کالمز
سیاست اور علم سیاسیات
تحریر: ایم کثیر رضا بگورو
محترم قارئین،
آج کی اس مختصر سی تحریر کے ذریعے میں آپ سب سے ایک بات شیئر کرنا چاہتا ہوں ۔لازمی نہیں کہ آپ میری بات سے اتفاق کریں لیکن اپنی راے کا اظہار ضرور کریں۔ اگر میں غلط کہتا ہوں تو کہہ دیں غلط کہتے ہو اور اگر بات میں ایک فیصد بھی دم ہے تو بات کو آگے پھیلادیں مہربانی ہوگی۔
تو دوستوں میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جس طرح کوئی بھی انسان اگر کسی پیشے سے منسلک ہونا چاہتا ہے تو وہ سب سے پہلے یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ اس پیشے سے متعلق علم حاصل کر کے مختلف ازمائشوں سے گزر کر سند حاصل کرنے کے بعد باقاعدہ اس پیشے کو اپنا لے۔ چونکہ نبی اکرم ؐ کا فرمان مبارک بھی ہے کہ ” کسی بھی پیشے کو اپنانے سے پہلے اسی پیشے میں مہارت حاصل کریں تاکہ غلطی کی کم از کم گنجائش رہے جاے اور متعلقہ پیشے کے ساتھ خیانت نہ ہوجاے۔“
جس طرح وکیل بننے کے لئے ایل ایل بی کی سند لازمی ہے اسی طرح ڈاکٹر بننے کے لئے ایم بی بی ایس کی سند لازمی ہے اور جسطرح استاد بننے کے لئے بی ایڈ ،ایم ایڈ کی سند لازمی قرار دی جاتی ہے اسی طرح صحافی بننے کے لئے صحافت کی ڈگری بھی لازمی سمجھی جاتی ہے۔ یعنی کسی بھی ادارے یا شعبے میں کام کرنے کے لئے متعلقہ پیشے کی ڈگری لازمی قرار دی جاتی ہے اور ہونا بھی یہی چاہیے۔
اگر ڈاکٹرز کو وکالت کرنے پہ لگا دے اور وکلا کو مریضوں کےعلاج پہ لگا دیا جائے تو کیا بنے گا؟ اسی طرح اگر انجینیرز دین سکھانے بیٹھ جائیں تو دین کھبی نہیں سکھا پاے گا۔ مولوی اگر مریضوں کا علاج کرنے پہ لگ جاے گا تو وہ علاج تو کر نہیں پاےگا البتہ جان لینے میں کامیاب ضرور ہوگا۔ اور اگر ایک انجینیر کو آپ وکالت کرنے پہ مامور کریں گے تو وہ کھبی بھی کیس نہیں جیت پائے گا، اور اگر کسی وکیل کو آپ کسی بلڈنگ کا نقشہ بنانے پہ لگادیں گے تو وہ کھبی درست نقشہ نہیں بنا پاے گا۔
مختصراً یہ کہ کسی بھی پیشہ سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے لازمی ہے کہ وہ اس پیشہ سے متعلق سند بھی رکھتےہوں، تجربہ بھی اور مہارت بھی۔
بد قسمتی سے ہمارے معاشرے میں دو اہم ادارے ایسے بھی ہیں جن میں نہ ہی سند دیکھی جاتی ہےاور نہ ہی مہارت۔ بس جو بھی آجاتا ہے جگہ دی جاتی ہے حالانکہ دونوں پیشے انتہائی اہم بھی سمجھے جاتے ہیں۔
ان میں سے ایک مذہب کا شعبہ ہے جس میں ہر مدرسے سے آنے والا شخص آگے آکر دین سکھانے بیٹھ جاتا ہے اور لوگ انکی باتوں کو مان بھی لیتے ہیں یہ نہیں دیکھتے ہیں وہ خود دین سے کتنی شناسائی رکھتا ہے۔ اور اگر کوئی اس بارے میں پوچھنے کی جرات کر بھی لیتا ہے تو اسے دین سے خارج قرار دیا جاتا ہے یا کم از کم توہین علما کا الزام ضرور لگایا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے آج ہم نہ صحیح طرح دین کے ہیں اور نہ ہی دنیا کے بن سکے ہیں۔ ہمیں اگر مذہب کو سمجھنا ہے تو علماء سے رجوع کرنا ہوگا جو حقیقی معنوں میں دین کو جانتے ہیں اور سند بھی رکھتے ہیں۔ ورنہ جس طرح نیم حکیم خطرہ جان ہوتا ہے اسی طرح نیم ملاء خطرہ ایمان ہوگا۔
اسی طرح دوسرا اہم شعبہ جس میں ہم ہر آنے والے پہ ہم تکیہ اور اکتفاء کرتے ہیں وہ ہے سیاست کا شعبہ جس میں ہر کوئی سیاست دان بن کر آتا ہے۔ کسی سند کی ضروت نہیں سمجھی جاتی ہے۔ جو بھی سیاست میں آتا ہے ہم انکی بیعت کرتے ہیں، ووٹ کے زریعے، وہ بھی راشتہ داریاں اور تعلق داریاں دیکھ کر۔ یہ نہیں دیکھتے ہیں کہ بندہ کتنا اہل ہے۔ آیا سیاست کی ڈگری رکھتا ہے یا نہیں بس آنکھ بند کر کے ووٹ دیتے ہیں اور وہ منتخب نمائندے بن کر ملک و قوم کو برباد کر کے چلے جاتے ہیں۔ چونکہ انکا سیاست سے کوئی دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا یہاں تک کہ بہت سارے ایسے بھی ہوتے ہیں جو سیاست کے (س) سے بھی وقف نہیں ہوتے ہیں لیکن ایسے لوگ بھی سیاستدان کہلاتے ہیں ان سے کیا توقع کرسکتے ہیں کہ وہ ملکی نظام کو بہتر انداز میں چلاے اور اچھا لیڈر ثابت ہوسکے۔
اس لئے چاہیے کہ ہر وہ شخص جو سیاست میں آنا چاہتا ہے اس کے لئے کم از کم سیاسیات میں ایم اے پاس ہونے کے ساتھ ایک دو سال سیاست ميں خصوصی کورس کر کے ماہر بن کر آئیے جو بھی نمائندہ ایم سیاسیات کی ڈگری کے ساتھ خصوصی کورس کی سند نہیں رکھتا ہے اس کو ساست میں آنے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے الیکشن کمیشن والوں کو چاہیے ڈگری دیکھ کے کاغذات وصول کریں تاکہ پروفیشنل لوگ ہی سیاست میں آئیے اور ملک و قوم کو حقوق دلانے کی بات کریں۔ اور دیگر اداروں کی طرح ماہر لوگوں کے ہاتھ میں ملک کا نظام آئیے اور وہی ماہر لوگ ملکی نظام کو بہتر انداز میں چلا سکے۔
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بد قسمتی سے ہمارے ملک میں اور خصوصاً گلگت بلتستان میں جس کے پاس پیسے زیادہ ہیں وہ سیاست میں آتا ہے اور عوام بھی یہ سوال پوچھتے ہیں کہ اس کے پاس پیسے کتنے ہیں۔ یہ نہیں پوچھتے ہیں کہ وہ شخص نمائندگی کرنے کے لئے اہل ہے یا نہیں ہے؟ بس پیسہ ہو چاہے وہ کچھ بھی ہو وکیل، ڈاکٹر، فوجی آفسر اور مولوئ کوئی بھی ہوں سیاست کرسکتا کیونکہ پیسے والا ہے۔ جس طرح ایک وکیل ڈاکٹر نہیں بن سکتا اسی طرح ایک وکیل سیاستدان بھی نہیں بن سکتا نہ ہی کوئی فوجی آفسر سیاست دان بن سکتا اور نہ ہی کوئی ڈاکٹر سیاست دان بن سکتا ہے نہ ہی کوئی مولوی سیاست کرسکتا ہے اگر یہ سب سیاستدان بن سکتے تھے تو علم سیاسیات کا الگ شعبہ ہی نہیں ہوتا سیاسیات کا شعبہ اس لئے بنایا گیا ہے تاکہ لوگ پڑھ کے مہارت حاصل کرکے سیاستدان بن سکے نہ کہ سیاسیات کی تعریف جانے بغیر ہی سیاستدان بن جاے۔ اگر کوئی بھی شخص کہتا ہے میں سیاستدان بن سکتا ہوں بغیر سیاسیات پڑھے تو میرے خیال میں وہ ملک و قوم اور خطے سے خیانت کرتا ہے اسکو کبھی بھی ووٹ نہیں دینا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں اسکی بیعیت نہیں کرنی چاہیے۔وسلام۔ محترم قارئین یہ میری زاتی راے ہے اختلاف کا حق رکھتے ہو۔