کالمز

(کتابی جائزہ) اکیسویں صدی کےلئے اکیس اسباق – آخری قسط

مولا مدد قیزل

(گزشتہ سے پیوست) اب انسانوں کی تہذیب میں وہی کہانی چل سکے گی، جو انفو ٹیک اور بائیو ٹیک کا مقابلہ کرنے کی اہل ہوگی۔ اگر لبرلزم، قوم پرستی، مذہب، یا کوئی بھی نیا عقیدہ یا نظریہ ۲۰۵۰ کی نئی دنیا تشکیل دینا چاہتا ہے ، تو اس کیلیے نہ صرف یہ ضروری ہوگا کہ مصنوعی ذہانت ، بگ ڈیٹا، ایلگوریتھم، اور بائیو انجینئرنگ کی سمجھ بوجھ حاصل کی جائے، بلکہ انہیں ایک بامعنی بیانیے میں بھی ڈھالا جا سکے۔

ہراری آگے کہتے ہیں   کہ درپیش ٹیکنالوجیکل چیلنج کی نوعیت سمجھنے کیلئے بہترین نقطہ آغاز روزگار کی منڈی ہوگی۔ کیونکہ ٹیکنالوجیکل انقلاب شاید کروڑوں انسانوں کو بیروزگار کردے گا، اور ایک بہت بڑا بے کار طبقہ وجود میں لے آئے گا۔ جو بہت بڑے سیاسی اور معاشرتی وسماجی بحران کا سبب ہوگا، جس سے نمٹنے کیلیے اس وقت کوئی نظریہ تیار نہیں ہے۔ اس وقت ٹیکنالوجی اور نظریہ کی یہ بات عجیب اور موجودہ حالات کے سیاق و سباق سے باہر محسوس ہو، مگر درحقیقت ،اس وقت درپیش خدشہ، ممکنہ بیروزگاری کا ہے، جس سے کسی کو بھی استثنٰی حاصل نہیں ہوگا،

آنے والی صدی میں بایوٹیک اور انوفٹیک ہمیں اپنے اندر کی دنیا کو جوڑ توڑ کرنے اور اپنے آپ کو نئی شکل دینے کی طاقت فراہم کرے گا ، لیکن چونکہ ہم اپنے ذہنوں کی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھتے ہیں ، اس لئے ہم جو تبدیلیاں کریں گے وہ   ہمارے ذہنی نظام کو پریشان کر سکتا ہے۔  آٹومیشن اور بائیو ٹکنالوجی کے میدان میں،   تکنیکی ترقیوں  نے، انسان کو،خدا   کو خدا حافظ کہنے کے لائق کیا ہے  انسان کرہ ارض، نظام زندگی  یعنی زندگی اور موت پر قابو پانے کی کوشش   میں ہے۔جو ہمیں نمرود اور فرعون کی یاد دلاتی ہے

ہمیں نہیں معلوم کہ 2030 یا 2040 کا جاب مارکیٹ کیسا ہوگا اس وقت مشین لرنیگ اور روبوٹکس کا استعمال ہر جگہ ہوگا  ،ٓآنے والے دنوں میں انفوٹیک اور بائوئیو ٹیک نہ صرف معشیت کو تبدیل کرے گا بلکہ ہمارے معاشرے، ہمارےجسم اور ذہن کو بھی تبدیل کرے گا۔انسان کے پاس   2دو ابیلیٹز  ،ہوتے ہیں ایک کوگنیٹوی  ابیلیٹی اور دوسرا فیزکل ابیلٹی  ،۔انڈسٹریل ریولوشن میں  آٹومیشن نے  انسان کو فزیکل جاب سے ری پلیس کیا ہے اور آج کے  اے آئی اور مشین لرنیگ انسان کے کوگنیٹوی  کو ریپلیس کررہے ہے یعنی انسان پوری طرح مشین سے رپلیس ہو سکتے ہیں  آنے والی وقت میں آرڑیفشل انٹلیجنس لو لیول ایکسپرٹیز  والے    جیساکہ بنکنگ،ٹرڈینگ، پوسٹل ،بوکینگ، ٹیچنگ ، کسٹمر کیر ،وغیرہ جیسے کو ریپلیس کردے گا، اور ہائے لیول اکسپرٹیز والے جابس رہ جائنگے جو کچھ سلیکٹد لوگ ہی کر پائینگے نولجیگ اپ ڈیٹ کئے بغیر امپلائز کو مارکیٹ میں رہنا دشوار ہوگا۔ اب آنے والا وقت کریپٹو کرنسی یابلاک چین کا وقت ہے۔

آگے جا کے وہ اس چپٹر میں پوچھتا ہے کہ سچائی کیا  ہے  21 صدی میں  سچ کی تعریف کیا ہے ۔

وہ کہتے ہیں کہ 21 وی صدی میں سچ کی تعریف بدل گئی ہے  21وی صدی میں سچ وہ ہے جو آپ کو گوگل دیکھاتا ہے ، جو مکسی مم رزلٹ دیکھائے وہی سچ ہے یہ سب آپ کو الگورتھم کی فارم میں دیکھاتا ہے 21 صدی میں ہم کوئی بھی کام  جو ہم کرنا چاہتے ہیں  ، ہم نوکری کیا کرنا چاہتے ہیں ،،کیا پڑھنا چاہتے ہیں اور تو اور ہم شادی کس سے کرنا چاہتے  ووٹ کس کو دینا چاہتے ،انوسٹمنٹ کہاں کرنا چاہیے ،ہم ہر چیز کے لیے اے  آئی سے مدد لیتے  اور یہ   الگورتھم ہی ہے جو ہم سے ہرچیز کا کروارہا ہے

ٹیکنالوجی ہمیں ہمارے جسموں سے دور کرتی جارہی ہے ہم کیا کھا رہے ہیں ؟ہمارے پاس کون بیٹھا ہے؟ ہمسائے میں کون ہے ؟ وغیرہ پر توجہ دینے کی فرصت ہی نہیں کیونکہ ہم سمارٹ فونز پر فیس بک ، یوٹیوب، اور دوسرے آن لائن دنیا میں بے مقصد، آوارہ گھوم رہے ہیں، حد تو یہ ہے اول کھانے کی درسترخوان پر فیملی کا ایک ساتھ کھانے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے اور بیٹھ بھی جائے تو ہم ذہنی طور پر مکمل غیر حاضر ہوتے ہیں کہ کھانے کی ٹیبل پر ساتھ کون ہے، کھانے کا ذائقہ کیا ہے اسکی چندان فکر نہیں، دبیی، اسلام ٓباد، کراچی یا امریکہ میں اپنے دوست ، کزن، یا انجان سے بات کرنا آسان ہے مگر ناشتے کی دسترخوان پر موجود بھائی، بہن، والد ، والدہ،یا بیٹا، بیٹی سے بات کرنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ وہ بھی تو موبائل کی دنیا میں کہیں آوارہ گھم ہیں،

یہ عجلت ، عدم توجہ، اور لاپرواہی ہمیں نہ صرف قریبی رشتوں سے دور کر رہی ہے بلکہ حقیقت، آف لائن دنیا، اور اپنے جسموں سے بھی دور کر رہی ہے، ایسے افراد اور معاشرے جو ماحول سے کٹتے ہیں وہ بے مقصدیت کا شکار ہوتے ہیں، وہ خوش نہیں رہ سکتے، آن لائن دنیا سے جڑے احباب آپکو حوصلہ یا مشورہ دے سکتے ہیں مگر بیماری ،مصبیت یا مشکل میں صرف آف لائن دنیا کے رشتے آپکو ایک گلاس پانی دے سکتے ہیں، اور آپکا سہارہ بن جاتے ہیں۔آن لائن دنیا سے ضرور جڑئیے مگر حقیقت سے ، آف لائن دنیا سے لاتعلق مت ہو جائے

یوول حراری کہتےہیں کہ ممکن ہے کہ  انسان ۲۱ وی صدی میں خدائی خاصیتوں  کی سطح تک اپ گریڈ ہوجائےتاہم اب تک پتھرکے دور جیسے جانور ہےآج بھی ہم گروہ بندی کے محتاج ہیں چاہیے ہم سوشل میڈیا پر کتنے ہی دوستیوں کا دعوی کرے  مگر آف لائن دنیا میں ، شخصی  طور پر صرف سو ڈیڑھ سو  افراد سے ہی جان پہچان رکھتے ہیں انسان اس گروہ بندی کے بغیر خود کو تنہا اور مرکزی دھارے سے کٹا ہو محسوس کرتا ہے ۔ حراری کہتا ہے کہ انسانی گروہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے ،گوشت پوست کی انسانی برادریاں  تخیلاتی  آن لائن  کمیونیٹز یا گروہ متبادل نہیں ہوسکتے آپکے کروڈوں آن لائن یا تصوراتی بھائیوں میں سے کوئی بھی داد رسی نہیں کر سکتامگر کوئی بھی آف لائن دنیا کے قریبی دوست یا بھائی آپکی مدد اوراشک شوئی آسانی سے کر سکتا ہے ۔ یعنی آج انسان نے خود کو   آف لائن یا تخیلاتی دنیا میں خود کو محو رکھا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ لوگ مظبوط ترین روابط کی دنیا میں خود کو تنہا محسوس کر رہے ہیں اور یہی آج کی دنیا میں معاشرتی و سیاسی انتشارکا سبب ہے

جہاں آن لائن کمیونٹی تہذیب و تمدن کے سرحدوں سے نکل کر ایک ہونے کا خواب دیکھ رہے ہیں وہاں آف لائن کمیونٹی تہذیبوں کے تصادم میں سانس لیتے محسوس ہو رہے ہیں ، نظریہ  تہذیبوں کے تصادم کےمطابق انسانیت ہمیشہ سے مختلف تہذیبوں میں پروان چڑھی ہےجس طرح فطری چناوکے قوانین کے تحت بہت سے انواع اپنی بقاکے لئے لڑتی رہی ہیں اسی طرح پوری تاریخ میں تہذبیں باہم جنگوں سے گزری ہیں اور باقی رہ جانے والی تہذیب نے فتح کے گیت گائے ہیں۔

ہراری کہتے ہیں اگرچہ یہ نظریہ تہذیوں کے تصادم ،کیلیش آف سیولایزیشن  کو قبول عام حاصل ہے مگر یہ گمراہ کن اور غلط ہے۔ وہ  کہتا ہے کہ آج تمام عالم انسانیت عالمی قوانین کی پروی کرتا  ہے

We believe we have a lot of knowledge, but we don’t and that’s dangerous

میں شاذ و نادر ہی اپنی خاندان یا دوستوں کے ساتھ سیاست کے بارے میں بات کرتا ہوں ، لیکن جب ہم بات کرتے ہیں تو ، ہم بعض پالیسی سازوں کی "ذہانت” کے پر مذاق اڑاتے ہیں۔ پاکستان میں ، وزیرخزانہ کو اچانک وزیر صحت بنانا یا وزیر اطلاعات کو وزیر سائینس بنانا معمول ہے۔ انتہائی مہارت والے آفیسز کو عید کے تحائف کی طرح تبدیل کیا جاتا ہے ، جس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ کوئی شخص دوائی اور فوجی دفاع دونوں میں کس طرح ماہر ہوسکتا ہے؟

حقیقت میں ، یہ مسئلہ ہم سب کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم چار منٹ کی کتابوں پربہتر سمجھ کے لیے علمی تعصبات کے بارے میں بہت بات کرتے ہیں۔  ہاراری  اسے کہتے ہیں ‘علم کا وہم۔’ نولج الوجن ، ہم سوچتے ہیں کہ ہم اپنےآباو اجداد  سے کہیں زیادہ جانتے ہیں جب کہ، حقیقت میں ،  ہم بہت سارے معاملات میں کم  فہم  اور بہت ہی کم جانتے جانتے ہیں

مثال کے طور پر ، ہم  اپنی روزمرہ کی زندگی کا انحصار بہت سے ماہرین پرکرتے ہیں۔ ہم اپنا کھانا خود شکار نہیں کرتے ، اپنا مکان، گھر خود نہیں بناتے ، یا خود اپنے کپڑے نہیں سیتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ہوشیار ہیں ، لیکن صرف اس وجہ سے کہ ہم پوری دنیا کے علم تک رسائی حاصل کرسکتے ہیں اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ پہلے سے ہمارے دماغ میں ہے۔

اس کے بجائے ، ہمیں عاجز و انکسار رہنا چاہئے ، شکر گذار رہنا چاہئے ، اورکبھی بھی سیکھنا بند نہیں کرنی چاہیے  اپنی پوری کوشش جاری رکھنا چاہیے

تو دوستو یہ تھا کتاب 21 وی صدی کے  21 اسباق  کا خلاصہ ۔اس کتاب میں بہت  اہم چیزوں پر بات کی گئی ہے جو  کہ میں اس خلاصے میں بیان نہیں کرسکتا  میں تمام کتاب دوستوں کے علاوہ سیاسی رہنما اور و ورکز کے لیے یہ کتاب رکمنڈ کرو گا  کہ اس کتاب کو ضرور پڑھیں ۔  اگر آپ چاہتے ہیں کہ  میں اسی طرح کتابوں  کی روشنی آپ تک پہنچا و تو ضرور  اپنی قیمتی آرا  نیچے  کمنٹس  بکس میں دئجیے ،اور اپنے دوستو سے شیر کرے، اور اگر آپ کوئی مفید مشورہ دینا چاہتے ہیں یا اگر  آپ نے یہ کتاب پڑھی ہے  تو ضرور اپنی رائے دیں ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button