کالمز

اس بار غیرت کہاں مر گئی!

ازقلم: حیدر سلطان ایڈووکیٹ

کچھ عرصہ قبل جب گلگت بلتستان اسمبلی سے لاء اینڈ پرا سیکیوشن ڈیپارمنٹ سے متعلق ایک بل پاس ہوا جو کہ بعد ازاں چچا بھتیجا بل کے نام سے مشہور ہوا ۔ بل جب متعلقہ کمیٹی سے پاس ہوکر اسمبلی میں آیا تو ساتھ ہی کچھ ممبران اسمبلی کو گلگت بلتستان چیف کورٹ کی جانب سے ایک  نوٹس بھی موصول ہوا جس میں انہیں زاتی حیثیت میں  عدالت عالیہ کے رو برو پیش ہوکر مزکورہ (چچا بھتیجا) بل کے بابت جواب جمع کرانے کا حکم تھا ۔ کہانی کچھ یوں تھی کہ لاء اینڈ پراسیکیوشن ڈپارٹمنٹ میں کنٹرکٹ ملازمین جو کہ تمام کے تمام موجودہ اسمبلی ممبران کے  رشتہ داران میں سے تھے  کو ریگولر کرنے کیلئے اسمبلی ممبران پھرتیاں دکھا رہے تھے حالانکہ یہی اسامیاں عدالت عظمی کے حکم سے ایف پی ایس سی بجھوائے گئے تھے ۔ رشتہ داروں کو نوازنے کیلئے عدالتی احکامات کو روندھا گیا تو عدالت عالیہ نے چند اسمبلی ممبرن کو زاتی حیثیت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا ۔ حکم نامہ ممبران اسمبلی کے پاس جب پہنچا تو موجودہ وزیر قانون صاحب نے اسمبلی فلور پہ کھڑے ہوکر عدالتی نوٹس کا زکر کرتے ہوئے فرمایا کہ کیا ہم اپنے اختیارات کا استعمال بھی کسی کی ڈکٹیشن پہ کریں گے ؟کیا کوئی ادارہ ہمیں ‘قانون سوزی’ ( معذرت کے ساتھ ) قانون سازی کرنے سے روک سکتا ہے؟ موصوف نے  غیرت سے بھرپور اور اسمبلی کے اختیارات کے اوپر جو جامع  تقریر گوش گزار فرمائی نے  ایسا اثر کیا کہ کچھ ممبران اسمبلی نے استعفے دینے کی  بھی بات کی ۔یوں اسی سیشن میں رشتہ داری بل کثرت رائے سے پاس ہوا ۔

موجودہ حالات میں دنیا کے دیگر ممالک کی طرح مملکت پاکستان میں بھی کورونا سے جنگ لڑرہا ہے۔پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی لاک ڈاون کا سلسلہ جاری ہے ۔ لاک ڈاون کے حوالے سے تمام تر فیصلے اپیکس کمیٹی میں ہوتے ہیں ۔ ہر صوبے کا سی ایم اور وزیر اطلاعات سمیت وفاقی نمائندے اور ملیٹری اسٹبلیشمنٹ ایپکس کمیٹی کا حصہ ہیں ۔ لاک ڈاون کو جاری رکھنے یا نرمی کرنے بابت تمام تر فیصلے اس کمیٹی کے مرہون منت ہیں ۔

گزشتہ دنوں گلگت بلتستان کی سیاست میں ایک طوفانی کیفیت اس وقت دیکھنے کو ملی جب وزیر تعمیرات ڈاکٹر اقبال نے اپنے عہدے سے استعفی دیتے ہوئے بیوروکریسی کے اوپر الزامات کے پہاڑ کھڑے کردیئے ۔ انہوں نے کہا کہ منتخب نمائندوں کی جانب سے  کئے گئے فیصلے کو ایک سکریٹری صاحب منسوخ کرتے ہیں ۔ انہیں یہ حق کس نے دیا ۔ ایسے فیصلوں کا دائرہ اختیار ہمیں حاصل ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک دن پہلے جب مزکورہ سکریٹری سے ان کے آفس میں اس حوالے بات چیت ہوئی تو اس وقت وزیر قانون اور وزیر اطلاعات بھی ساتھ تھے ۔ بات لڑائی جھگڑے تک پہنچ گئی اور بعد ازاں ہم وہاں سے نکل کر کسی اور جگہ اس بابت بات کررہے تھے کہ شمس میر صاحب نے تھوڑا فاصلہ رکھتے ہوئے کسی سے فون پہ بات کی ۔ فون ڈراپ کرنے کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہوکر فرمانے لگے کہ سی ایم صاحب کی کال تھی انہوں نے کہا ہے کہ پریس کانفرنس کرکے کمیٹی کے کئے گئے فیصلے کا اعلان کیا جائے ۔ پریس کانفرنس کی گئی ۔وزیر قانون اور وزیر اطلاعات بھی ساتھ تھے ۔ کمیٹی کا فیصلہ سنایا گیا ۔اور رات گئے ایک اور نوٹیفکیشن سوشل میڈیا پہ گردش کرتے دکھائی دیا جس میں کمیٹی کے لاک ڈاون میں نرمی سے متعلق نوٹیفکیشن کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا زکر تھا ۔ یہی وہ ساری صورتحال تھی جس کے پیش نظر ڈاکٹر صاحب نے ایک سکریٹری پہ الزامات کی بمباری کی اور ایک لمبا چارج شیٹ خود اپنی کابینہ اور بیوروکریسی پہ داغتےہوئے  مستعفی ہونے کا اعلان کیا ۔

اس ساری صورتحال سے قطع نظر تعجب اس بات پہ ہے کہ جب لاک ڈاون سے متعلق تمام تر فیصلے ایپکس کمیٹی میں ہونا قرار پایا تھا تو صوبائی کمیٹی کو پنجہ آزمائی کرنے کا خیال کیوں ستانے لگا ۔ حالانکہ خود سی ایم اور وزیر اطلاعات صاحب ایپکس کمیٹی کے ممبران ہیں ۔ باوجود اسکے اگر صوبائی کابینہ کو ایپکس کمیٹی کے طریقہ کار و اختیارات کا پتہ نہیں تھا تو یہ انتہائی شرم کی بات ہے اور اگر پتہ ہونے کے باوجود یہ حالات پیدا کرائے گئے ہیں تو یہ صوبائی کابینہ  کا اپنے دور کا سب سے بڑا ڈرامہ ہے ۔ جو کہ انہوں نے  خود اپنے ساتھ کھیل کر خود کو ہی عوام کے سامنے بے آبرو کردیا ۔ اس ڈرامے کے پس پردہ کیا محرکات ہو سکتے ہیں یہ وقت بتادے گا مگر جس طرح سے یہ کھیل کھیلا گیا اس سے تمام ممبران اسمبلی کی عزت کا جنازہ سر بازار تار تار ہو کے رہ گیا جسکا ازالہ شاید کسی صورت ممکن نہ ہو ۔

کوئی بھی باشعور شہری کبھی نہیں چاہے گا کہ بیوروکریسی اور برسر اقتدار سیاسی قیادت آپس میں گتھم گتھا ہوں ۔ ایسی صورتحال کا نقصان ہمیشہ عام آدمی کو ہی ہوتا ہے ۔ جب تک یہ دونوں پیلرز شفاف انداز میں ایک دوسرے کے ساتھ نہ چلیں ترقی کا خواب ادھورا رہ جاتا ہے ۔ گلگت بلتستان کی موجودہ حکومت کے تقریبا 5 سال کا دورانیہ پورا ہونے کو ہے ۔ ان 5 سالوں میں ایک بات  کی نشاندہی گئی کہ نون لیگی حکومت بلخصوص سی ایم کا ایک مخصوص ٹولہ اپنے من پسند بیوروکریٹس کو ساتھ ملاکر کیا کیا گل کھلاتا رہا ۔ جس بیوکریٹ نے ان کے من پسند کام کرنے سے انکار کیا اسے کھڈے لائن لگایا گیا ۔ اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا ۔

ہر ڈرامے کا کوئی نہ کوئی سبق آموز ڈراپ سین  ہوتا ہے ۔ جس طرح سے حفیظ سرکار نے ڈاکٹر صاحب کو قربانی کا بکرہ بناتے ہوئے عوام کی ہمدردیاں سمیٹنے کی کوشش کی اس کا ڈراپ سین صرف چند گھنٹوں کے اندر ہی اس وقت سامنے آیا جب ڈاکٹر صاحب کیساتھ ملکر پریس کانفرنس میں لاک ڈاون میں نرمی کرنے کا اعلان کرنے والے دو کمیٹی ممبران پہ تھوڑی سی سختی ہوئی تو وہ برداشت نہ کر پائے  اور اپنے ہی فیصلے کے برعکس پریس ریلیز جاری کر گئے ۔ ان دونوں صاحبان کی غیرت والی رگ شاید کام کرنے سے قاصر ہوگئی تھی یا پھر انہیں اپنی اوقات کا پورا پورا اندازہ ہوچلا تھا ۔ وگرنہ جو صاحبان صبح شام اسمبلی کی خودمختاری کے گن گاتے نہیں تھکتے تھے وہ چند ہی گھنٹوں کے اندر ایسے ٹھس ہوگئے کہ مذاق بن گئے ۔ مشہور زمانہ چچا بھتیجا و رشتہ داری بل پہ کورٹ کا نوٹس ملنے پہ اسمبلی کی خود مختاری کا ڈرامہ رچاکر آگ بھگولہ ہونے والوں نے اپنے قول و فعل سے اسمبلی کی خود مختاری کا جنازہ نکال دیا۔ انہیں چاہئے تھا کہ اس ڈرامے کو تھوڑا اور طول دیتے ہوئے ڈاکٹر سمیت پریس کانفرنس میں موجود مزید دو اراکین بھی غیرت والا رول پلے کرتے ۔ شاید کے ان کا ایسا کرنے سے عوام کو سچ اور جھوٹ میں فرق کرنے میں تھوڑی بہت دشواری ہوتی ۔ مگر ان صاحبان نے غیرت والے سین کے مقابلے میں کورونا کے بہانے ماسک پہن کر منہ چھپانے کو ترجیح دی ۔ شاید کہ ان صاحبان نے قسم کھائی ہو کہ عزت جائے مگر دو مہینے کسی صورت نہ جائیں  ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button