عالمی وبأ کے چترال کی بچیوں کی روزمرہ زندگی پر اثرات، تدارک اور والدین کا کردار
تحریر: آمینہ نگار
بونی اپر چترال
دنیا کی تمام انسانی تہذیبوں میں اگر کسی معاشرے میں بیٹی کو اعلیٰ مقام دیا گیا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلامی معاشرہ ہے ۔ اس امر سے قطع نظر کہ بیٹی مختلف ادوار اور مختلف قبیلوں کے اندر اپنے اس منفرد مقام کے حصول سے جزوی طور پر محروم ہے چترال میں ہرایک بیٹی اپنی خوش قسمتی پرنازاں ہے کہ یہاں ہر بچی کو اسلام کےاصولوں کے عین مطابق عزت ملی ہے اور حوصلہ ملا ہے۔ ہم اگر نظر تدقیق سے دیکھیں تو چترال میں اکثر والدین اپنے بچوں اور بچیوں میں فرق نہیں کرتے اوراُن کیکوشش یہ ہوتی ہےکہ دونوں میں ہمیشہ برابری کا سلوک روا رکھیں۔ یہاں تک کہ ان کے کھانے پینے، لباس، رہن سہن اور سب سے بڑھ کر تعلیم میں دونوں کا پلڑا برابر رکھا ہوا ہے ۔ البتہ کچھ گھروں کے ماحول میں بہت کوشش کے باوجود بھی صورت حالمیں خاطر خواہ طور پر تبدیلی نہیں آئیجس کی ضرورت کو ہمیشہ محسوس کیا جاتا رہا ہے اور اس ضمن میں حکومتی اور نجی اداروں کی سطح پر کوششیں قابل تحسین ہیں ہم اسلامی تعلیمات کے نہج پر انشااللہ مثبت تبدیلی دیکھ پائیں گے۔ میری اس گفتگو کا مقصد کسی بڑھے پیمانے پرکوئی تبدیلی لانے کا ہر گز نہیں ہے البتہ اس بات کی ضرورت کو ہم میں سے ہر ایک محسوس کر رہا ہے کہ حالیہ وبائی تناظر میں پرائمری تعلیم کے بعد ہماری بچیاں کن کن مسائل سے دوچار ہوتی ہیں اور ہمارے لئے وقت کا اہم چیلنج یہ ہے کہ ماحول کی پیچیدہ گیوں سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اپنے بچیوں کی کس انداز میں مدد کریں کہ وہ اسلامی تعلیمات پر کما حقہ عمل کرتے ہوئے زمانے کے جدید تقاضوں اور دنیا کے نت نئے مسائل کا خوش اسلوبی سے مقابلہ کر سکیں۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ بچیوں کی تعلیم اور ان کی بہتر مستقبل کی راہ میں حائل رکاوٹوں میں غربت، بچپن کی شادی، گھریلو کام کاج کی بھاری زمہ داریاں اور بچوں اور بچیوں میں تفاوت و تفریق شامل ہے۔ حالیہ عالمی وبأ میں ان خدشات کے اثرات واضح طور پر نظر آنے لگے ہیں جو کہ ہماری بچیوں کی مستقبل کے لئے پریشانیکا باعث ہیں۔ اس تحریر میں اس قسم کے چند خدشات اور ان کے سد باب کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ والدین کے لیے کسی حد تک مدد گار ہو سکتے ہیں۔
اگر ہم چترال کی بچیوں کےماضیپر نظر دوڑائیں تو بچیوں کی نو عمری میں شادی ایک عام سی روایت رہی ہے ۔حکومت اور نجی اداروں کی باہمی کوششسے اگرچہ اس مسئلے پر کافی حد تک قابو پایا جا چکا ہے تاہم بعض جگہوں میں آج بھی یہ روایت رائج ہے اور اس پر مکمل طور پر قابو ممکن نہیں ہے۔ اس عالمی وبأ کےطول پکڑنے سے اس بات کا خدشہ ہے کہ کہِیں بچیوں کے طویل عرصے تک گھر میں رہنے کی وجہ سے والدین ان کی شادیاں کروا کے اپنے فرض سے سبکدوش ہونے کی کوشش نہ کریں ۔اور یوں بچیاں اپنے تعلیمی سفر اور صحت مند زندگی کے خواب کو نہ کھو بیٹھیں ۔ دوسرا خدشہ یہ ہے کہ یہ وبأ اگر طویل عرصے پر محیط رہی تو بہت ممکن ہے کہ والدین ک معاشی حالت جواب دے سکتی ہے اور وہ فطری طور بچیوں کو سسرالیوں کی اولاد گردان کرکہیںان کے تعلیمی سفر کو منقطع نہ کریں ۔اورایسی صورت حال کے وقوع پذیر ہونے کی صورت میں بچیاں گھر میں بیٹھ کر اپنی قابلیت اور تخلیقی صلاحیت اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ سکتی ہیں ۔اور سب سے قابل غور بات یہ ہے کہ آگے تعلیم کا سفر منقطع ہونے سے وہ اپنے اپنے گھروں میں ، اللہ نہ کرے ، ٹیکنا لوجی کا غلط استعمال بھی کر سکتی ہیں جو کہ اُن کے اخلاقی اور معاشرتی مقام کے لیے زہر ہلاہل سے کسی قدر کم نہیں ۔ تیسرا خدشہ بچیوں کے گھر میں پڑے رہنے سے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ گھر ہستی میں زیادہ مصروف رہ کر اپنی تعلیمی سرگرمیوں سے کنارہ کشی اختیار کریں جو کہ ناقابل تلافی نقصان ہے دوسری بات یہ کہ سہیلیوں کے ساتھ معاشرتی میل جول اور آپس میں پریشانیاں اور دکھ سکھ بانٹنے کے لیے ماحول نہ ملنے اورگھریلو کاموں کے بوجھ اور تنہائی سے تنگ آ کرکہیں منفی سوچ کا شکار نہ ہو جا ئیں ۔ اور یہ منفی سوچ انہیں زہنی دباؤ کا شکاربنا کر کہیں غلط قدم اٹھانےپر مجبور نہ کر ے جو کہ ماضی کا ایک گھناؤنا تجربہ رہا ہے، ان تمام باتوں کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہر گز نہیں ہے کہ خدا ںخواستہ یہ واقعات بچیوں کے ساتھ ہونے والے ہیں۔ ہاں یہ البتہ ضرور ہے کہ تمام باتوں کو ذہن میں رکھ کر اپنی بچیوں کی تعلیمی، اخلاقی اور معاشرتی تربیت کے لیے منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے جو کسی نہ کسی حد تک مدد گار ثا بت ہو سکتی ہے ۔ یہاں پر چند تجاویز والدین کے لے پیش خدمت ہیں اور اُمید کی جاتی ہے کہ یہ کسی نہ کسی پہلو میں مدد گار ثابت ہوں گی ۔
۱۔ "جان ہے تو جہاں ہے”اس بات پر ہم سب کو یقین ہے اس لیےضرورت اس بات کی ہے کہ سب سے پہلےاپنی بچیوں کو یہ حقیقت سمجھا دی جائے کہاُن کے لیے اپنی صحت کا خاص خیال رکھنا ناگزیر ہے۔ پہلے وہ اس وبا کے تمام پہلوؤں پر غور کریں اور پھر ان معروضی حالات میں حفظان صحت کے اصولوں پر کار بند رہیں ۔ انھیں یہ تربیت بھی دی جائے کہ نہ صرف خود عمل کریں بلکہ اس کو اپنی زمہ داری سمجھ کر دوسروں سے بھی عمل کروائیں۔
۲۔ والدین کو اپنی بچیوں کے بارے میں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے، چاہے یہ فیصلہ شادی کا ہو یا تعلیم سے روکنے کا، یہ سوچنا ضروری ہے کہ یہ وبائی صورت حال آللہ تعالی کی طرف سے ایک کڑی آزمائش ہے ۔ حالات کی رو میں بہہ کر کوئی بھی جذباتی فیصلہ کرنے کے بجائے صبروتحمل کا مظاہرہ کریں۔ وہ غفورو رحیم ہے کوئی نہ کوئی مثبت حل ضرور نکال دے گا۔
۳۔والدین کے لئے سب سے ضروری بات اپنے بچیوںکے ساتھ دوستانہ ماحول قائم رکھنا ہے۔ والدین اور بچیوں کی باہمی میل جول ، بول چال، خیالات کے اظہار اور سو چوں کی تبدیلی میں کوئی ہچکچاہٹ اور دوری کا احتمال نہ ہو۔ والدین اور بچیوں کے بیج بہت سی غلط فہمیوں کی وجہ ان کی آپس میں گفتگو اور تبادلہ خیال کا فقدان ہوتی ہے ۔ گھر کا ماحول اس طرح کا ہو کہ وہ بچیوں کی مثبت سوچ کو فروغ دینے میں ممد و معاون ثابت ہو ۔ چونکہ ابھی ایک موقع ملا ہے کہ والدین اور بچیاں ایک ساتھ مستقل طور پرطویل عرصے کے لیے رہ رہے ہیں تو اس مو قع کو غنیمت سمجھ کر اپنیبچیوں کی بہترین تربیت کو یقینی بنائیں۔ ان کے ساتھ مل کراُن کی مشاورت سے ان کے روزمرہ، ہفتہ وار اور ماہوارسماجی اور تعلیمیاُمورکی منصو بہ بندی کریں۔ منصوبہ بندی کرتے وقت ان کی تعلیمی، اخلاقی، معاشرتی اور معاشی پہلوؤں کو ضرور مد نظر رکھیں۔ ہر پہلو کے لیے وقت مقرر کریں۔ مثلا’ دن میں کتنا وقت ان کی تعلیمی سر گرمی کے لئے کافی ہو گا۔ کتنا وقت مذہبی سرگرمیوں کے لے مختص ہو گا۔ گھر کے کاموں کے لیے اور گھر والوں کے ساتھ گفتگو کے لیے کتنا عرصہ درکار ہو گا۔ اس کے علاوہ اور کون سی مہارتیں سیکھیں گے جو کہ مسقبل میں ان کے لیے فائدہ مند ثابت ہو نگے۔ مثال کے طور پر فنون نقش ونگاری و مصوری، کھا نا پکانے کا فن، دستکاری اور سلائی و کڑھائی وغیرہ۔
مزید بر اں یہ بچوں اور بچیوں کے لیے ایک ایسا موقع ہےکہ یہ ایک دوسرے سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ مثلا معاشرے میں کچھ کام صرف بچوں کے نام مختص ہیں اور کچھ کام صرف بچیوں کے لیے مخصوص کر دیے گئے ہیں۔ گا ڑی چلانااور مصوری کرنا وغیرہ بچوں کےکاموں میں شمار ہوتے ہیں، اس طرح کھانا پکانا، کپڑے دھونا اور صفائی کرنا بچیوں کے کام کا حصہسمجھے جا تے ہیں۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئےبچے اور بچیاں ایک دوسرے سے مہارتیں سیکھ سکتی ہیں اور گھر کے کاموں میں یہ دونوں ایک دوسرے کی مدد بھی کر سکتے ہیں۔
اگر ان تمام کاموں کے لیےمناسب طریقے سے منصو بہ بندی کر کے ان پر سختی سے عمل کیا جائے تو متذکرہ خدشات پر آسانی سے قا بو پایا جا سکتاہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ نہاہت مشکل کام ہے اور والدین کو قربانی دینے کی ضرورت ہے۔ہاں مشکل ضرور ہے مگر نا ممکن نہیں۔ آللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اس مشکل گھڑی سےاچھے طریقے سے نکلنے کی توفیق عطا فرمائے اور سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے ۔آمین۔