپر پہاڑوں کے دامن کو چھونے کی خواہش لیے نکل پڑا۔ نہ راستہ مشکل تھا اور نہ تنہا چلنے کی بوریت۔ ایسے سفر میں اکثر دوستوں کا ساتھ ہو تو اور بھی مزہ آتا ہے, مگر طبیعت میں ایسی غنودگی چھائی تھی کہ دوستوں کے ساتھ چلنا ممکن نہیں تھا۔ اس لئے اپنی بوجھل سانسوں کو سمیٹے کچھ فاصلہ طے تو کر لیا مگر جب سانسوں کابوجھ زیادہ بڑھنے لگا تو بھائی کے موٹرسائکل کی سواری کو خود کے لئے ضروری سمجھا اور یوں اپنی جستجو کے مقام تک بائیک کے سہارے نکل پڑا۔ گاہکوچ بالا کے آخری گھر کے گزر جانے کے بعد موٹر بائیک کو چھٹی ملی اور میں اپنی سانسوں کو سنبھالے آگے بڑھنے لگا۔ ہر دوسرا قدم پہلے سے زیادہ تھکا دینے والا تھا کیونکہ میں اونچائی کی طرف بڑھ رہا تھا اس لئے اسی راستے کو زگزیگ کی شکل میں طے کرنے لگا۔
میں اپنے خیالوں میں گُم اس وقت چونک گیا جب چکورکی آواز کانوں سے ٹکرائی۔ چاروں طرف جنگل اور ہر طرف دلفریب منظر۔ چڑیوں کا چہچہانا, ہر طرف چکور کی دلفریب آواز دل کو سکون دینے لگی۔ کچھ دیر کو ٹھہر جاتا پھر اوپر چل پڑتا۔ گوکہ یہ جگہ اتنی دور نہیں پھر بھی موسم کے لحاظ سے کوئی ۱۵ دن کا فرق ہے۔ پھول کھلے ہیں زمین کئی ماہ کی ٹھنڈ کو جھیل کر ابھی ہریالی کی طرف بڑھنے لگی ہے۔ گاوں کے اندر کچھ لوگ کھیتی باڑی میں مصروف ہیں۔ تو کچھ جگہوں میں خواتین کھیتوں سے چھوٹے چھوٹے پتھر ہٹا کے کھیت کو صاف کررہی تھی جس سے ہل جوتنے کے لئے آسانی ہوتی ہے۔ میں اپنے آخری پڑاؤ سے پہلے رک گیا۔ کچھ فاصلے پر برفیلا پہاڑ تھا لیکن وہاں نہ جا سکا۔ مگر جہاں میں پہنچا تھا وہی پہ میں نے رکنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ میری سانسیں مجھ سے منت سماجت کررہی تھی کہ بس اور بس اور شام سے پہلے آشیانہ بھی پہنچنا تھا۔ میں گاہکوچ بالا کے آخری حصے میں رک کر سستانے لگا۔ تیز سانسیں تھم گئیں تو میں نے اپنا موبائل نکالا اور کچھ بے ہنگم بے ربط تصویریں لینا شروع کردیا۔ گوکہ میں کوئی فوٹوگرافر تو نہیں مگر پھر بھی ایسی جگہوں پہ موبائل کی بیٹری جلانے میں مزہ تو آتا ہی ہے۔
خود کی سیلفیاں خود کی تصویریں اور بہت دیر تک بیٹھے بیٹھے جب شہر کا نظارہ کیا تو اندازہ ہوا جہاں جہاں تک انسان کی رسائی ہوئی ہے وہاں وہاں تک انسان قدرت کے حسن کو بگاڑتا گیا ہے اور کئی شہر بساتا گیا ہے اور آج کرونا جیسی بیماری نے پھر سے انسان کو محدود کردیا۔ بہت دیر بعد سانسوں کو سنبھال کے قدرت کے شاہکار کا نظارہ کیا۔ بے خوف و خطر اڑنے والے پرندے مجھے دیکھ کر شور مچانے لگے جیسے کہہ رہے ہوں کہ یہ ایک انسان ہے اس سے بچو اور اس سے دور بھاگو۔ خیر میں کچھ دیر تازہ ہوا کے جھونکوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے اپنے نفس انسانی کی بھاری بھر کم خواہشات کی تکمیل کے لیے انسان کی بنائی بناوٹی دنیا میں واپس لوٹنے لگا اور مڑتے ہوئے اس جگہ کو دیکھنے لگا اور سوچنے لگا کہ کچھ سالوں بعد یہ جگہ دیکھنے کو ایسی نہیں ملے گی۔