کالمز

دیوانوں کی باتیں —– کرونا  کی آمد اور ہمارا انخلا  (آخری قسط )

تحریر : شمس الحق قمرؔ بونی
حال گلگت

بہر حال  گلگت کے حالات  دیکھ کر موت اتنی قریب معلوم ہوئی کہ اپنی مٹی میں جاکے موت کو خوش آمدید کہنے میں راحت محسوس ہوئی  ۔  میں نے جب  چترال جانے کی خواہش کا اظہار کیا  تو بیوی نے   حسب روایت  سوال جھونک دیا   اور بولیں”   یہ ایک متعدی  وبا ہے یہ تو چترال میں بھی  پھیل سکتی ہے  موت  اگر  یہاں آنی ہے تو یہاں آئے گی  اگر کسی اور جگہ آنی ہے تو  وہاں آئے گی  اس سے بچ کے کہاں جانا ہے ؟”  جواب میں، میں نے ایک جملہ کس دیا ”  ارے یار یہاں اگر مر گیا  تو مجھے کون  گاؤں لے جائے گا ”        یعنی  ” ہیئ کہ ابریتام  کیچہ بوسی؟ ” یہاں قابل  توجہ بات یہ ہے کہ میں  صرف اپنا  ہی سوچ رہا تھا  ۔  اس جملے پر میں نے بعد میں بھی بہت غور کیا    اور اس میں کسی رد و بدل کی ضرور ت محسوس نہیں ہوئی ۔نتیجہ یہ  نکلا  کہ مشکل وقت میں انسان   ، یعنی میرا  جیسا انسان ، اپنا ہی سوچتا ہے ۔

  بیوی اور بچے سے اگلی صبح  گلگت سے نکلنے کا مشورہ کیا ۔   یہاں سے چترال بہ راستہ شندور  یہی کوئی  250  کلو میٹر ہے  لیکن شندور تو بند تھا   لہذا  یہاں سے  بہ راستہ سوات   750 کلومیٹر  کی  طویل مسافت   طے  کر  کا ارادہ  پکا ہو گیا   ۔  اُن دنوں چترال میں داخلہ ممنوع  تھا   کیوں کہ چترال  پاکستان  کا  وہ واحد ضلع تھا جس میں ابھی تک کرونا   کے سر اُٹھانے  کی ہمت نہیں ہوئی تھی   لہذا میں نے اپنے دوست  پولیس افیسر    ایس ـ پی  محمد خالد سے  مشورہ کیا  جو کہ حالیہ  مخدوش حالات  میں    چترال میں لوگوں کی نقل و حرکت پر  نظر ثانی  کے فرائض پر مامور تھے  ۔  خالد  بھائی سے رابطہ کیا تو انہوں نے  کام کو اور بھی پُر پیچ بنا دیا  ، کہا کہ  میری  اور آپ کی دوستی اپنی جگہ مجھے اُمید  بلکہ یقین  ہے  کہ آپ مجھ سے     قانون شکنی ت کا تقاضا  ہر گز نہیں کریں گے   ۔

ہمارے قانون کے مطابق تین   شرائط ہیں اگر آپ  اُن شرائط پر پور ا      اُترتے ہیں  تو  چترال آسکیں گے   اگر ایسا نہیں ہے تو  اپنے اور اپنے پورے خاندان کے بہتر مفاد  میں  کسی بھی حال میں گلگت میں ہی  خود نظر  بندی میں رہیے گا  ۔ اُن کی شرائط   ِتمہیدی یہ تھی:

اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے چترال آنے والے  کنبے کے افراد نے گزشتہ  15 دنوں کو   طبی قید  میں گزارا ہو  ۔ کسی اور جگہ  سفر  اختیار کرنے کا اتفاق نہ ہوا ہو ۔

کسی مستند ڈاکٹر کی طرف سے یہ سند موجود ہو کہ  آپ   گزشہ  15  دنوں سے  اپنے گھر  سے باہر نہ گیے ہوں   اور یہ کہ  آپ کے جسم کا درجہ حرارت    37   اعشاریہ  5سنٹی گریڈ سے زیادہ نہ ہو آپ چترال سفر کے دوران گلگت سے چترال تک اپنی ذاتی گاڑی استعمال کریں گے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ  ان تمام شرائط پر  پوراترنے کےباوجود بھی   آپ پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ چترال آتے ہوئے  راستے میں کھانا   کھانے سے  پرہیز  کریں ، راستے میں کہیں رات نہ گزاریں  اور اگر کہیں گاڑی سے اترنا ہو تو اپنے اور پورے خاندان والوں کے ہاتھ  صابن سے خوب اچھی طرح دھو ئیں ۔   خالد  کی صفائی کے حوالے سے ارشاد مکرر نے  میرے ذہن کو اور  بھی حساس بنادیا ۔     میں نے سوچا  کہ یہ کیسا  ہم جماعت دوست  ہے  جو   میری مدد  کے عین وقت   قانون آڑے لاتا ہے  لیکن  پھر میں نے سوچا کہ  خالد   بالکل  بجا کہ  رہے ہیں  ۔ حقیقتاً وہ  اس انداز سے میری مدد  کر رہے تھے  ۔   مجھ سے کسی کو بیماری  نہ لگے اور نہ  کسی اور سے مجھے لگے ۔  لہذا  خصوصی طور پر اس  مخصوص  متعدی  بیماری  میں  قانوں کا احترام  اور   شعبہ صحت  سے وابستہ  افراد  کی نصیحت پر عمل  اشد ضروری ہے ۔ میں چونکہ  گزشہ ایک مہینے سے کہیں نہیں گیا تھا    اور کوئی  ہلکی حرارت  یا  بخار  وغیرہ بھی نہیں تھا  لہذا میں  گلگت میں ایک مستند ڈاکٹر کے پاس گیا  اور اُنہیں اپنی کہانی سنائی ۔ ڈاکٹر نے کئی  ایک  پچیدہ  سوالات پوچھنے  کے بعد  مجھے  میری بیوی اور بیٹے کے نا م سرٹیفیکیٹ جاری کردی ۔

گاڑی اپنی تھی تو  اگلی صبح  5  بجے  ہم نے گلگت کو خیر باد کہا ۔  یہاں سے  شانگلا  ٹاپ  (  200 کلومیٹر) تک  راستے  میں کوئی پوچھ گچھ نہیں ہوئی  ۔ شاہراہ قراقرم  شہر خموشان  کا  منظر پیش کر رہی تھی    کوہستان  کی تنگ و  تاریک    پہاڑوں سے گزرنے والی شاہراہ قراقرم کے سنگ  آباد  چند ایک  ہوٹل   کھنڈرات  کا نمونہ  پیش کر   رہے تھے  ۔  ہم جب شانگلا  ٹاپ پہنچے تو  پاکستان آرمی کی  طرف سے بہت سخت ناکہ بندی تھی۔ پوچھ گچھ ہو رہی تھی کہ کون کہاں سے آ رہا ہے ، کہاں جا رہا ہے ، کیوں جا رہا ہے ،   وہاں سے کب لوٹے گا  ٹمپریچر ہے اگر ہے تو  کتنا ہے  وغیرہ وغیرہ  – گاڑیوں  کی ایک لمبی قطار تھی     ۔  میں گاڑیوں کی  قطار میں پیچھے  دور کہیں کھڑا  تھا  کہ ایک باوردی نوجوان  منہ میں حفاظتی ماسک باندھے  میری جانب لپکے ۔ میں نے سوچا کہ شاید میں نے گاڑی  غلط جگہ کھڑی کی ہے۔ فوجی نوجوان کوکہاں معلوم کہ میں ایک ایسے سکول کےسرخیل اساتذہ میں سے ایک ہوں  جن کے  سامنے زانوئے  ادب  تہہ  کرنے والے نونہال آج پاکستان کے    بڑے بڑے ادروں کے بڑے بڑے نام ہیں۔        یہ فوجی جوان آئے گا اور  بہت ممکن ہے کہ میرے ناکردہ  گناہوں کے پاداش میں  میرے ساتھ  بد تمیزی بھی کریگا  ۔

میں یہی سوچ رہا تھا  کہ نوجوان میری گاڑی کے دروازے تک پہنچے ،  میری  گاڑی کا دروازہ  کھول دیا  اور اپنا ماسک اُتا ر کر اپنا تعارف کیا  ” سر میں آپ کا شاگرد   کپٹن رضوان ہوں  میری ڈیوٹی یہاں ہے دور سے آپ کی گاڑی کو پہچانا اور دوڑ کے   آیا ۔ آج آپ میرے مہمان ہیں ”   مجھے دیکھ  کرمیرے بچے  کے چہرے پر ابھرنے والے   بشاشت کے احساسات معنی خیز تھے۔ لیکن  وقت کی نزاکت ایسی تھی کہ میں رضوان کو  وقت دینے سے قاصر تھا  لہذا      میں نے    اپنے دوست خالد  کی طرف سے  موصول ہونے والی ہدایات    رضوان کے گوش گزار کر کے    اُن سے اجازت لی ۔  انہوں نے مجھے   گاڑیوں کی قطار سے  نکالا اور  ضروری پوچھ  گچھ   اپنے بہی کھاتے میں درج کر کے رخصتی دی  ۔  اُس دن معلوم ہوا کہ  تدریس  کی دنیا  کتنی وسیع ہے ۔  ایسی جگہوں میں  بڑی بڑی مچھلیوں کو  قطار  میں کھڑی  رہنا پڑتا ہے ۔

یہا ں سے  سوات اور  بالائی دیر تک  سفر  اور خوراک  کے علاوہ  کسی بھی مسئلے کو  حل کرنے کی ذمہ داری   ہمارے پہلے   بیچ کے طالب علم  میجر شفا علی کی تھی ۔ جس نے سارے انتظامات کئے ہوئے تھے لیکن    شانگلا ٹاپ سے دیر تک  شفا علی کو مزید زحمت دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی ۔   ہم جیسے ہی سوات میں داخل ہوئے تو یہاں  بھی تمام ہوٹل بند تھے  ۔   دیر پہنچتے ہی خالد بھائی کا فوں آیا   ۔  انہوں نے   ہمیں یقین دہانی کی کہ  انہوں نے  آگے تمام چیک پوسٹ پر   ہمارا  غائبانہ  تعارف کیا ہوا ہے ۔

ہم رات 11 بجے  دروش پہنچے یہاں  اپنے عزیز مسرور کے دولت خانے میں رات گزاری اور   صبح  جب چترال بازار پہنچے  تو ہر طرف   ہو کا عالم تھا   یہاں تک کہ کوئی پرندہ  بھی پر   مارتے ہوئے نہیں دیکھا گیا ۔ ہم  پی – آئی – اے افس کےقریب  پہنچے  تو  چترال  پولیس کا  چوق و چوبند  دستہ     کھڑا تھا ۔   چترال پولیس کا کیا  کہنا    ۔  کاش پاکستان   کے دوسرے  صوبوں کی پولیس بھی  عوام   کے ساتھ  ایسے ہی ادب سے پیش  آئے ۔   پولیس نے  ہمیں  رکنے کا اشارہ کیا ہم رکے تو  ڈیوٹی پر مامور    پولیس  اے  ایس آئی نے   ہمارا تعارف پوچھا  ۔ ہم نے ااپنا  تعارف کیا  تو پولیس آفیسر نے کہا ”  سر  پھسہ   بازارین بوغور  مگر  کورا  رک بیکو اجازت نیکی ۔  مہ اُمید شیر کہ   مہ لوو ہوش کوریرو بومی ”    اب چترال پولیس کے  فرض شنا س افیسر نے ہمیں  کچھ اس انداز سے سمجھایا تھا کہ   ہم اخلاقی طور پر  کہیں رک  نہیں سکتے تھے ۔   میں یہاں پر  چترال پولیس کی لیڈر شب کو  خراج پیش کرتا ہوں  کہ جنہوں نے  اپنی پولیس کو اعلی ٰ اخلاقی  اقدار  کا بہترین نمونہ  بنایا ہوا ہے ۔ بالائی چترال جاتے ہوئے  ایک دو جہگوں پر پولیس نے روک  لیا  ۔، تعارف ہوا  تو   تعار ف کروانے کی زحمت   کو ڈیوٹی کی مجبوری   کہہ کر ہمیں   رخصتی  دی ۔  میرا   خیال ہے  کہ جس  جگہے کی پولیس میں  اس انداز کی انسانی  صفات موجود ہوں تو  ایسے علاقوں میں  جرم  کا سوال ہی  پیدا  نہیں ہوتا ۔  جرم وہاں ہوتے ہیں جہاں انسانوں کے ساتھ   انسانوں والا  سلوک  نہیں ہوتا ۔

میری دعا ہے کہ اللہ اس فورس کو ہر مصیبت سے  دور رکھے ۔ پولیس   نے  تو ہمیں چھوڑ دیا   لیکن  گھر  میں  15 دنوں کی قید بامشقت   کا وارنٹ   جاری ہوا تھا ۔ ہم جیسے ہی  گھر پہنچے  تو  ماں  پاب  اور بہن بھائیوں نے دور سے ہاتھ ہلایا اور  ہمیں  قرنطینہ  جانے کا اشارہ کیا ۔

ہم نے 15 دن   کمرے سے باہر نکلے بغیر گزارے  ایسی تنہا گزاری  یا روپوشی کو   حالیہ   وبا  کی زبان  میں قرنطینہ کہتے ہیں ۔  چترال  میں ہر آدمی کو باہر کسی شہر سے آنے کے بعد  گھر کے اندر نظر بند  رہنا پڑتا ہے ۔   جو کہ ہم نے گزاری ۔

کسی نے کیا خوب کہا تھا ” یہ وقت بھی گزر جائے  گا۔”

Print Friendly, PDF & Email

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button