بلاگز

علامہ اقبال ہی نوجوانوں کے حقیقی رہبر 

کسی بھی قوم یا ملت کے قیام اور اسکی استحکام کی ضمانت قوم کے نوجوان ہیں ۔ان میں قربانی اور جدوجہد کا جزبہ ان کے دلوں میں  کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے ۔اسی جذبے سے وہ اس قوم اور ملک کو ترقی کے آسمانوں تک ثہنچاتے ہیں  شرط یہ ہے کہ  ان کی رہنمائی صحیح سمت میں کی جائے جائے ۔اج کے موجودہ دور کے نوجوان کنفیوزن کا شکار ہیں کہ وہ اپنے لئے کسں شخصیت کو ائیڈیل اور رول ماڈل مان لر اسکی تقلید کرے۔اج وہ تذبذب کا شکار ہیں اور ایسے رہنما اور لیڈر کے انے کی بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں جو واقع ان کو ان کے امنگوں کے مطابق راستہ دیکھا ئے۔ ہمارے ملک میں کوئی ایسا لیڈر علامہ محمد اقبال کے سوا کئی نظر  نہیں اتا  جو نوجوانوں کی بات کرے ان کا حوصلہ بڑھائے۔نوجوان شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی فکرو فلسفے سے رہنمائی کر سکتے ہیں ۔تاکہ وہ مثالی انسان بن کر ملک و ملت کی بہتر خدمت کر سکے۔علامہ اقبال بزرگوں سے مایوس تھے کیونکہ وہ جمود اور تقلید کا شکار تھے اور تبدیلی پر مائل نہیں تھے۔
علامہ محمد اقبال نے نوجوانوں نے نوجوانوں کو خودی کا پیغام دیا اور فرمایا کہ نوجوان خود شناسی سے خدا شناسی کا سفر طے کریں اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کریں اور بڑے مقاصد کے لئے اس حد تک کوشش اور جدوجہد کریں کہ دوسروں پر سبقت لے جائے ۔معاشرے سے برائی کے جڑ کا خاتمہ کرکے مثالی معاشرہ قائم کرنے کی سعی کریں جس میں امن وسلامتی ،برداشت،رواداری،اخوت،سخاوت اور محبت جیسی خوبیاں ہوں۔ان کے دل میں نوجوانوں کے کے خیالات بلند،کامل انسان،مرد مومن بننے کی آرزو تھی انہوں نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
ان کی آرزو تھی کہ نوجوان شاہین بنیں کیونکہ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جو خوددار اور غیرت مند ہے۔خود شکار کرتا ہے۔دوسروں پر انحصار نہیں کرتا۔وہ اپنا آشیانہ نہیں بناتا ہے خلوت پسند ہے۔اور وہ تیز نگاہ ہے۔علامہ اقبال شاہین کی خصوصیات مسلمان نو جوانوں میں دیکھنا چاہتے تھے۔تا کہ وہ انہی خصوصیات کی وجہ سے مثالی ملت کی تشکیل کرسکے۔
ان کی زیادہ تر شعر و شاعری نوجوانوں کے لئے ہی تھیں ۔وہ اپنے شعروکلام کے اندر موجود حکمت نوجوانوں کو سمجھ انے کے لئے دعا کرتے تھے۔اعلامہ محمد اقبال نے نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا’
کبھی اے نوجواں مسلم  تدابر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹاہوا تارا
جوانوں کو میری آہ و سحر دے
پھر ان شاہین بچوں کو بال و پر دے
نوجوانوں کو علامہ اقبال کے تعلیمات کے مطابق اپنا راستہ متعین کرنا ہے تاکہ مایوس اور ناامید نہ ہو۔
نوجوانوں کا فرض ہے کہ وہ اس وقت کے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے لئے علامہ اقبال کے پیغام کو سمجھنے کی کوشش کرے تاکہ ان میں وہ خوبیاں اور اوصاف پیدا ہو سکیں جو حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے لازم ہوتی ہیں ۔جو نازک حالات میں ملک وملت کو بحرانوں سے نکالنے کے لئے معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں ۔اپنی ایک شعر میں نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا’
اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی
ہو جس کے جوانوں کی خودی صورت فولاد
موجودہ وقت میں ملک وقوم کو انتہا پسندی،فرقہ واریت،دہشت گردی اور بین الاقوامی  سازش جیسے خطرات لاحق ہیں ۔نوجوان علامہ اقبال کے پیغام کو سمجھ کر ان چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکتے ہیں۔اس طرح ملک وقوم کو امن کا گہوارہ بناسکتے ییں۔
نوجوان موجودہ دور کے موقع پرست اورمفاد پرست لیڈروں   کے فریب میں انے کے بجائے اقبال کے پیغام کی جانب راغب ہوں تاکہ ان کی فکرو دانش سے مسلح ہو کر موجودہ حالات کا مقابلہ کر سکےاختتام مفکر پاکستان کے اس شعر کے ساتھ  جو انیوں نے نوجوانوں کو مخاطب کرکے فرمایا تھا۔۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر اتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button