کالمز

گلگت بلتستان کا محسن، نواز خان ناجی

تحریر: حسین علی شاہ

آپ سے آپ کی شخصیت سے لوگ خائف ہیں تو کیا ہوا۔ یہ سوائے حسد اور بغض کے علاوہ کچھ نہیں۔ زمانہ تمہیں سلام پیش کرتا ہے۔ یہ دھرتی تمہارے قدم چومتی ہے۔ ہم آپ کے مشکور ہیں کہ آپ نے ہمیں سوچنے کا ہنر سیکھایا۔ اپنے ہونے نہ ہونے کا احساس دلایا۔ اپنی شناخت کو پہنچاننے کی سمجھ دی۔ شکریہ قائد تحریک بالاورستان نیشنل فرنٹ گلگت بلتستان۔ ہم زندگی لُٹا سکتے ہیں ایک ووٹ کی اوقات کیا ہے۔ ہمیں اندازہ ہے تین دہائی پہلے حالات کیسے تھے۔ آج جو لوگ بولتے ہیں انہیوں نے تو ماں کے پیٹ میں کروٹ بھی نہیں لی تھی تب آپ نے گلگت بلتستان کے لوگوں کی شناخت کے اوپر بات کی۔ کئی عرصے تک تو اپنے گھر سے بے گھر رہے۔ آپ کے دوستوں کو ان کے آبائی گاؤں میں زدوکوب کیا گیا۔ ان کو گاوں سظح پر جرمانے کئے گئے ان کی گاؤں میں داخل ہونے پر پابندیاں لگائی گئیں۔ جیل کی اُن راتوں کے بارے میں آج میں سوچتا ہوں تو مجھے خوف آتا ہے۔ تو میں کیسے مان لوں کی سفر یونہی آسان رہا ہوگا۔ کتنی تکلیفیں جھیلی ہونگیں اُس وقت جب قافلے میں تہمارے چند دوست اور جیب میں صرف چند سکے تھے۔ کیسے سفر کیا ہوگا؟

آپ کہہ رہے تھے کہ میری قوم میں شعور نہیں ہے۔ آپ نے علماء سے بات کی۔ آپ نے اُس وقت کے تعلییافتہ افراد سے بات کی۔ آپ کی تحریک کا ساتھ دیکر لوگ مراعات لیتے گئے۔ آپ کی کشتی جس منجھدار میں سفر کر رہی تھی اسے چھوڑ کر لوگ ذاتی مفاد کے سفر میں نکل گئے۔ لیکن آپ وہی کھڑے رہے اور اپنے سفر کی کشتی کو کنارے تک لیکر آئے۔

قافلہ لٹتا رہا۔ لوگ دوست بنے اور پھر دشمن بھی بنتے گئے اور دشمن دوست بن گئے۔ آپ کے قافلے میں لوگ ملتے گئے جدا ہوتے گئے۔ کچھ آپ کی شخصیت سے خائف تھے کچھ جلتے تھے۔ کچھ کو وقتی مراعات چاہئے تھیں۔ کچھ کا مطمع نظر آپ کے لئے مشکلات پیدا کرنا تھیں۔

لیکن آپ سب کو سمجھتے رہے اور سب کو بکھرتے ٹوٹتے دیکھتے رہے۔ آپ ثابت قدم رہے۔ قومی شعور میں اپنا حصہ ڈالتے رہے۔ آپ ہی تو کہتے ہیں یہاں خار ہیں، یہاں کانٹے ہیں زمین پہ۔ جہاں ننگے پاوں چلنا ہے۔ آپ ہی کہتے ہیں کہ شیشے کے انگنت ٹکڑے ہیں اور پاوں ننگے ہیں۔ یہاں کیا ملے گا؟ کیا نوکری ملے گی؟ نہیں، کیا ٹھیکہ ملے گا؟ نہیں۔

یہاں ڈنڈے ہیں اور یہاں پھندے ہیں۔ یہاں دھول ہے مٹی ہے یہاں جیل کی کوٹھڑی ہے۔ ایسے میں آپ وہی کھڑے رہے۔ قوم قوم پکارتے رہے۔ بچوں کو سمجھاتے رہے۔ دلیل سے دشمنوں کو منواتے رہے۔ آپ کی باتوں کو آج ہر کوئی مان رہا ہے۔ آج ہر کوئی بول رہا ہے۔ ہر لب پر آپ کے ادا کئے ہوئے الفاظ ہیں۔ لیکن منافقت پہلے سے زیادہ ہے۔ الفاظ تو آپ کے ہیں لیکن داد آپ کے لئے نہیں۔ مگر ان مشکلوں کے باوجود آپ جیتے یا ہارے، ہمیں "تو تم سے پیار ہے”۔ کیونکہ آپ سچ میں سُرخرو ہوگئے ہیں۔

آپ نے کہا تھا کہ ہم متنازعہ ہیں۔ آج پی پی پی کہہ رہی ہے ہم متنازعہ ہیں۔ آپ نے کہا تھا یہ دھرتی ہماری ہے اور اس کے مالک ہم ہیں۔ آج آپ کے مخالف بھی کہہ رہے ہیں کہ ملکیت ہماری حق ہمارا۔ آپ ہی نے کہا تھا کہ ایک قوم کسی آرڈر کے تحت نہیں چلتی۔ آج سبھی کہتے ہیں کہ آرڈر بس۔ اب بس۔ آپ نے کہا تھا کہ ہمیں تنازعہ کشمیر سے جوڑا گیا ہے۔ جب تک اس کا حل نہیں نکلتا ہمیں ایمپاور کیا جائے۔ کم از کم پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے طرز کا سیٹ اپ دیا جائے۔

آج ہر ایک کے لب پر یہی صدائیں ہیں۔ آپ نے کہا تھا کہ ہم ایک کولونیل نظام کے اندر رہ رہے ہیں۔ حفیظ سرکار بھی جاتے جاتے یہ کہہ گئی کہ ہم ایک کولونیل نظام میں رہ رہے ہیں اور یہاں فیصلے ہماری منشاء کے مطابق نہیں ہوتے۔

آپ نے کہا تھا کہ بتیس اسمبلی ممبران ایک طرف اکیلا نواز خان ناجی ایک۔ لیکن جیت اکیلے نواز خان ناجی کی ہی ہوگی۔ ہاں ایسا ہی ہوا پوری دنیا نے دیکھا آپ جیتے آپ ہمیشہ سے ہی جیتتے آرہے ہیں۔ نواز خان ناجی صاحب آپ اس قوم کے محسن ہیں۔ اور ہم دل سے آپ کو سلام پیش کرتے ہیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button