گلگت بلتستان کے حق ملکیت اور حق حاکمیت پر امجد حسین ایڈوکیٹ کا موقف
تحریر : اشفاق احمد ایڈوکیٹ
گزشتہ سال یکم نومبر کو جشن آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی گلگت بلتستان کے صدر امجد حسین ایڈووکیٹ نے واضح الفاظ میں کہا کہ آج کا دن بہت تاریخی دن ہے مگر بد قسمتی سے گزشتہ ستر سالوں سےگلگت بلتستان کے عوام جبر کا شکار اور بنیادی آئینی حقوق سے محروم ہیں. انہوں نے حق ملکیت پر اپنے نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ” پنجاب کی زمینوں کے مالک پنجابی ہیں, سندھ کی زمینوں کے مالک سندھی ہیں , بلوچستان کی زمینوں کے مالک بلوچی ہیں اور خیبر پختون خواہ کی زمینوں کے مالک پشتون ہیں تو یہ کیسے ممکن ہے کہ گلگت بلتستان کی زمینوں کی مالک منسٹری آف کشمیر افیرز ہو؟ انہوں نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ گلگت بلتستان کی تمام اراضی کا مالک یہاں کے باسی ہیں نہ کہ منسٹری آف کشمیر افیرز .
حق ملکیت سے مراد ملکیت کا حق ہے جس کے تحت کسی بھی علاقے کے عوام کو ان کی اراضیات پر مالکانہ حقوق حاصل ہوتے ہیں-
اسلام میں اس صریح اور واضح حق کے تسلیم کئے جانے میں کوئی شبہ نہیں بلکہ یہ حق انسانی زندگی کے بنیادی حقوق کی بنیاد ہے.
دنیا کے تمام جمہوری ممالک کے آئین میں عوام کے حق ملکیت کو تحفظ حاصل ہے۔
اسلامی قوانین میں بھی یہ تحفظ موجود ہے جس میں شاملات دیہہ کو تسلیم کیا گیا ہے۔ اور اس قانون کے تحت کسی بھی گاؤں کے ساتھ ملحقہ غیر آباد زمینوں پر وہاں کے پشتنی باشندوں کا حق ہوتا ہے۔ اس طرح اعلی مالک، ادنی مالک، اور غریب یعنی پناہ گزینوں کے حقوق بھی اسلامی قوانین میں تسلیم کئے گئے ہیں-
جب کہ حق حاکمیت سے مراد حکمرانی کا حق ہوتا ہے. یعنی بغیر کسی قدغن کے سیاسی و اقتصادی فیصلہ سازی کا حق-
یہ درست ہے کہ گلگت بلتستان کے منتخب نمائندوں کو اپنے علاقے کے عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے قانون سازی کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہے نہ ہی حق ملکیت کو تحفظ حاصل ہے.
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایف سی آر کے خاتمے کے بعد سے آج تک گلگت بلتستان کے عوام کے لئے قانون آرڈر کی شکل میں اسلام آباد سے جاری کیا جاتا ہے-
گلگت بلتستان کی نام نہاد اسمبلی کو اس آرڈر میں ترامیم کرنے کا بھی اختیار نہیں ہے نہ ہی اس آرڑر کو گلگت بلتستان کے چیف کورٹ یا سپریم ایپلیٹ کورٹ میں چیلنج کیا جا سکتا ہے اس لئے گلگت بلتستان میں آرڑرز پر چلنے والا نظام نوآبادیاتی دور کی عکاسی کرتا ہے. اس لئے ان بنیادی حقوق کے حصول کے لئے امجد حسین ایڈووکیٹ نے گذشتہ سالوں میں گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں عوامی جلسے منعقد کرکے عوام کو حق ملکیت اور حق حاکمیت پر اپنے موقف سے روشناس کرایا کہ دنیا کی ہر قوم کو اپنے علاقے میں حکومت کرنے کا حق حاصل ہے اور ان کو اپنے علاقے کےوسائل پر بھی پورا اختیار ہے اس لئے گلگت بلتستان کے عوام کو بھی یہ حق ملنا چاہئے.
دو سال قبل گلگت اولڈ شاہی پولو گراونڈ گلگت میں
امجد حسین ایڈووکیٹ نے نظریہ حق ملکیت اور حق حاکمیت پر ایک بہت بڑا عوامی جلسہ منعقد کیا اور اس جلسے میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خصوصی طور پر شرکت کی اور گلگت بلتستان کے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میری جدوجہد آپ کے حقوق کی جدوجہد ہے, آپ کے حق ملکیت اور حق حاکمیت کی جدوجہد ہے. انہوں نے کہا کہ جو بھول چکے ہیں ان کو میں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ گلگت بلتستان وہ علاقہ ہے جہاں کے باسیوں نے ڈوگرہ راج سے آزادی کی جنگ لڑی, مقابلہ کیا, ڈوگرہ افواج کو شکست دیکر اپنی آزادی کا اعلان کیا اور یہ خوبصورت علاقہ پاکستان کے بانیوں کی جھولی میں ڈال دیا –
لیکن پاکستان بننے کے بعد سے 1970 تک یہ علاقہ اور یہاں کے عوام مختلف قوتوں کے ظلم و ستم کا نشانہ بنتے رہیں –
جنھوں نے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی انہیں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا اور ایف سی آر کے کالے اور ظالمانہ قانون کے قیدی بنائے گئے اور جبری بیگار کی چکی میں پستے رہے, لیکن پھر تاریخ نے کروٹ لی اور ذولفقار علی بھٹو نے راجوں اور مہاراجوں کو للکارا, غلامی کی زنجیریں توڑیں, ایف سی آر کا خاتمہ کیا,
سرداری نظام کا خاتمہ کیا اور جبری بیگار کا خاتمہ کیا –
انہوں نے اپنی مرحومہ ماں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے چارٹر آف ڈیموکریسی میں شمالی علاقہ جات کی قانون ساز اسمبلی کو بااختیار بنانے کا وعدہ کیا تھا جسے صدر زرداری نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعے پورا کیا اور جی بی امپاورمنٹ اینڈ سلف گورنیس آرڑر دیا گیا. اس آرڈر کے ذریعے اس علاقے کو اپنی شناخت واپس ملی, حق ملکیت کا حق بحال ہوا. واصخ رہے 2009سے قبل گلگت بلتستان کو ناردرن ایریاز آف پاکستان کہا جاتا تھا –
اس کے علاوہ یہ بات بھی درست ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے گلگت بلتستان کے ڈسٹرکٹ دیامیر میں ہزاروں کنال اراضیات پر عوامی ملکیت کو تسلیم کیا گیا اور عوام کو اربوں روپے کمپنسیشن ادا کرکے حکومت نے عوام سے اراضیات خرید لیں –
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم گلگت بلتستان کے حقوق پر کسی کو ڈاکہ ڈالنے کی اجازت نہیں دینگے اور استحصالی نظام سے نجات کی جدوجہد جاری رکھیں گے. ہم اس سر زمین کی آئینی حیثیت اور حقوق کا تحفظ کریں گے چونکہ گلگت بلتستان کی داخلی خود مختاری پر حملے جاری ہیں عوام کے حق ملکیت پر حملے کئے گئے ہیں ہم سی پیک منصوبے میں گلگت بلتستان کے حقوق کا تحفظ کریں گے کیونکہ گلگت بلتستان ہی ہے جو پاکستان کا اہم گیٹ وے ہے. سی پیک میں گلگت بلتستان کو نظر انداز کیا گیا ہے ہم اس زیادتی کا ازالہ کریں گے –
چیرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے واضح طور پر امجد حسین ایڈووکیٹ کے نظریہ حق ملکیت کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ ہم خالصہ سرکار قانون کا خاتمہ کریں گے اور خالصہ سرکار زمینوں کو عوام کی ملکیت قرار دینگے اور ہم دیامیر بھاشا ڈیم اور بونجی ڈیم سے گلگت بلتستان کی منصفانہ رائلٹی کو یقینی بنائیں گے –
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ امجد حسین ایڈووکیٹ کا نظریہ حق ملکیت اور حق حاکمیت ایک مضبوط فکر اور نظریے کے طور پر گلگت بلتستان کے عوام میں سرایت کر گیا ہے. عوام میں اس نظریے کو بہت کم مدت میں بہت زیادہ پزیرائی ملی ہے. چونکہ عوام میں ہمیشہ ایسے نظریات اور نمائندوں کو پزیرائی ملی ہے جو عوامی امنگوں کے حقیقی ترجمان ہوں ,جو عوام کی زبان بولتے ہوں اور جو جمہوریت کے اس بنیادی اصول پر کامل یقین رکھتے ہوں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور ان کی بنیادیں عوام میں ہوں نہ کہ سرکاری پاور کوریڈورز کے دفتروں میں. مگر بد قسمتی سے گزشتہ ستر سالوں سے اس خطے کو نوآبادیات کی طرح رکھا گیا ہے اور یہاں کی اراضیات پر مقامی لوگوں کے حق ملکیت کو قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے نہ ہی یہاں کے منتخب نمائندوں کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے نہ ہی وفاق پاکستان سے لاگو کئے جانے والے آرڈرز میں ترامیم کرنے کا اختیار حاصل ہے. گلگت بلتستان میں ایک ایسا قانون نافذ ہے جس سے خالصہ سرکار کہا جاتا ہے جس کے تحت گلگت بلتستان کی بنجر زمینوں کو خالصہ سرکار قرار دیا جاتا ہے-
خالصہ سرکار قانون دراصل باہر سے لا کر نافذ کیا گیا ایک نوآبادیاتی قانون ہے جس سے گلگت بلتستان کی قوم نے مسترد کردیا ہے مگر اس کے باوجود بھی سابقہ حکومت نے گلگت بلتستان میں عوامی اراضیوں کو خالصہ سرکار قرار دے کر قبضہ کر لیا ہے. خالصہ سرکار کی زد میں آنے والی ہزاروں کنال پر مشتمل یہ اراضیات چھلمس داس, مناوار, منی مل,مقپون داس پر مشتمل ہے. حکومت نے ان اراضیات کو خالصہ سرکار قرار دے کر اداروں کو الاٹ کردیا ہے جس کے خلاف گلگت بلتستان کے لوگوں نے کئی دفعہ احتجاج بھی کیا ہے. عوام اور سرکار کے درمیان ان اراضیات پر تنازع موجود ہے اور تا حال اس مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا ہے جبکہ گلگت بلتستان کی عدالتوں میں بھی ان متنازعہ اراضیات کے حوالے سے کئی مقدمات زیر سماعت ہیں.
اگرچہ گذشتہ حکومت نے گلگت بلتستان میں زمینوں کا یہ مسئلہ حل کرنے کیلئے ایک لینڈ ریفارمز کمیشن بھی قائم کیا لیکن سرکار عوام کو مطمئن نہیں کرسکی اور یہ مسئلہ آج بھی بدستور حل طلب ہے. نتیجتاً خالصہ سرکار اراضیات کی وجہ سے عوام میں شدید بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے جس کا واحد حل عوامی اراضیات پر عوامی مالکانہ حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے خالصہ سرکار قانون کا خاتمہ ہے. لہذا اس اہم قومی مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے عوام میں یکجہتی پیدا کرنا ان کی رہنمائی کرنا, ان کی شکایات اور مطالبات کو تسلیم کرتے ہوئے گزشتہ ستر سالہ محرومیوں کا ازالہ کرنا , ناتوڑ رول اور خالصہ سرکار جیسے کالے قانون کو ختم کروا کر ان کی اراضیات پر ان کے مالکانہ قانونی اور شرعی حق کو تسلیم کروانا گلگت بلتستان کی مقامی قیادت کا بنیادی فرض ہے. دوسری طرف گلگت بلتستان کے قومی حقوق کے حصول کے لئے باشعور نوجوانوں کا یہ قومی فریضہ ہے کہ وہ قومی حقوق کا سودا کرنے والے افراد کو مسترد کریں اور انہیں کہہ دیا جاۓ کہ بس بہت ہوگئی لوٹ کھسوٹ. باشعور نوجوان عوام کو بتلائے کہ وہ اس قومی مفاد کے حصول کے لئے ایسے سیاسی نمائندوں کو انتخابات میں ووٹ اور سپورٹ کرکے قومی نمائندگی کے لئے منتخب کریں جو گلگت بلتستان کے قومی حقوق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں اور اس خطے میں موجود ستر سالہ محرومیوں کے خاتمے کیلئے قانون سازی کرنے کی اہلیت کے حامل ہوں نہ کہ اشاروں پر ناچنے والے کٹھ پتلی ہوں. چونکہ موجودہ معروضی حالات میں گلگت بلتستان کےعوام کے سامنے اپنی مشترکہ قومی بقا کے دو ہی
راستے ہیں : یا تو وہ آنکھیں بند کرکے خاموش تماشائی بن کر اپنے قومی وسائل کا استحصال کرنے دیں اور اپنی زمینوں سے دستبردار ہو جائیں یا پھر اپنے حق ملکیت اور حق حاکمیت کے حصول کیلئے عملی قدم اٹھاۓ اور اور ایک قوم بن کر اپنے مشترکہ حقوق کے تحفظ کو یقینی بنائیں.
گلگت بلتستان میں یہاں کے مقامی لوگ صدیوں سے آباد ہیں اور ہزاروں سالوں سے یہ علاقائی رواج اور قانون ہے کہ ہر گاؤں کے ساتھ ملحقہ پہاڑ، چراگاہیں اور بنجر اراضی اسی گاؤں کے لوگوں کی مشترکہ ملکیت ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ ایک گاؤں سے متصل پہاڑ، چراگاہوں اور بنجر اراضی پہ دوسرے گاؤں کے لوگوں کا بھی کوئی حق نہیں ہوتا۔ اور دوسرے گاؤں کی چراگاہوں میں بغیر اجازت گھاس چرائی تک نہیں کی جا سکتی تو ایسے میں عوامی ملکیتی بنجر اراضیات خالصہ سرکار کیسے ہوسکتی ہیں؟ چونکہ اس طرح کا کوئی خالصہ سرکار نامی قانون پنجاب میں موجود نہیں جہاں سے اس خالصہ سرکار کی بنیاد رکھی گئی تھی نہ ہی سندھ, بلوچستان اور خیبر پختون خواہ اور آزاد کشمیر میں اس طرح کا کوئی نوآبادیاتی قانون موجود ہے تو پھر گلگت بلتستان میں ایسا قانون کیوں نافذ ہے؟
اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ گلگت بلتستان کے عوام تمام تعصبات اور نفرتوں کو بھلا کر یک جان ہو کر اپنے قومی حق ملکیت اور حق حاکمیت کی بحالی کے لئے جدجہد کریں چونکہ یہ زمین ہماری ہے اور ہم اس کے مالک ہیں. بقول توقیر گیلانی
یہ رسیاں تو کھول دو ، یہ طوق اب اتار دو
ہم آدمی نہیں ہیں کیا ؟ ہمیں بھی اختیار دو
ہمیں بھی اختیار دو کہ ہم بھی گفتگو کریں
ہمارے اپنے جشن ہوں ، ہم اپنی ہاؤ ھُو کریں
ہمارے ہاتھ، پیر ، آنکھ، کان، سر نہیں ہیں کیا؟
ہمارے شوق اور یقیں، ہمارے ڈر نہیں ہیں کیا؟
ہمارے روز و شب رہینِ اذنِ غیر کس لیے ؟
تمھارا کچھ لیا نہیں تو ہم سے بیر کس لیے ؟
ہوس اگر کھلی رہی تو پیار مرتا جائے گا
تمھارا جبر اس فضا میں زہر بھرتا جائے گا
تمھارے حق میں جو بھی کوئی دلیل ہے فضول ہے
زمین مالکوں کی ہے ، مسلمہ اصول ہے-