کالمز
اشکومن خاض میں بجلی گھر کی آبی گزرگاہ، یا موت کا کنواں!
تحریر: صاحب مدد
اشکومن خاض میں محکمہ برقیات کی مرکزی واٹر چینل کو غالباً 1980 کی دہائی میں پن بجلی پیدا کرنے کی غرض سے بنائی گئی تھی ۔ یہ چینل فیض آباد اور داؤد آباد گاؤں کے درمیان سے گزر کر داؤد آباد میں واقع مرکزی واٹر ٹینکی میں پانی سٹور ہو کر پاور ہاؤس میں ٹربائن چلانے کے کام آتا ہے۔
چونکہ یہ واٹر چینل لنگ روڈ فیض آباد کے ساتھ بنی ہوئی ہے، اور لوگوں کے گھروں کے بلکل درمیان سے گزرتی ہے اس واٹر چینل پر حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی وجہ سے ابھی تک چار لوگ گر کر لقہ اجل بن چکے ہیں اور درجنوں لوگ جن میں بچے، عورتیں اور بوڈھے شامل ہیں کو مقامی لوگوں نے بروقت نکال کر جان بچا لیا ہے۔ مال مویشی کا گرنا اس چینل میں روز کا معمول ہے ایک اندازے کے مطابق اب تک بیل، گائے، خوش گائے، بکریاں، بکرے، اور مرغیاں وغیرہ سینکڑوں کی تعداد میں اس واٹر چینل میں گر کر مر چکی ہیں۔
محکمے کی غفلت کی وجہ سے اس واٹر چینل پر حفاظتی اقدامات نہ ہونے کی برابر ہیں جگہ جگہ سے یہ چینل ٹوٹ پھوٹ چکی ہے ، پانی لیک ہو کر لوگوں کے زمینوں اور گھروں میں نکلتا ہے۔ مقامی لوگوں نے معتدد بار محکمے کے زمہ داران کے ٹونس میں لانے کے باوجود کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں اٹھایا جا رہا ہے۔ واٹر چینل کے ساتھ بنی لنگ روڈ کی بھی حالات زار بہت خراب ہے، روڈ تنگ ہونے کی وجہ سے بیک وقت دو گاڑیاں مختلف سمیت میں نہیں گزر سکتی ہے، جگہ جگہ میں پانی لیک ہو کر روڈ کو برباد کر دیا ہے، اس روڈ پر سردیوں میں پانی کی لیکیج کی وجہ سے روڈ پر برف جم جاتی ہے اور گرمیوں میں جگہ جگہ کیچڑ بھر جاتا ہے۔ جس سے مقامی لوگوں کی زندگی اجیرن بنی ہوئی ہے۔
آج سے تقریباً دس سال پہلے مقامی لوگوں کی شکایت پر محکمے برقیات نے اس واٹر چینل پر پہلے سیفٹی وال بنائی اور بعد ازاں اس پر چھت ڈال کر مکمل طور محفوظ بنانے کی کوشش کی تھی جو خوش آئند اقدام تھا جس سے کافی حد تک لوگوں کی پریشانیوں میں کمی آئی تھی۔ مگر اس واٹر چینل پر مکمل طور پر چھت نہیں ڈالی گئی تھی اب بھی ہر دو سے ڈھائی سو فٹ کے درمیاں تین سے چار فٹ کی خالی جگہ رکھی گئی ہے جب زمہ داران سے اس معاملے پر پوچھا گیا تو بتایا جاتا ہے کہ جب چینل کی صاف صفائی ہوگی تب اس کھلی جگہ سے کچرا، ریت، پھتر وغیرہ باہر نکالنے کے کام آتا ہے۔ مگر اس کا آسان سا حل بھی موجود ہے ان جگہوں پر لوہے کے بنے ہوئے جھالی نما شے سے ڈھانپا جائے ضرورت پڑنے پر اس کو کھول کر صاف صفائی کے بعد واپس بند کیا جائے تاکہ عوام کی جان و مال محفوظ رہ سکے۔
یہ غالباً 2013 کی بات ہے ڈی جے سکول فیض آباد اشکومن کے بچے سکول سے چھٹی ہو گھروں کو واپس لوٹ رہیں تھے اچانک ایک چھوٹا بچہ واٹر چینل کے دیوا پر چڑھ کر پانی میں ڈوب کیا اس کا بڑا بھائی اس سے ایک دو سال کا بڑا ہوں اپنے چھوٹے بھائی کو بچانے کی غرض سے پانی میں کودا پڑا پانی کی بے رحم موجیں اس کو بھی بہا کر لے گی خوش قسمتی سے مقامی لوگوں نے بروقت دونوں کو بچا لیا۔
کچھ سال پہلے کی بات ہے ایک بوڈھی عورت جس کے گھر کے ساتھ سے یہ واٹر چینل گزار رہی ہے عوت چونکہ بینائی کمزور ہونے کی وجہ سے اس واٹر چینل میں گر گئی اس کو بھی مقامی لوگوں نے بروقت نکال کر جان بچا لیا۔ اس طرح کے سینکڑوں واقعات رونما ہو چکے ہیں۔
فیض آباد اشکومن سے تعلق رکھنے والے دو کم سن بچے آج سے کچھ سال پہلے اس چینل میں گر کر لقمہ اجل بنے ہیں اور آج شینکی اشکومن سے تعلق رکھنے والے ماں اور اس کا کم سن تین سالہ بچہ رات دو بجے کے درمیان نالہ جاتے ہوئے بارش میں ماں کا پاؤں پھسلنے کی وجہ سے دونوں ماں بچہ واٹر چینل میں گر کر جان بحق ہوئے ، عورت کے شوہر کے مطابق اس نے ان کو بچانے کی بھرپور کوشش کی مگر گھپ اندھیر اور دو مزید ان کے چھوٹے بچے ساتھ ہونے کی وجہ سے ان کو سنبھالتے ہوئے اپنی بیوی اور تین سالہ بچے کو بچا نہیں سکا۔ ان کی لاشیں مقامی لوگوں نے محکمہ برقیات کی مرکزی وٹر ٹینکی واقع داؤد آباد سے صبحِ کے وقت برآمد کر کے ورثا کے حوالے کر دیا۔
اس تحریر کے زریعے میں غزر انتظامیہ اور محکمہ برقیات غزر کے زمہ داروں سے گزارش کرو گا کہ ہر ممکن کوشش کر کے اشکومن محکمہ برقیات کی مرکزی واٹر چینل پر فوری حفاظتی اقدامات کر کے لوگوں کی قیمتی جان و مال کی حفاظت کو یقینی بنائے ورنہ عوام محکمہ برقیات اور انتظامیہ کے خلاف سڑکوں پر آنے سے بھی دریغ نہیں کریں گی۔