کالمز

"گیارہ کُلی بارہ میٹ” !

ڈاکٹر عاطف علی 

یہ ایک مشہور جملہ ہے جو میرے آبائی گاوں میں اس وقت استعمال ہوتا ہے جب ورک فورس کم ہو اور اس کے اوپر انچارج بننے کیلئے زیادہ لوگ آجائیں اور ہر کوئی اپنا اپنا راگ الاپے اور نتیجتاٗ کام کا بیڑہ غرق ہو جائے. عموماٗ کلیہ یہ ہوتا ہے کہ آٹھ دس کُلی یا ورک فورس کے اوپر ایک آدمی "میٹ” مقرر کیا جاتا ہے جو ان کو موبلائز کرتا ہے اور انتظامی اور لاجسٹک معاملات دیکھا کرتا ہے. اب اگر انچارج چار ہوں اور کلُی ایک, تو خود سوچیں اس کام کا کیا انجام ہوگا ؟

گلگت بلتستان میں یہ معاملہ خصوصی طور پر شعبہ صحت اور خاص کر ڈاکٹروں پر فٹ آتا ہے. بادی النظر میں دیکھا جائے تو زبردستی "انچارج” بننے کی نفسیات میں عموماٗ انا, ذاتی مفاد یا غیر جمہوری رویوں پر مبنی نفسیات کا بہت عمل دخل ہوتا ہے . اور یہ بات تو ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ بدقسمتی سے جتنی انا ڈاکٹروں میں پائی جاتی ہے وہ شاید ہی کسی اور شعبے میں ہو . ذرا کہیں کسی سے اختلاف ہوْا نہیں ,اور ڈیڑھ انچ کی الگ مسجد بنا کر الگ ہوگئے ,اور کبھی کبھی تو بغیر کسی اختلاف کے ہی "دل پشوری” کیلئے ہی اپنا ٹھیلہ الگ کر لیا .یہ غیر جمہوری روئیے ہی ہیں کہ آپ کو ایک شعبے کے اندر ہی ایک جیسے ایجنڈے کے ساتھ ڈیڑھ درجن تنظیمیں ملیں گی. یاد رہے , تاریخی طور پر تنظیمیں دو طریقوں سے بنتی رہی ہیں.

1- طویل عرصے تک کسی پرت میں پلنے والی فرسٹریشن , غیر شدہ مسائل اور مایوسی کے ردعمل میں.

2- حکومتی ایما پہ , ایک ڈمی کے طور پر تاکہ فرسٹریشن میں پلنے والی پرت کی انرجیز diffuse کرنے کیلئے. یا ذاتی مفادات کی لڑائیوں میں.

گلگت بلتستان ,( جس کا نام ہی ابھی دس گیارہ سال پہلے رکھا گیا ہے ) وہ بدقسمت علاقہ ہے جو جغرافیائی اعتبار سے مشکل ہونے کے ساتھ , سیاسی اور سماجی طور پر بھی بہت پیچھے رہ گیا ہے. ان حالات میں شعبہ صحت میں اور اس میں کام کرنے والے افراد کے مسائل کا ایک انبار ہے. 1970 کی دہائی تک تو براہ راست FCR نافذ تھا , اس کے بعد طویل مارشل لا میں یہ تصور ہی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اجتماعی مسائل کے اوپر مل کے جدوجہد کی جائے. PMA کی بنیاد بھی 1990 کی دہائی میں رکھی گئی , مگر قلیل تعداد میں ڈاکٹروں کی موجودگی اور ہر کسی کا اپنے ذاتی تعلقات کا استعمال کرکے کام نکلوانے کے کلچر میں یہ سوچا ہی نہیں جا سکتا تھا کہ کسی اجتماعی مدعے پر , پالیسی بنانے کے حوالے سے کوئی بات کی جائے.

2000 کے عشرے میں پی ایم اے کا دوبارہ ابھار ہوا سروس سٹریکچر کے اجتماعی مسلے پر بلاآخر ایک اجتماعی جدوجہد کی گئی راقم کے والد جو کہ خود بھی ڈاکٹر ہیں , اس تنظیم کے صدر رہے اور ایک صحت مند سلسلہ چل نکلا جس میں ہر دو سال بعد باقاعدہ پورے گلگت بلتستان کے ڈاکٹروں کی رائے سے فورم کا قیام عمل میں لایا جاتا تھا. بعد میں آنے والے صدور کے دور میں بھی کئی معاملات میں کامیابیاں ملی اور کئی مسائل کھٹائی کا شکار رہے.

سال 2011 کے بعد گلگت بلتستان کے شعبے میں نئے مسائل جنم لینے لگے , وہ تھے بڑھتی ہوئی آبادی کے حساب سے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی سیٹوں تعداد کا نہ بڑھنا , اس مسلے کے instant حل کیلئے "کنٹریکٹ کلچر” کا آغاذ ہوا اور ہر گزرتے سال کے ساتھ ان غیر مستقل ڈاکٹروں کی تعداد بڑھتی چلی گئی. سال 2016 میں جب راقم نے گلگت بلتستان میں ملازمت شروع کی تو اس وقت یہی مسائل سرفہرست تھے , کنٹریکٹ کی مستقلی , پوسٹ گریجویشن ٹریننگ کے ایشوز , ہسپتالوں کی اپ گریڈیشن اور دیگر مسائل. تب کنٹریکٹ ڈاکٹروں کی تعداد 25 تھی , ایم او , ڈینٹل اور کنسلٹنٹس کو ملا کے. تب ہمیں بھی بہت temptation دی گئی کہ الگ تنظیم کا قیام عمل میں لایا جائے YDA کے نام سے . مگر چونکہ اس وقت جو لوگ فرنٹ پہ تھے وہ مسائل کا حل چاہتے تھے , نہ کہ اپنے نام کے ساتھ عہدے لکھوانا چاہتے تھے , تو پوری نیک نیتی سے PMA کو سپورٹ کیا , ان کے الیکشن میں بھی حصہ لیا , مگر اپنی انفرادی سرگرمیوں کی کوآرڈینشن کیلئے "کنٹریکٹ ڈاکٹرز کمیٹی ” CDC کا قیام عمل میں لایا. راقم اس کے spokes person رہے , اور اخبارات سے لیکر ٹی وی چینلز , اور سیکٹریٹ سے لیکر عدالتوں تک CDC کے نام سے نوجوان ڈاکٹرز چلتے رہے. مگر کبھی خود کو الگ تنظیم نہیں کہا.

2018 جون میں پی ایم اے کا منتخب شدہ پینل صدر ڈاکٹر محمد حنیف صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد تحلیل ہو چکا تھا اور ہم ینگ ڈاکٹرز جو ایک طویل جدوجہد اور احتجاج کے بعد ْاپریل 2018 میں حکومت سے مذاکرات کے بعد منظور ہونے والے ریگولرائشیشن ایکٹ کی اسمبلی سے منظوری اور عملدرآمد کرانے میں بیوروکریسی کی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے تھے , بڑی شدت سے انتظار کر رہے تھے کہ نئے الیکشن ہوں اور پی ایم اے کا نیا فورم اس معاملے میں مدد کرے , مگر چھ مہینے کے انتظار کے بعد اور بار بار سینئر ڈاکٹروں سے اس حوالے سے درخواست کرنے کے بعد کہ الیکشن کرائے جائیں اور جب مسلسل تاخیر ہوتی گئی تو انہی سینئیرز کے مشورے اور تائید سے کہ” آپ اپنی الگ تنظیم بنا لیں” , ہم نے وائی ڈی اے کے قیام کا فیصلہ کیا. تب مشورہ یہی دیا گیا تھا کہ نوٹیفکیشن کیلئے شاید انتہائی حد تک جانا پڑے , معاملات confrontation کی طرف جائیں گے اور بہتر ہوگا آپ ایک رجسٹرڈ ینگ ڈاکٹرز کی تنظیم کے طور پر آگے بڑھیں اور سینیئر کیڈر کی سپورٹ ہر طرح سے ساتھ رہے گی. بلتستان میں پی ایم اے بلتستان کا قیام ہوا , ڈاکٹر آصف کی قیادت میں اور گلگت ریجن میں تمام سابقہ پینلز کے مشترکہ فیصلے پر ڈاکٹر اقبال کو عبوری طور پر صدر بنایا گیا.

جنوری 2019 میں ہم نے گلگت میں YDA کی بنیاد ڈالی , ڈاکٹر محبوب الحق بلامقابلہ صدر منتخب ہوئے اور انھوں نے ایک سال کے اندر اندر ڈاکٹروں کی طرف سے دیا گیا مینڈیٹ شاندار طریقے سے پورا کیا. یہ ستر دہائیوں کے بعد پہلی دفعہ ایک تحریک کے دوران ابھرنے والی ڈاکٹروں کی تنظیم تھی اور جن لوگوں کو مذاحمت کی جدوجہد اور یونین پولیٹکس کی تاریخ اور سائنس کا معمولی سا بھی فہم ہے وہ جانتے ہیں کہ تحریک کے دوران بننے والی تنظیم اور ڈرائنگ روم میں بننے والی تنظیم میں کیا فرق ہوتا ہے.

ڈاکٹر محبوب کے صدارت چھوڑنے کے بعد نئے الیکشنز کا اعلان ہوا اور دو امیدوار سامنے آئے ڈاکٹر اعجاز ایوب اور ڈاکٹر سہیل , اسی دوران کرونا وبا کے پیش نظر اور ڈاکٹر اسامہ شہید کی شہادت کے بعد PPEs کی عدم دستیابی اور کرونا وبا سے نمٹنے والے چیلینجز کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں امیدواروں نے مل کر وائی ڈی اے کی نئی کابینہ تشکیل دی.

اس سے کچھ عرصہ پہلے پی ایم اے کے الیکشن کا اعلان ہوا اور ڈاکٹر اقبال کے مقابلے میں کسی امیدوار نے سامنے آنے کا بیڑہ نہیں اٹھایا . پی ایم اے بلتستان ڈاکٹر آصف کی قیادت میں 2018 کے بعد ہی متحرک ہوگئی تھی اور ابھی تک ہے.

یہ تو تھا پس منظر , کمزور یا مظبوط , کسی نہ کسی صورت میں پی ایم اے اور وائی ڈی اے کے دو رجسٹرڈ فورم گلگت بلتستان کے ڈاکٹروں کیلئے موجود تھے اور ہیں. مزے کی بات یہ ہے کہ دونوں فورمز کی قیادت بھی کنسلٹنٹ کیڈر کے لوگ کر رہے ہیں. زمینی حقائق دیکھے جائیں تو اس وقت سب سے بڑا مسلہ افرادی قوت کی کمی اور جونیئر ڈاکٹرز کا رہا ہے. وائی ڈی اے کی ریگولرائزیشن والی تحریک کے نتیجے میں کئی کنسلٹنٹس بھی ریگولر ہوئے ہیں , بلکہ میں تو اس بات سے بھی پردو اٹھا دوں کہ اسمبلی سے بل منظور ہونے کے بعد اصل مسلہ ہی کنسلٹنٹ کیڈر کی سیٹوں اور سینیارٹی کا تھا اور تاخیر بھی اسی مسلے کو سلجھاتے سلجھاتے ہوئی . صدر وائی ڈی اے ڈاکٹر محبوب کو بارہا بیوروکریسی کی طرف سے یہ کہا گیا کہ آپ فی الحال میڈیکل آفیسرز اور ڈینٹل کیڈر کا نوٹیفیکیشن لے لیں , کنسلٹنٹ کیڈر کے سینیارٹی کے مسلے سلجھاتے ہوئے دیر ہو جائے گی , مگر انہوں نے اصولی موقف اپنایا کہ "ریگولر ہونگے تو سب ایک ساتھ ہونگے چاہے جتنا ٹائم لگ جائے”.

اس سب کے باوجود اب یہ کہنا کہ کنسلٹنٹس کو ایک الگ تنظیم درکار ہے ” YCA” کے نام سے انتہائی بچگانہ بات لگتی ہے . جب پہلے سے موجود دونوں تنظیموں میں آپ کے اپنے پیٹی بند بھائی موجود ہیں. سونے پہ سہاگہ تو بلتستان میں ہوا ہے کہ ڈاکٹر آصف پی ایم اے بلتستان کے صدر بھی ہیں اور YCA کے چیرمین بھی بن بیٹھے ہیں.

پنجاب میں ڈاکٹر حامد بٹ صاحب کی قیادت میں YCA کے قیام کی الگ ہسٹری ہے , سال 2015 سے چلنے والے مختلف دھڑوں کے مسلسل ٹکراو , اور YDA پنجاب میں مبینہ طور پر بٹ صاحب یا کسی اور کنسلٹنٹ کی مداخلت کو روکنے کے بعد شاید یہ جواز بنتا بھی ہو کہ اتنی کثیر تعداد میں کنسلٹنٹس آرہے ہیں , ان کی ایک الگ تنظیم ہونی چاہئے , مگر گلگت بلتستان میں جہاں ٹوٹل کنسلٹنٹس کی تعداد 60 سے اوپر نہیں ہے , اور ینگ کنسلٹنٹس 15, 20 کے قریب ہونگے , وہاں پر اس ڈیڑھ انچ کی مسجد بنانے کا کیا جواز بنتا ہے؟

یہاں میں مجبور ہو کے یہ کڑوی بات کہوں گا کہ سروسز ہسپتال میں اٹھنے والے جونئیر ڈاکٹرز اور کنسلٹنٹس کے اختلافات کو پورے پاکستان لیول تک پھیلایا جارہا ہے .میرے YDA اور YCA کی قیادتوں کے ساتھ بڑے پرانے اور دوستانہ تعلقات رہے ہیں اور اس پورے معاملے کی پیش رفت کے دوران بھی ان تک مشترکہ دوستوں کے ذریعے پیغام بھی پہنچایا گیا کہ گلگت بلتستان کے زمینی حالات بہت مختلف اور پیچیدہ ہیں , وہاں یہ نیا کٹا نہ کھولیں, سالوں کے محنت کے بعد ڈاکٹروں کے جمہوری طریقے سے فورمز وجود میں آئے ہیں , ان کی ہمت بڑھائیں , ابھی کرونا اور PPEs کے مسلے سے نمٹنے کیلئے حکومت سے الگ سینگ پھنسے ہوئے ہیں اور YDA لوگوں سے ڈونیشنز اکھٹی کر کر کے ڈاکٹروں اور عملے کیلئے PPE کا بندوبست کر رہی ہے , مگر قیادتوں نے شاید قسم کھائی ہے کہ جس طرح کی تخریبی سیاست پنجاب میں PMA , YDA , YCA اور IDF کے نام پر ہو رہی ہے وہ ہر جگہ ہو. آپ سے پھر درخواست ہے , پنجاب میں لگی یہ سینئر جونئیر کی آگ گلگت بلتستان تک مت پھیلائیں.

میں یہاں پر مجبور ہوں کہ اپنے گلگت بلتستان کے ان سینئر کولیگس ڈاکٹر شان عالم اور ڈاکٹر آصف سے چند معصومانہ سوالات پوچھوں.

1- جب پی ایم اے کے ْالیکشن اناونس ہوئے , جو کہ ڈاکٹر شان کی ہی سرگرمی دکھانے سے ہوئے , تو بعد میں پیچھے کیوں ہٹے ؟ الیکشن میں حصہ کیوں نہیں لیا ؟ جب کہ آپ کو یہ یقین دہانی تک کرائی گئی تھی کہ تمام جونئیر ڈاکٹرز آپ کو سپورٹ کریں گے , تب اتنے بڑے فورم کی قیادت کا موقع سامنے تھا , کیوں لاتعلق ہوئے ؟ اور اگر تب الگ ہوئے تھے تو اب کن وجوہات کی بنیاد پر آپ کو لگتا ہے کہ دو رجسٹرڈ فورمز جو آپ ہی کے کیڈر کے دو کنسلٹنٹس چلا رہے ہیں وہ کافی نہیں ہی ہیں. 60 کنسلٹنٹس کو ٹوٹل کتنی نمائندہ تنظیمیں درکار ہیں ؟ چار تو بن گئی ہیں , تو فی تنظیم 15 15 کی تقسیم ہوگی ؟ , ان پہلے سے موجود فورمز سے آپ کو کونسی ایسی مایوسی ہوئی ہے کہ آپ ْالگ تنظیم بنا بیٹھے ؟

2- ڈاکٹر آصف سے بھی یہی سوال ہے , کہ پی ایم اے بلتستان کے صدر ہوتے ہوئے آپ کو ینگ کنسلٹنٹ ایسوسی ایشن بنانے کی کیوں سوجی؟ آپ پی ْایم اے بلتستان ( یعنی اپنے آپ سے ) کن معاملات میں اختلاف پر تھے جہاں آپ کو لگا کہ پی ْایم اے بلتستان میں آپ کی دادرسی نہیں ہو رہی تو وائی سی اے بنا لی جائے.

بقول شاعر

آج ٹکرا گیا تھا میں خود سے
آج میں بے حساب ٹوٹا ہوں

آخر میں میں یہی کہوں گا , ان نوجون ڈاکٹروں سے جو ابھی گریجویشن کر کے CVs ہاتھ میں لیئے پھر رہے ہیں , یا وہ ینگ کنسلٹنٹس جو ٹریننگ کے بعد واپس اپنی مقررہ جگہوں پہ جانا چاہتے ہیں , یا وہ جو ٹریننگ کے انتظار میں ہیں , YDA GB آپ لوگوں کا ہی فورم ہے , جو کسی وقت میں آپ ہی کے جیسے حالات سے گزرنے والے ڈاکٹروں نے بنایا تھا , اور اب آپ کیلئے جگہ خالی کر کے ہٹ گئے ہیں. ان محلاتی سازشوں اور انا کے بل پر بننے والی تنظیموں سے آپ کو مایوسی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملے گا. اپنی روایت کے ساتھ جڑے رہیں. دوسروں کے کھیل میں کھلونا مت بنیں. آپ کے مسائل حقیقی ہیں اور یہ جھگڑے صرف ذاتی ہیں.

گلگت بلتستان میں ٹوٹل ڈاکٹروں کی تعداد 400 بھی نہیں ہے ", ان کے اوپر بارہ "میٹ” نہ بنائیں , سب کا بیڑہ غرق ہو جانا ہے.

(نوٹ: یہ آرٹیکل لکھاری کا ذاتی تجزیہ ہے اور اس کا مقصد گلگت بلتستان کے شعبہ صحت کے اندر موجود تنظیمی تاریخ اور موجودہ صورت حال اور مسائل کا جائزہ پیش کرنا ہے. صحت کے شعبے میں موجود ان تنظیمی مسائل کا اثر براہ راست عوام پر ہوتا ہے اس لیئے عوام کا یہ حق بنتا ہے کہ انھیں اندرونی معاملات کا علم ہو ).

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button