کالمز

دیوانوں کی باتیں — زہر کا اثر ختم ہوا

تحریر: شمس الحق قمر ؔ

زہر  کا اثر والا قصہ آپ کی دلچسپی کا باعث ہوگا ۔   لیکن اس سے قبل ایک دو جملے اپنے بارے میں ۔   معاملہ  یوں ہے کہ ہم عموماً کچھ اس نہج پر سوچتے ہیں کہ ہماری تحریر میں دم نہیں ہے ،  پر ساتھ ساتھ غالبؔ کے اس  مصرعے پر بھی   خوب تکیہ ہے ؎ گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی ۔

ہم ستائش کی تمنا رکھتے ہیں نہ صلے کی پروا کرتے ہیں  بس عادت سے مجبور  جب کبھی آپ کی سماع خراشی مطلوب ہوتی ہے تو ہم دخلِ در معقولات پر اُتر آتے ہیں ۔  چونکہ ہمیں اس بات کا اندازہ ہے کہ ہماری تحریر جاندار نہیں اور ہم بضد بھی ہیں کہ لوگ ہمارے بے جوڑ الفاظ کو   نظر  تدقیق سے دیکھیں یہی نہیں بلکہ ہم یہ بھی قارئین سےتوقع رکھتے ہیں کہ وہ  ہماری تحریر پڑھنے کے  بعد تنقید  بھی کریں  لہذا  قارئین کی توجہ  بزور بازو حاصل کرنے کےلیے اصلی بات آخر میں کر جاتے  ہیں   ۔ تمہید لمبی ہوتی ہے  اور  مدعا  مختصر ۔  لیکن بعض مرتبہ ہم  لوگوں کو  اصل  بات    پر بعد میں بات کرنے کا جھانسہ دیکر   درمیاں میں اپنا مطلب  نکال لیتے ہیں ۔  بہر حال   ہم خط لکھیں گے  گرچہ مطلب کچھ نہ ہو ۔

           آج بھی میں اصل بات  سے پہلے کم از کم  ساڑے تین  اور  زیادہ سے زیادہ  چار عشروں سے  قبل کی کہانی آپ کے ساتھ بانٹنا چاہتا ہوں جب ہم موسم سرما کی یخ بستہ دنوں  میں  "پھُک شال  ” یعنی بھیڑ بکریوں کے مخصوص موشی خانوں میں اُن کی صحبت میں   وقت گزارتے  تھے۔   گھر سے نستباً اچھا ماحول ملتا تھا  گھر کے اندر سردیوں میں  سامنے سے آگ  تپتے تپتے  پچھلا  دھڑ   برف کی  قاش بن جایا کرتا تھا   ہم دعا کرتے تھے کہ  زیادہ سے زیادہ مہمان آجائیں   تاکہ  ہمیں پُھک  شال  بھیج دیا جائے ہماری دعائیں قبول ہوتی  تھیں  ۔  پُھک شال  کا موسم  معتدل ہوا کرتا تھا اور پُھک شال میں ہماری اور بھیڑ  بکریوں کی  بادشاہت ہوتی تھی نہ ڈانٹ ڈپٹ نہ سبق کا جنجال   ( یاد رہے کہ کچھ مویشی خانے بڑے چو پایوں کے نام پر مخصوص ہوتے ہیں جن پر گائے بیل کا تسلط ہوتا ہے ایسے مویشی خانے کھوار میں "لوٹ شال” یعنی بڑا مویشی خانہ کہلاتے ہیں جبکہ  چھوٹے چو پایوں کے گوشہء سکون کو” پھُک شال "کہتے ہیں ) ۔  میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ یہ خوشگوار تجربہ ہماری عمر کے تمام بہن بھائیوں کو حاصل رہا ہوگا کیوں کہ دوسرے دن  سکول جاکر ہم دوستوں کے ساتھ اسی موضوع پر گفت و شنید  کیا کرتے تھے یوں پُھک شال کی خوبیاں سکول میں زبان زد خاص عام  ہوتی تھیں  ایک دن پھک شال کی مستیوں کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے ایک ہم جماعت نے  بکری کے مقابلے میں  بھیڑو  کے دودھ کی لذت پر  طویل تقریر جھاڑ دی ۔      ہمیں جب اُس کی بات میں وزن معلوم نہیں ہوا تو اُس نے کھل کے بتایا کہ   اُس نے دودھ دوھ کے نہیں پیا  تھا بلکہ اپنے منہ سے   بھیڑو  اور بکریوں کو   چوس  کے پیا تھا  ،اُس کے بعد  لڑکوں نے جماعت  ہشتم  میں آنے تک    اُسے  "چھانی” یعنی  بکری کا بچہ ،   کے نام سے پکارتے  رہے کچھ  شرارتی لڑکے تو  اُ س کی طرف منہ کر کے  ممیاتے  بھی  تھے  ۔  بعد میں  اُس نے سکول چھوڑ دیا اور فوج میں  بھر تی ہو گیا    ۔       ( مجھے یقین ہے کہ ہمارے کچھ قارئین مجھ پر لعن طعن بھی کریں گے کیوں کہ  یہ بات چترال کے باسیوں کی شایان شان نہیں ہے    کیوں کہ ہم بڑے خان لوگ ہیں پھر بھی ہمارا مشورہ یہ ہے

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصرؔ
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے

میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ  کچھ لوگ مجھے یہ بھی کہیں گے کہ   لکھاری کا اپنا  ذاتی تجربہ رہا ہو  گا) ۔ پھُک شال کا  ماحول بڑا  سہانا ہوتا تھا ۔  بھیڑ بکریاں  شاندار جانور ہیں اُن کی غلاظت میں بیل گائے کی طرح  چکناہٹ بھی  نہیں ہوتی  ۔اُن کی صحبت سے  اگرچہ کپڑوں میں   داغ لگتے تھے لیکن  مدہم  سے   نظر آتے تھے یا سرے سے نظر ہی نہیں آتے تھے۔  داغ نظر نہ آنے کی  دو نمایاں وجوہات تھیں  ایک تو یہ کہ   ہمارے کپڑے  کالے ہوا کرتے تھے     لہذا اُن پر کسی داغ دھبے  کا نمایاں نظر آنے کا سوال  اوٹ اف کورس تھا    دوسری وجہ یہ تھی کہ  ایک تو یہ کالے تھے اور اوپر سے یہ خود دار اتنے کہ     زندگی میں بھولے سے بھی پانی اور صابن کے  منت کش   نہیں ٹھہرے ۔    دوسری طرف ہماری  جسمانی   صفائی کا  یہ عالم تھا کہ   شلوار کے نیفے کی سلوٹوں  میں  ہماری  ہی کمر  پر  پلنے  والی     نیلے ،بھورے، گندمی او ر کالی جوؤں کے علاوہ  تہہ در تہہ لیکھوں کی گنجان آبادیاں جا بجا موجود  ہوتی تھیں ۔  آپ مانیں یا نہ مانیں چترال میں    زندگی کا یہ رنگ ذکر اور بکر  ہر دو  پر یکساں تھا ۔     ہماری زندگی اور ہمارا  سارا نظام   آج کے مقابلے میں  یکسر مختلف تھا ۔  اُس زامانے کی داستان  تو بہت طولانی  ہے لیکن   یہاں تمام کے تمام سنانا مقصود نہیں    تاہم  قارئین  کے اصرار پر  بہت کچھ بک سکتا ہوں ۔  بہر کیف میں یہاں صرف    اُس زمانے کی رہائشی  مکان کی سہولیات  کا   اجمالی  خاکہ پیش  کرتا ہوں  ۔ ایک  کثیر المقاصد  کمرہ  ہوتا تھا جس کا نام  "بائی بش ختان”   تھا ۔  جس کے اندر  زندگی کی کئی ایک  بنیادی سہولیات   ایک ساتھ موجود ہوا کرتی تھیں یہ بیک وقت    رسوئی ،   مہمان  خانہ  ،  مرغی خانہ ،لکڑی خانہ  ،     بڑوں ، چھوٹوں  ، مہمانوں   ، مرد اور عورتوں کےلیے الگ الگ  نشست گاہوں کے علاوہ  گوشۂ نماز ( نمیژینی  نخ)  اور   اور خواب گاہ ( پوریکیو  نخ ) بھی تھا ۔  اگر کسی گھر میں بچہ پیدا ہوتا /ہوتی تو   نخ کے ایک گوشے میں   زچہ و بچہ کےلئے  جگہ مخصوص ہوتی تھی      جسے ” شونگ”  یعنی  کونہ   کہا  جاتا تھا ۔ اسی شونگ میں  الگ سے  انگیٹھی  جلائی جاتی تھی   جس سے بچے کے پھیپڑے پیدائشی طور پر   دھواں سے مالامال  ہوتے تھے ۔ بیمار اور نوزائیدہ  جانوروں  کے پالنے کی جگہ ( شو کڑ) ،   خورد نوش کا اسٹور ( کش)     اور ( چم ) بھی اسی گھر کے اندر ہوتے تھے   ۔      آج سے چالیس  پنتالیس  سال قبل صابن ، شمپو ،   کریم ،   ٹوتھ پیسٹ  ، برش وغیرہ   کس  چڑیئے  کا نام   تھا   ہمیں معلوم نہیں تھا ۔   مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرے دادا ( مرحوم ) نمک کو    لکڑی کے کوئلے کے ساتھ ملا کے  پیس کر   ٹوٹھ پیسٹ تیار کیا کرتے تھے    ۔    رفع حاجت  کھیتوں   میں ہوتی تھی لیٹرین  کا کلچر بہت  بعد  یعنی سن  80 کی دہائی میں  آیا ۔   ہم بہت دور نہیں جائیں گے  2002 کی بات ہے   واسپ کے ادارے  میں کام کرنے والے  ہائی جین کے  ایک انچار چ   نے   بونی  کے پانی کو  ٹسٹ کرنے کے بعد  میٹنگ میں موجود لوگوں کو بتایا کہ  ایک گلاس پانی میں ایک ہزار   مختلف جراثیم پائے  گیے ہیں جوکہ   ایک ہزار سے زیادہ بیماریاں پھیلا سکتے ہیں ۔ لوگ اس سفید جھوٹ پر  زیر لب ہنستے رہے کیوں کہ پانی   شیشے کے گلاس میں صاف و شفاف  معلوم ہوتا تھا ۔  آپ کو میری باتوں سے اندازہ ہوتا ہوگا کہ  ہم نے اپنے مدافعتی  نظام کو کیسے  مضبوط بنایا ہوا ہے  شاید یہی وجہ ہے کہ   عالمی وبا   ٔ  کے پھیلاؤ میں   یہاں کورونا  نے بہت سوں کو اپنی لپیٹ میں لیا لیکن     بڑے بےآبرو ہو کر ہمارے کوچے سے نکل گیا ۔ یہاں تک کہ 103 سال کے  بابا عزیز  نے بھی      دنیا کو  بتا دیا ہے  ہم  نے بچپن میں کورونا سے زیادہ  خطرناک بیماریوں کا  مقابلہ کیا   ہوا ہے ۔   ہم وہ لوگ ہیں جو  ایک  گلاس میں ہزاروں جراثیم کو  دن میں کئی بار ہڑپ کیا ہوا ہے ۔  کہتے ہیں کہ  تھوڑی بہت غلاظت  اور گندگی  کے ساتھ کھیلنا  اپنی جگہ  درست ہے  کیوں کہ اس سے   مدافعتی نظام  ممکنہ حد تک مضبوط ہو سکتاہے  لیکن اس پر مستزاد یہ کہ  لوگ  مکھیوں کو بھی  نہیں بخشتے تھے ، چائے میں مکھی گر ی  اور   جانب نے   مکھی سمیت پی لی ۔

 آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ مَکھّی   کو  جراثیم  کا کار خانہ کہا  جاتا ہے   لیکن  میرے ایک دوست نے اپنی آنکھوں دیکھا حال مجھے  بتاتے ہوئے کہا کہ   اُس کے محلے میں ایک آدمی رہتے ہیں     جو  واقعتاً مکھی چوس ہیں ۔   اُس کی چائے میں  جب مکھیاں  گرتی  ہیں تو وہ   اُنہیں  پھینکتا نہیں  ہے  بلکہ  چائے کو کچھ اس نزاکت  سے  پیتا ہے کہ  چائے کے ختم ہوتے ہوتے کم از کم   پانچ چھے  مکھیوں کی  تازہ لاشیں چائے کی باقی ماندہ پتیوں کے  ساتھ مل جاتی ہیں ۔پھر بھی یہ آدمی نفاست  پسند اتنے      کہ  مکھّیوں کو   اپنے لمبے ناخنوں کے  دراڑوں کے اندر پھنسا    کر الگ کر کے   بڑی مہارت سے چائے کی اُبلی ہوئی پتیاں منہ میں ڈالتے ہیں   اور  گھنٹوں  چباتے رہتے  ہیں ۔    یہ سن کر  مجھے اُس آدمی کو  دیکھنے کا شوق  پیدا ہو ۔ میں نے اپنے ہم جماعت نظار بھائی   سے درخواست کی  شرف ملاقات   کی آرزو  پوری کروائے   تو میں زندگی بھر ممنون رہوں گا۔ نظار نے چچا کو اپنے گھر بلایا  اور چائے کی تواضع کی   چچا  آرام سے چائے پینے لگے تو   اتفاقاً ایک  بے جان سی مکھی منڈلاتے منڈلاتے   چائے میں جا گری    چچا نے  بجائے اُسے باہر نکالنے یا  چائے  واپس کرنے کے  مکھی کو   اپنی انگلیوں سے پکڑ کر  دیر تک   چائے میں لٹکائے رکھا ۔ میں نے پوچھا  ” چچا ایسا کیوں ؟  چچا بولے  ”  مکھی کے ایک پر میں زہر ہوتا ہے   اور ایک میں تریاق  لہذا  اُسے  اور بھی بھگونے سے  زہر کا اثر ختم ہوتا ہے ۔”

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button