Uncategorizedکالمز

وبا کے دن، انٹرنیٹ اور گلگت بلتستان

تحریر: صاحب مدد شاہ
عالمی وبا کرونا وائرس کی وجہ سے گلگت بلتستان میں لاک ڈاؤن کو تقریباً ایک مہینہ سے بھی زیادہ کا عرصہ ہوا ہے۔  اس لاک ڈاؤن میں  کھبی نرمی ہوتی ہے کھبی انتظامیہ کا رویہ کافی سخت ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے ، گوکہ گلگت بلتستان حکومت اور انتظامیہ کی طرف سے اب تک جو بھی حکمت عملی اپنائی گئی ہے وہ  یقیناً  داد کے مستحق ہے۔ شروع شروع میں خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا کہ گلگت بلتستان  کرونا سے زیادہ متاثر ہوگا، کیونکہ جس طرح زائرین، اندرون ملک، اور بیرونی ملکوں  سے لوگ بغیر ٹیسٹ کئے گلگت بلتستان میں داخل ہو رہے تھے، اور یہاں کے محدود وسائل سے ممکن نہیں تھا کہ  اس وبا  پر آسانی سے قابو پایا جاسکے گا۔ الحمدللہ آج  پہلے کے نسب نیے کیسسز میں کافی حد تک کمی آئی ہے اور متاثرہ لوگ بھی کافی تعداد میں مکمل صحتیاب ہو کر اپنے گھروں کو چلے گئے ہیں۔
مگر ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے ہیں کہ گلگت بلتستان اب مکمل طور پر کرونا وائرس سے نجات پا چکا ہے اور کچھ ہی  دنوں میں معاملات زندگی معمول پر آئیں گی۔  سکول ، کالج  اور یونیورسٹی کھل گی، کاروبار کھلے گے، لوگ پہلے کی طرح گھومیں پھریں گے، اندرون ،بیرون ملک لوگوں کا آنا جانا ہوگا ، مگر یہ آنے والے کچھ مہینوں میں  ممکن دیکھائی  نہیں دیتا  ہے۔
 ہمارے ہمسایہ ملکوں میں یہ وائرس بہت پہلے وارد ہوا تھا مگر ان کے معمالات اب تک معمول پر نہیں آئے ہیں، پہلے کی نسبت سخت سے سخت اقدامات کیے جارہے ہیں، کسی بھی ملک کی طرف سے سکول، کالج، یونیورسٹی یا دوسرے کاروبار کھلونے کا دعویٰ نہیں کیا گیا ہے۔ ہاں البتہ کچھ کارخانہ اور کاروبار کو محدود کر کے پاکستان سمیت کافی ممالک میں کھولا جا چکا ہے تاکہ عوام کو ان دنوں میں خوراک کا بحران کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
پاکستان میں لاک ڈاؤن کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم پاکستان ، چاروں وزرائے اعلیٰ سمیت وزیر اعظم آزاد کشمیر اور وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے عوام کو یقین دلایا تھا اس لاک ڈاؤن میں عوام اپنے گھروں میں رہیں، حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ بھرپور تعاون کرے ، باقی حکومت ہر ضروریات زندگی پورا کرنے کی کوشش کریں گی اور دہاڈی دار طبقے کو حکومت کرونا ریلیف فند سے امداد دینے کا وعدہ بھی کیا گیا تھا وہ تقریباً وعدہ وفا ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ احساس پروگرام اور کرونا ریلیف پیکیج ضرورت مندوں میں تقسیم کیا جارہا ہے جو حکومت کی طرف سے ایک احسن اقدام ہے۔
خوش قسمتی سے پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور نوجوان کو قوم کا  سرمایہ سمجھا جاتا ہے یقیناً قوم کی ترقی کا انحصار ایک صحت مند اور پڑھا لکھا نوجوان سے ہے۔
 لاک ڈاؤن کے دنوں میں پاکستان کے مختلف سکولز  ، کالجز اور یونیورسٹیوں نے ان لائن درسِ وتدریس کا آغاز کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس کو عوامی حلقوں کی طرف سے بھی سراہا گیا تھا ، کم ازکم بچے گھر بیٹھے تعلم جاری کر سکے گے ۔ یہ فیصلہ ان بچوں کے لیے موثر ثابت ہوسکتا ہے جہاں انٹرنیٹ اچھی حالت میں دستیاب ہے ،  ان علاقوں کے بچوں پر کیا گزرے گی جن کو 4 جی کا تصور صرف خوابوں میں ہو اور  جہاں 3 جی انٹرنیٹ 2 جی کی اسپیڈ سے بھی نہ چلے؟  گلگت بلتستان کے طلبہ اس جدید  دور میں بھی انٹرنیٹ جیسی سہولیات سے  محروم ہیں، براہ نام ایس سی او کی طرف سے گلگت بلتستان کے مختلف اضلاع میں 3 جی سروس کا آغاز کیا گیا ہے  جو 2 جی کی سپیڈ سے بھی نہیں چلتا ہے۔
اس ناقص انٹرنیٹ کی وجہ سے لوگوں کو بینظیر انکم سپورٹ پروگرام اور وزیراعظم احساس پروگرام کے پیسے وصول کرنے میں بھی پریشانی ہوتی ہے ، ضلع غزر تحصیل اشکومن کے مختلف  علاقوں سے  عوام چٹورکھنڈ اور گاہکوچ میں خوار ہوتے ہیں، چار سے پانچ گھنٹوں کا مسافت طے کر کے بعد بھی پیسے وصول کرنے میں ناکامی ہوتی ہے، کھبی لنگ ڈاؤن ہوتا ہے کھبی سروس معطل ہونے کیوجہ سے دوسرے دن اتنی ہی مسافت طے کرنے کے بعد  دوبارہ جانا پڑتا ہے۔ اشکومن پراپر کے کچھ لوگوں کو میں زاتی طور پر جانتا ہوں جو ناقص انٹرنیٹ کا شکایت کرتے ہوئے شکوہ کر رہے تھے کہ وہ  خواتین کو لیکر تین دنوں سے گاہکوچ اور چٹورکھنڈ کا چکر لگاتے ہوئے  خوار ہوئے ہیں۔
 ہمیں ادراک  ہے گلگت بلتستان کے غیر معمولی حالات اور سخت موسم کی وجہ سے تکنیکی خرابیاں ہوسکتی ہیں مگر دنیا کے بہت سارے ممالک کا موسم گلگت بلتستان سے بھی کافی سخت اور مشکل حالات میں حکومتوں نے عوام کو جدید سہولیات سے آراستہ کیا ہوا ہے۔ اس دور میں لوگوں کو انٹرنیٹ سے محروم رکھنا یقیناً پھتر کے دور میں دھکیلنے کے مترادف ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button